پاکستانی طالبان۔پس چہ باید کرد – سلیم صافی

saleem-saafi

ہمارے ہاں روایت ہے کہ ہمارے پالیسی ساز کسی کمزوری یا مجبوری کی وجہ سے ایک مفروضہ گھڑ لیتے ہیں پھراس مفروضے کو قوم کے سامنے ایک حقیقت کے طور پر پیش کرنے لگتے ہیں۔ایسا ہی ایک مفروضہ ہمارے پالیسی سازوں نے یہ تراشا تھا کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ اس مفروضے کے حق میں صرف ایک دلیل موجود تھی کہ افغان طالبان نے کبھی پاکستان میں کوئی کارروائی نہیں کی ۔ میں خود بھی اس حقیقت سے آگاہ ہوں کہ افغان طالبان کے خلاف پاکستان میں کئی کارروائیاں ہوئیں۔ ملابرادر سے لے کر ملا عبیدﷲ اخوند تک ان کے کئی رہنمائوں کو گرفتار کیا گیا لیکن بوجوہ افغان طالبان پاکستان میں کسی کارروائی میں براہ راست ملوث نہیں پائے گئے لیکن اس کے باوجود میں 2008سے اپنے کالموں اور ٹی وی پروگراموں میں تکرار کے ساتھ یہ عرض کرتا رہا کہ افغان اور پاکستانی طالبان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔مثلاً !

1:مولوی نیک محمد، عبدﷲ محسود اور بیت ﷲ محسود وغیرہ نے حکومت پاکستان کے خلاف جنگ اس بنیاد پر شروع کی کہ ان کے بقول پاکستان نے طالبان کی حکومت ختم کرنے کے لئے امریکہ کا ساتھ دیا۔ 2:تحریک طالبان پاکستان کے تمام رہنمائوں کی جب بیعت ہوجاتی تھی تو وہ فوراً افغان طالبان کے امیرالمومنین کی غائبانہ بیعت بھی کرلیتے تھے۔ اب جبکہ طالبان کے مختلف دھڑے ایک بار پھر مفتی نورولی کی قیادت میں اکٹھے ہوئے اور مشترکہ طور پر ان کی بیعت کی گئی تو اسی مجلس(میرے پاس ویڈیو موجود ہے) میں مفتی نور ولی اور ان کے ساتھیوں نے افغان طالبان کے امیرالمومنین ملا ہیبت ﷲ کو امیرالمومنین تسلیم کرنے کی بیعت کی۔3:افغان طالبان نے پاکستان کے اندر ٹی ٹی پی، القاعدہ یا جماعت الاحرار کی کارروائیوں میں حصہ نہیں لیا لیکن ٹی ٹی پی کے لوگ کئی محاذوں پر افغان طالبان کے شانہ بشانہ لڑتے رہے۔ وہ کارروائی جس میں صوبہ خوست کے اندر امریکی سی آئی اے کے نصف درجن اہم ترین اہلکار مارے گئے، اس کا منصوبہ حکیم اللہ محسود نے بنایا تھا اور اس میں اپنے آپ کو اڑانے والے فدائی ابودجانہ نے کارروائی پر جانے سے قبل حکیم ﷲ محسود کے ساتھ ویڈیو پیغام ریکارڈ کروایا تھا۔4: افغان طالبان، ٹی ٹی پی، جماعت الاحرار اور القاعدہ کا جہادی لٹریچر ایک ہے ۔ان کے جہاد، قتال، مرتد اور دیگر مذہبی تصورات ایک ہیں۔ سب ایک دوسرے کے آڈیو ویڈیو مواد سے استفادہ کرتے ہیں ۔5: ٹی ٹی پی کے ہر لیٹر پیڈ کے ایک طرف امیر (بیت ﷲ محسود، حکیم ﷲ محسود، ملا فضل ﷲ یا مفتی نورولی محسود ) کا نام لکھا ہوتا ہے اور دوسری طرف امیرالمومنین (ملامحمد عمر، ملا اختر منصور اور ملا ہیبت ﷲ) لکھا ہوتا ہے۔ اس پورے عرصے میں کبھی ایک بیان میں بھی افغان طالبان نے پاکستانی طالبان کو اس سے منع نہیں کیا کہ وہ ان کے لئےامیرالمومنین کا نام استعمال نہ کریں۔6: جب حکیم ﷲ محسود ڈرون حملے میں نشانہ بنائے گئے تو افغان طالبان نے اپنی آفیشل ویب سائٹ پر ایک بیان جاری کیا جس میں ان کی خدمات کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اُنہیں شہید قرار دیا ۔7: ٹی ٹی پی کے کئی لوگ افغانستان کے کئی ایسے علاقوں میں مقیم رہے جو افغان طالبان کے زیرکنٹرول تھے لیکن ٹی ٹی پی کی تشکیل سے لے کر آج تک کسی ایک جگہ سے بھی ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے کسی جھگڑے یا تنائو کی خبر نہیں آئی جبکہ دوسری طرف داعش کے خلاف افغان طالبان نے بھرپور جنگ لڑی۔8: پاکستانی ریاست کے خلاف مزاحمت کا آغاز کرنے والے مولانا نیک محمد افغان طالبان کے سابق دور میں کابل کے مغرب میں کارغہ کیمپ کے انچارج تھے جبکہ بیت ﷲ محسود ، ملا دادﷲ کے ساتھ رہ کر کئی سال تک افغانستان کے اندر جنگ لڑچکے تھے ۔یہ تو چند حقائق ہیں لیکن اگر کسی نے دونوں کے آپس کے تعلق کی اصل نوعیت جاننی ہو تو وہ تحریک طالبان پاکستان کے موجودہ امیر مفتی نورولی کی کتاب ”انقلاب محسود“ کا مطالعہ کرلے۔

اب جبکہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا مکمل ہونے کو ہے اور اس انخلا سے قبل افغان طالبان، افغانستان کے حکمران بن چکے ہیں تو پاکستان میں بالعموم اور قبائلی اضلاع میں بالخصوص پاکستانی عسکریت پسندوں کی کارروائیاں بڑھ گئی ہیں۔ چنانچہ سوال پیدا ہونے لگا ہے کہ پاکستانی عسکریت پسند کیا کریں گے اور ان کے ساتھ کیا کیا جائے گا؟ افغان طالبان نے پاکستان سمیت تمام پڑوسی ممالک کو یقین دلایا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے جبکہ دوسری طرف پاکستان کے مطالبے پر افغان طالبان کے امیرالمومنین نے ٹی ٹی پی کے ایشو سے متعلق ایک کمیشن بھی تشکیل دیا ہے تو یہاں لوگوں کی اکثریت یہ توقع لگائے بیٹھی ہے کہ افغان طالبان، پاکستانی طالبان کو پکڑ پکڑ کر پاکستان کے حوالے کردیں گے حالانکہ ایسا کبھی نہیں ہوگا ۔ اس لئے میری گزارش ہے کہ اس زعم میں مبتلا ہونے کی بجائے ٹی ٹی پی اور حتیٰ کہ داعش سے وابستہ تمام پاکستانی مذہبی عسکریت پسندوں کے لئے ،ہتھیار پھینکنے اور پرامن زندگی گزارنے کے وعدے کے عوض عام معافی کا اعلان کیا جائے ، تاہم یہ کام چوری چھپے یا پھر احسان ﷲ احسان کے معاملے کی طرح نہیں ہونا چاہئے ۔ یہ کام کھلے عام شفاف طریقے سے ہونا چاہئے ۔ اعلان سے قبل ریاست پاکستان تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے اور اس کے لئے ضروری قانون سازی بھی کی جائے۔ پھر افغان طالبان کی مدد لے کر اور ان کو ثالث بنا کر ہر طرح کے پاکستانی عسکریت پسندوں کو ہتھیار پھینکنے پر آمادہ کیا جائے ۔ اگر یہ کام شفاف طریقے سے اور سب کو اعتماد میں لے کر کیا گیا تو نہ صرف وہ لوگ پرامن زندگی کی طرف لوٹ سکتے ہیں بلکہ پاکستان میں بھی امن قائم ہوسکتا ہے لیکن اگر ماضی کی غلطیوں کو دہرایا گیا اور ایک ہمہ پہلو اور جامع حکمت عملی کے ساتھ مسئلے کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو حاکم بدہن 2014جیسے حالات دوبارہ پیدا ہوسکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ میری یہ تجویز بہت سارے سیاسی اور صحافتی لبرلز کو زہر لگے گی اور مجھے طرح طرح کے الزامات سے بھی نوازا جائے گا، یہ لوگ کہیں گے کہ وہ ہمارے فوجیوں اور سیاسی رہنمائوں کے قاتل ہیں اور انہیں معاف نہیں کیا جاسکتا لیکن میری ان سے گزارش ہوگی کہ جب ہم افغانستان میں معاف کرو اور مصالحت سے کام لو کے داعی ہیں تو پھر اپنے ملک میں ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟

Source: Jung News

Read Urdu column Pakistani Taliban Pus Cheh bayed Kurd By Saleem Safi

Leave A Reply

Your email address will not be published.