پارلیمان کا لاک ڈاؤن – عاصمہ شیرازی
پاکستان میں بہت کچھ بدل گیا اور بدل رہا ہے، دھیرے دھیرے، آہستہ آہستہ۔۔۔ جمہوریت کے نام پر کبھی آمریت کا غلبہ رہا اور کبھی فسطائیت نے پاؤں جمائے۔ عوام کے لیے عوام کے نام پر عوام کی حکومت کم ہی دیکھنے کو ملی۔
انتخابات کے نام پر ’منتخب نمائندے‘ کہیں اور کے چنیدہ اور عوام کے نام پر خواص حکمران رہے۔ دو آمریتوں کے درمیان وقفے کو جمہوریت اور مصلحت سے جنم لینے والے اقتدار کو جمہوری حکومتوں کا نام دیا گیا۔
یہ ستم ظریفی ہے کہ آمریتوں کو طول دینے کے لیے پارلیمان کو استعمال اور آمرانہ حکومتوں کو قابل قبول بنانے کے لیے جمہوری رویوں کو استحکام دینے کی کوشش جاری رہی۔
نتیجہ وہی کہ جمہوریت کے نام پر آمریت اور فسطائیت کو رواج ملا، ایک غیر جمہوری اور غیر عوامی راج جس میں جوابدہی کا اصول مانع رہا۔ آہستہ آہستہ سرایت کرنے والی اس آمریت کو جمہوریت کی ڈش میں سجا کر یوں پیش کیا گیا کہ ہم اسے قبول کر بیٹھے۔
سنہ 1973 کے آئین میں پاکستان کا دستور ایک پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ پارلیمنٹ تمام اداروں کی ماں ہے اور کتاب کی رو سے تمام اداروں کے اختیارات یہیں سے کشید ہوتے ہیں۔
جنرل ضیا الحق اور اُس کے بعد جنرل مشرف نے جس طرح آئین کا حلیہ بگاڑا، پارلیمانی نظام کو 58 ٹو بی کے بعد صدارتی شکل دی۔۔۔ آدھا تیتر، آدھا بٹیر بننے والے نظام کو سنہ 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے دوبارہ اصل شکل دینے کی ٹھانی۔
پیپلز پارٹی اور ن لیگ، عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر جماعتوں نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے آئین کو دوبارہ پارلیمانی جمہوری روپ میں ڈھالا۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے اختیارات کو وزیراعظم اور پارلیمان کو واپس کیا اور یوں پارلیمنٹ پر لٹکتی 58 ٹو بی کی تلوار کو شکست ہوئی۔
جمہوریت نے غیر جمہوری قوتوں سے انتقام لیا۔ آج کے وزیراعظم کے پاس بھی وہ اختیار واپس آیا جس کے بل بوتے پر وہ اپنے اقتدار کو محفوظ بنا رہے ہیں اور جس کا اظہار حال ہی میں تبصروں کی زینت رہا۔
19 اپریل 2010 کی تاریخ ہمیشہ تاریخ کے ادوار میں سر اٹھا کر کھڑی رہے گی۔ یاد دلاتی رہے گی کہ سیاسی قوتیں دستور سے ہی طاقت لینے کے قابل رہی ہیں۔
مگر 1973 کا وہ آئین جس کی بحالی کے لئے سیاسی جماعتوں نے آمریتوں کا مقابلہ کیا، کبھی نافذ اور کبھی طاری غیر جمہوری قوتوں کو اعلانیہ اور غیر اعلانیہ چیلنج کیا، یوں محسوس ہوتا ہے کہ عوام کی ’منتخب پارلیمان‘ دستوری حق رکھتے ہوئے بھی بے اختیار ہے۔
کورونا کی وبا نے دنیا کو لپیٹ میں لیا تو پاکستان میں بھی اس وبا نے پنجے گاڑنے شروع کیے۔ دنیا بھر کی پارلیمان اور اُن کی کمیٹیوں نے محدود ہی سہی مگر کام جاری رکھا یا مختصر تعطل کے بعد فعال ہوئیں سوائے وطن عزیز کی پارلیمان کے۔
یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ اس وبا سے قبل پارلیمان کس حد تک مؤثر تھی، کس حد تک حق نمائندگی ادا کر رہی تھی، کس حد تک عوام کو جوابدہ تھی یا اُس سے قبل اس کی تشکیل میں کس جمہوریت کا عمل دخل تھا؟ مگر دل کی تسلی کو ایک پارلیمنٹ تھی اور ہے مگر غیر مؤثر، پھر غیر متحرک، غیر فعال اور اب معطل۔
کورونا کی وبا کے بعد پاکستان کا ہر ادارہ فعال نظر آیا۔ پہلے سے زیادہ متحرک عدلیہ، بظاہر مصروف انتظامیہ، سکیورٹی کونسل کے بدن سے جنم لینے والی رابطہ کمیٹی، ٹائیگر فورس، چوتھا ستون میڈیا، فلاحی تنظیمیں، وزارتیں، سفارتیں اور صدارتیں۔۔۔ غیر فعال رہی تو پارلیمنٹ۔
رابطہ کمیٹیوں کے اجلاس پر اجلاس مگر محروم رہی تو آئینی ضرورت پوری کرتی مشترکہ مفادات کونسل؟ 144 ارب کے احساس پروگرام کا آغاز اور اتنی بڑی رقم پر نظر رکھنے والی پارلیمانی کمیٹیاں غائب؟
اپوزیشن کا حال ملاحظہ ہو کہ قائد حزب اختلاف لندن سے لاہور پہنچ گئے مگر پارلیمان کے اجلاس طلب کرنے کے لیے درخواست تک نہ دے پائے۔
اچھے تو غیر جمہوری طریقے سے منتخب ہو کر چیئرمین بننے کے طعنے سننے والے سنجرانی صاحب رہے جنھوں نے سپیکر قومی اسمبلی سے ایوان ہی مانگ لیا کہ فاصلے سے ہی سہی مگر ایوان بالا کا اجلاس تو ہو۔
کیا سمجھ لیا جائے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں بھی پارلیمانی اوور سائٹ کو بھلا بیٹھی ہیں؟
کیا مصلحت یہاں تک لے آئی ہے کہ نام نہاد جمہوریت میں سرایت کرتی آمریت کو تسلیم کر لیا گیا ہے، کیا نظام کو ناکام ہونے سے قبل ناکام بنا دیا گیا ہے؟
حکومت سے سوال کیا ہو تو حزب اختلاف بھی تو جوابدہ ہو کہ اس خاموشی سے لپٹتے نظام پر خاموشی کیوں؟
Must Read Urdu column Parliman ka Lockdown By Asma Shirazi
Source: BBC URDU