پاکستان کے اگلے چھ ماہ- جاوید چوہدری
یہ کہانی 5 اگست 2019کو اسٹارٹ ہوئی‘ بھارت نے اچانک آئین کا آرٹیکل 370 اور 35اے ختم کر دیا جس کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر کا خصوصی اسٹیٹس بھی ختم ہو گیا اور غیر کشمیریوں کو مقبوضہ کشمیر میں جائیدادیں خریدنے کی اجازت بھی مل گئی۔
یہ پاکستان اور کشمیریوں کے لیے قابل قبول نہیں تھا لہٰذا پاکستان نے بھارت سے ہر قسم کے تعلقات منقطع کر دیے اور عالمی سطح پر شدید احتجاج شروع کر دیا‘ یہ اس خطے کا پہلا اہم واقعہ تھا‘ دوسرا اہم واقعہ 16 جون 2020 کو پیش آیا‘ چین نے لداخ کی گلون ویلی میں اپنی فوج داخل کر دی اور بھارت کے 38 ہزار مربع کلو میٹر علاقے پر قبضہ کر لیا‘ جھڑپیں شروع ہوئیں اور بھارتی فوج کو شدید نقصان اٹھانا پڑ گیا‘ چین دفاعی لحاظ سے بھارت سے دس گنا بڑا ملک ہے۔
بھارتی حکومت پریشانی میں پاک بھارت سرحد سے اپنی فوجیں انڈو چائینہ بارڈر پر شفٹ کرنے پر مجبور ہو گئی یوں 1965کے بعد پہلی مرتبہ پاکستان اور بھارت کی سرحد پر دونوں سائیڈز پر فوجیں برابر ہو گئیں‘ ہم اگر آج بھارت پر حملہ کر دیں تو بھارت کے لیے مقابلہ مشکل ہو جائے گا ‘کیوں؟کیوں کہ ایک طرف چین اسے دبا لے گا اور دوسری طرف پاکستان اسے ہلنے نہیں دے گا اور یہ 1962 جیسی صورت حال ہے‘ ایوب خان کے دور میں اکتوبر1962 میں چین اور بھارت کے درمیان جنگ شروع ہو گئی تھی۔
جواہر لال نہرو کو خطرہ تھا پاکستان اس صورت حال سے فائدہ اٹھائے گا چناں چہ بھارت نے امریکا کے ذریعے ایوب خان سے گارنٹی لی تھی ’’پاکستان موقع کا فائدہ نہیں اٹھائے گا‘‘ آج بھی آپ کو درجنوں لوگ مل جاتے ہیں جو یہ کہتے ہیں’’ہم نے 1965 کے بجائے 1962 میں بھارت سے جنگ لڑی ہوتی تو کشمیر ہمارا ہوتا‘‘ بہرحال ماضی ماضی ہے‘ ہم اسے چھوڑ دیتے ہیں اور 16 جون 2020کی طرف آتے ہیں‘ چین نے نہ صرف انڈو چائینہ بارڈر گرم کر دیا بلکہ اپنی فوج کا بڑا حصہ بھی وہاں شفٹ کر دیا جس کے بعد بھارت بھی اپنی فوجیں‘ توپیں‘ میزائل اور ٹینک شمال میں لے جانے پر مجبور ہو گیا۔
یہ صورت حال پاکستان کے لیے آئیڈیل تھی‘ بھارت کے دفاعی تجزیہ کاروں کا خیال ہے چین نے پاکستان کو سپورٹ دینے کے لیے اپنی فوجیں ہماری سرحدوں پر بٹھائی ہیں اور ہمارے پاس اب دو آپشن ہیں‘ ہم پاکستان کے ساتھ ساتھ چین سے بھی لڑنا شروع کر دیں یا پھر ہم چین اور پاکستان دونوں یا کسی ایک ملک کے ساتھ اپنے تعلقات ٹھیک کر لیں‘ بھارت کو دوسرا آپشن سوٹ کرتا ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ بھارت میں کشمیر اورمیزو رام دو اندرونی فلیش پوائنٹس ہیں‘ انڈیا کی آدھی فوج وہاں تعینات ہے اور آدھی پاکستانی سرحد پر اور یہ اب اگر چین سے بھی جنگ چھیڑ لیتا ہے تو یہ معاشی طور پر تباہ ہو جائے گا چناں چہ اس کے پاس ایک ہی آپشن بچتا ہے‘ یہ چین یا پاکستان یا پھر دونوں سے ڈائیلاگ شروع کر دے‘ چین نے اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا ہے چناں چہ بھارت کے پاس اب پاکستان کے علاوہ کوئی آپشن نہیں اور بھارت یہ آپشن لینے کے لیے تیار ہے۔
بھارت کی خفیہ ایجنسی را نے دسمبر 2020 میں پاکستان کی اعلیٰ انٹیلی جنس ایجنسی سے رابطہ کیا اور دونوں ملکوں کے درمیان ڈائیلاگ کی پیش کش کی‘ یہ پیش کش وزیراعظم کے سامنے رکھی گئی اور یوں وزیراعظم کی اجازت سے ڈائیلاگ شروع ہو گیا‘ پاکستان کو چین کے صدر شی جن پنگ کی آشیرباد بھی حاصل تھی‘شی جن پنگ کا مشورہ ہے پاکستان کشمیر پراپنی حکمت عملی بدل لے‘ یہ اسے فوجی کے بجائے انسانی حقوق اور اخلاقیات کا ایشو بنا دے اور اپنی ساری توانائیاں معاشی بہتری پر لگا دے۔
پاکستان اگر معاشی طاقت بن گیا تو کشمیر خود بخود پاکستان کو مل جائے گا‘ چین کا مشورہ درست ہے‘ ہمیں واقعی اپنی معیشت پر توجہ دینی چاہیے‘ ہم معاشی طور پر ڈیفالٹ کے قریب ہیں اور یہ ہمارے لیے انتہائی خطرناک ہے چناں چہ پاکستان نے بھارتی پیش کش قبول کر لی‘ خفیہ مذاکرات شروع ہو گئے‘ دو ماہ تک دونوں ایجنسیاں مذاکرات کرتی رہیں‘دبئی میں ملاقاتیں بھی ہوئیں‘ پھر بھارت کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول بھی مذاکرات میں شامل ہوئے اور تین فیصلے ہو گئے‘ پہلا فیصلہ‘ دونوں ملک کسی یورپی ملک یا امریکا کو مذاکرات میں شامل نہیں کریں گے۔
یہ مذاکرات صرف اور صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوں گے اور کوئی تیسرا فریق ان میں شامل نہیں ہوگا‘ دوسرا فیصلہ‘ بھارت آرٹیکل 35 اے واپس لے لے گا اور پاکستان 370 کے اخراج کو قبول کر لے گا اور تیسرا فیصلہ‘ دونوں ملک سیاحت‘ تجارت‘ راہ داری‘ سیاچن‘ سرکریک اور سرحدی مسائل کے حل کے لیے ورکنگ گروپس بنائیں گے‘ یہ گروپس فیصلے کریں گے اور ان فیصلوں پر عمل درآمد شروع ہو جائے گا اور اس بار دونوں ملکوں میں کچھ بھی ہو جائے لیکن یہ گروپس نہیں ٹوٹیں گے اور مذاکرات جاری رہیں گے اور دونوں ملک کشمیر پر تین سال بعد مذاکرات شروع کریں گے۔
یہ فیصلہ بھی ہوا بھارت تعلقات کا آغاز کرے گا اور پاکستان اس کا مثبت جواب دے گا چناں چہ نریندر مودی نے 23 مارچ 2021 کو عمران خان کو خط لکھ دیا‘ عمران خان نے 30 مارچ کو مثبت جواب دے دیا اور 18 مارچ کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نیشنل سیکیورٹی ڈائیلاگ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہہ دیا ’’پاکستان اور بھارت ماضی بھلا کر آگے بڑھیں‘‘ پاکستان نے اگلا قدم اٹھاتے ہوئے 31مارچ کو بھارت سے تجارت کھولنے کا اعلان بھی کر دیا‘ یہ اعلان قوم کے لیے حیران کن تھا‘ حکومت پر دباؤ آیا اور حکومت نے اگلے دن یہ اعلان واپس لے لیا لیکن اعلان کی واپسی کے باوجود مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا‘ اب بھارت کی طرف سے ہاتھ بڑھایا جائے گا۔
پاکستان یہ ہاتھ تھام لے گا اور یوں کسی بھی وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات شروع ہو جائیں گے‘ میں یہاں یہ بھی بتاتا چلوں ان مذاکرات کے معاملے میں فوج اور سول حکومت دونوں پچاس سال بعد ایک پیج پر ہیں‘ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی ریٹائرمنٹ اور عمران خان اپنی مدت پوری ہونے سے پہلے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو نیا موڑ دینا چاہتے ہیں‘ یہ یورپ کی طرح دونوں ملکوں کی سرحدیں کھولنا چاہتے ہیں اور یہ خواہش غلط نہیں‘ ہمارے پاس بھارت سے تعلقات ٹھیک کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں‘ لڑائی دنیا کے کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی‘ مسائل کا حل ڈائیلاگ ہی ہوتا ہے اور پاکستان اور بھارت نے 73 سال بعد بہرحال یہ حقیقت مان لی۔
ہمیں بھارت کے ساتھ ساتھ اپنے داخلی مسائل بھی حل کرنا ہوںگے اور میں اپنی ’’معلومات‘‘ کی بنیاد پر قوم کو چند اہم خبریں دینا چاہتا ہوں‘ پہلی خبر حکومت ہے‘ حکومت کو اب اپنا بوجھ خود اٹھانا ہو گا‘ اسٹیبلشمنٹ اب حکومت کو اندھی سپورٹ نہیں دے گی‘ حکومت اگر چلی جاتی ہے تو یہ چلی جائے لیکن پارلیمنٹ اور سسٹم نہیں جائے گا‘ یہ چلتا رہے گا‘ دوسری خبر‘ حکومت اور اپوزیشن کی پارلیمانی کمیٹی بن رہی ہے‘ کمیٹی میں تمام سیاسی جماعتوں کی نمایندگی ہو گی اور یہ کمیٹی نیب‘ الیکشن ریفارمز‘ این ایف سی ایوارڈ‘ اٹھارہویں ترمیم‘ بلدیاتی اداروں‘ جوڈیشل اور معاشی ریفارمز کرے گی اور یہ ریفارمز ہونے کے بعد کوئی گورنمنٹ انھیں چھیڑ نہیں سکے گی‘ یہ پاکستان کا فائنل فیوچر ایجنڈا ہو گا‘ یہ کمیٹی نیب ختم کر دے گی۔
تیسری خبر‘ ریاست نائین زیرو کے علاوہ کراچی شہر میں ایم کیو ایم کو دفتر کھولنے کی اجازت بھی دے رہی ہے لیکن الطاف حسین پر تاحیات پابندی رہے گی اور ایم کیو ایم کا جو بھی لیڈر ان سے رابطہ کرے گا اس کا سیاسی مستقبل ختم ہو جائے گا‘ چوتھی خبر‘ ریاست نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کو سیاسی دھارے میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن یہ مستقبل میں سڑکیں بند نہیں کرے گی اور18اپریل جیسے واقعات نہیں دہرائے گی چناں چہ میرا خیال ہے ٹی ایل پی مستقبل میں پنجاب کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہوگی اور یہ 2023 میں پی ٹی آئی یا ن لیگ کے ساتھ مل کر حکومت بنائے گی یا پھر بھرپور اپوزیشن ثابت ہو گی لیکن اس کا انحصار اس کی قیادت کے رویے پر ہے‘ یہ اگر اپریل کی تاریخ دہرائے گی تو پھر یہ ختم ہو جائے گی۔
اپریل میں ان کے رابطے تحریک طالبان پاکستان اور داعش کے ساتھ بھی شروع ہو گئے تھے اور بھارت اور یورپی طاقتیں بھی اسے سپورٹ کرنے کے لیے تیار ہو گئی تھیں لیکن ہمارے خفیہ اداروں کو یہ اطلاعات مل گئیں اورایجنسیوں نے ٹی ایل پی کی قیادت کو یہ بتا دیا‘ قیادت نے اگر اس وارننگ کو سیریس لے لیا تو ٹی ایل پی ایک بڑی سیاسی فورس بن جائے گی ورنہ یہ ختم ہو جائے گی اور آخری خبر‘ پاکستان نے طالبان کو امریکا کے ساتھ بیٹھنے اور افغانستان کی مستقبل کی حکومت میں شامل ہونے کے لیے راضی کر لیا ہے۔
طالبان اگر اس بار اس وعدے سے مکریں گے تو پاکستان ہمیشہ کے لیے ان کا ساتھ چھوڑ دے گا‘ بھارت نے بھی پاکستان کو گارنٹی دی ہے یہ طالبان کو مستقبل میں ہمارے خلاف استعمال نہیں کرے گا‘ پاکستان نے اسے صاف بتا دیا ہے اگر ایسا ہوا تو پاکستان بھی اپنے گھوڑے کھول دے گا چناں چہ میں اگر کہوں پاکستانی سیاست اور ریاست میں اگلے چھ ماہ بہت اہم اور تاریخی ہیں تو یہ غلط نہیں ہو گا۔
پاکستان کی اندرونی اور بیرونی دونوں پالیسیاں 180 درجے پر بدل رہی ہیں لہٰذا عوام کو روز نئی خبر ملے گی لیکن کیا یہ خبریں وزیراعظم عمران خان کے لیے بھی سعد ثابت ہوں گی؟ اس کا فیصلہ وزیراعظم کا نصیب کرے گا‘ یہ اگر خوش نصیب ہوئے تو یہ تمام کامیابیاں ان کی جھولی میں آ جائیں گی اور یہ خطے کے تاریخی لیڈر ثابت ہوں گے ورنہ دوسری صورت میں تین وزیراعظم لائن میں کھڑے ہیں۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Pakistan k Aglay Chah Maah By Javed Chaudhry