پس پردہ کیا ہوتا رہا؟- جاوید چوہدری

Javed Chaudhry

عمران خان کی حکومت کی تباہی میں تین لوگوں نے انتہائی اہم کردار ادا کیا‘ عثمان بزدار‘ شہزاد اکبر اور خاتون اول‘ عثمان بزدار صرف نالائق نہیں تھے یہ انتہائی کرپٹ بھی تھے‘ عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنوانے کا تمام تر سہرا احسن جمیل گجر کے سر جاتا ہے۔

یہ انھیں انٹرویو کے لیے پہلی مرتبہ اپنی گاڑی پر بنی گالا لے کر آئے تھے‘ بزدار کو پارٹی میں جہانگیر ترین نے شامل کرایا تھا لیکن میٹنگ کے وقت جہانگیر ترین نے عثمان بزدار کو نہیں پہچانا اور عثمان بزدار شکل سے جہانگیر ترین کو نہیں جانتے تھے۔

عمران خان سے چند منٹ ملاقات ہوئی اور یہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ سلیکٹ ہو گئے‘ عثمان بزدار کو بنی گالا سے واپس لے جانے کی ذمے داری بھی احسن جمیل گجر کی تھی‘ یہ انھیں لے کر نکلے تو انھوں نے آفرکی ’’بزدار صاحب چلیے میں آپ کو گلوریا جینز سے کیپو چینو پلاتا ہوں‘‘ احسن جمیل یہ جان کر حیران رہ گئے پنجاب کے مستقبل کے وزیراعلیٰ گلوریا جینز سے بھی واقف نہیں تھے اور ان کے لیے کیپو چینو کا لفظ بھی اجنبی تھا۔

میں کسی شخص کی سادگی کو برا نہیں سمجھتا‘ سادگی دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے لیکن12 کروڑ لوگوں کے وزیراعلیٰ کو کم از کم کیپو چینو کا علم تو ہونا چاہیے تھا‘ یہ سادگی نہیں تھی جہالت تھی‘ بہرحال خاتون اول کی روحانیت کے صدقے عثمان بزدار وزیراعلیٰ بن گئے۔

فوج اور پوری پارٹی اس تقرری کے خلاف تھی‘ جنرل باجوہ ساڑھے تین سال وزیراعظم کو مسلسل سمجھاتے رہے ’’سر آپ پنجاب پر توجہ دیں‘ صوبہ تباہ ہو گیا ہے‘‘ لیکن عمران خان عثمان بزدار کو وسیم اکرم پلس سمجھتے رہے یہاں تک کہ ایک دن جنرل باجوہ عثمان بزدار کے کارناموں کی پوری فائل لے کر وزیراعظم کے پاس پہنچ گئے۔

یہ ایک ضخیم فائل تھی جس میں معمولی تقرریوں سے لے کر بڑے بڑے ٹھیکوں میں کک بیکس کے ثبوت تھے‘ جنرل باجوہ نے یہ فائل عمران خان کو دی اور کہا ’’یہ کھیل کہاں سے آپریٹ ہو رہا ہے اور یہ پیسے کہاں جا رہے ہیں؟ میں اس معاملے میں ایک لفظ مزید نہیں بولوں گا۔

آپ خود اندازہ اور فیصلہ کریں‘‘ وزیراعظم نے فائل دیکھنے کے بعد اگلے دن دوبارہ آرمی چیف سے ملاقات کی‘ یہ پنجاب کی کرپشن منی کی ’’آخری منزل‘‘ کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے مگر قمر جاوید باجوہ کا جواب تھا ’’ ایون نو ون ورڈ مور‘‘ اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا یہ ثبوت کافی ہیں اور وزیراعظم اب یہ سلسلہ بند کرا دیں گے مگر دوسری طرف خاموشی گہری ہو گئی۔

جنرل باجوہ نے ایک دن وزیراعظم کو بتایا ’’سر ہمارے کور کمانڈرز کے ماتحت تین جی او سی ہوتے ہیں‘ یہ آفیسرز رینک میں میجر جنرل ہوتے ہیں‘ میرا کوئی کور کمانڈر اگر ایک بار کسی جی او سی سے مطمئن نہ ہو تو میں اسے فوراً تبدیل کر دوں گا‘ یہ اگر دوسری مرتبہ جی او سی کی شکایت کرے گا تو میں سوچنے پر مجبور ہو جاؤں گا اور اگر یہ تیسری مرتبہ کسی جی او سی کی شکایت کرے گا تو اس بار جی او سی نہیں بدلے گا‘ کور کمانڈر تبدیل ہو گا جب کہ عثمان بزدار اب تک سات آئی جی اور پانچ چیف سیکریٹری تبدیل کر چکے ہیں۔

کیا انھیں ساڑھے تین سالوں میں ایک بھی کام کا چیف سیکریٹری اور آئی جی نہیں ملا‘ سر مسئلہ افسروں میں نہیں ہے‘ بزدار میں ہے‘ آپ اگر اپنی حکومت چلانا چاہتے ہیں تو آپ اسے تبدیل کر دیں‘‘ مگر عمران خان نہیں مانے تاہم یہ ایک بار بزدار کو تبدیل کرنے کے لیے راضی ہو گئے اور جنرل باجوہ سے مشورہ مانگا‘ جنرل باجوہ نے جواب دیا‘ آپ کے پاس دو امیدوار ہیں۔

علیم خان اور چوہدری پرویز الٰہی‘ علیم خان کے پاس پیسہ ہے اور پرویز الٰہی کے پاس پولیٹیکل کیپیٹل‘ آپ کو اگر امیر وزیراعلیٰ چاہیے تو آپ علیم خان کو بنا دیں اور آپ اگر خود کو سیاسی لحاظ سے مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو پرویز الٰہی کو موقع دے دیں‘ فیصلہ بہرحال آپ نے کرنا ہے۔

عمران خان علیم خان کے لیے راضی ہو گئے‘ علیم خان کو فوری طور پر لاہور سے بلا لیا گیا‘ مبارک بادیں بھی ہو گئیں‘ وزیراعظم نے دوسرے دن علیم خان کا اعلان کرنا تھا‘ فواد چوہدری نے رخصت ہوتے وقت جنرل باجوہ سے کہا ’’باس آپ زیادہ خوش نہ ہوں‘ درمیان میں ایک رات بھی ہے۔

وزیراعظم نے ابھی گھر بھی جانا ہے‘ یہ فیصلہ صبح تک برقرار نہیں رہے گا‘‘ اور دوسری صبح یہی ہوا‘ عمران خان کا ارادہ بدل گیا‘ علیم خان سے یہ بے عزتی برداشت نہیں ہوئی‘ انھوں نے پارٹی کے خلاف پریس کانفرنس کر دی‘ پی ٹی آئی نے ان کی ٹرولنگ شروع کر دی۔

علیم خان نے اس پر دھمکی دی ’’آپ اگر باز نہ آئے تو میرے پاس جو کچھ ہے میں وہ پبلک کر دوں گا‘‘ اس کے بعد آج تک پارٹی کی سینئر قیادت نے علیم خان کا نام نہیں لیا۔ ’’ذرایع‘‘ کا خیال ہے علیم خان کے پاس بھی آڈیو اور وڈیوز کا ٹھیک ٹھاک ذخیرہ موجود ہے اور یہ ذخیرہ اب تک ان کا دفاع کر رہا ہے۔

عمران خان کی حکومت کا دوسرا بڑا ڈیزاسٹر شہزاد اکبر تھا‘ یہ اخلاقی اور معاشی دونوں لحاظ سے کرپٹ انسان تھا‘ اسٹیبلشمنٹ وزیراعظم کو بار بار شہزاد اکبر کے کارناموں کے بارے میں بتاتی رہی لیکن وزیراعظم کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی‘ یہ ان ثبوتوں پر توجہ نہیں دیتے تھے۔

یہاں تک کہ ایک بار جنرل باجوہ نے اپنا موبائل کھول کر وزیراعظم کو شہزاد اکبر کی ایک وڈیو بھی دکھا دی‘ شہزاد اکبر اسلام آباد کی کسی سڑک پر گاڑی میں کسی خاتون کے ساتھ ناشائستہ حرکتیں کر رہا تھا‘ گاڑی سے ذرا دور سی سی ٹی ڈی کیمرہ لگا ہوا تھا‘ یہ حرکتیں اس کیمرے میں ریکارڈ ہو گئیں‘ وزیراعظم نے اس ثبوت کو بھی اگنور کر دیا‘ وزیراعظم کو جب آخر میں احساس ہوا تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

شہزاد اکبر کو24 جنوری 2022 کو اس کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور یہ 17اپریل کو نئی حکومت کے ایک اہم اتحادی کے ذریعے ملک سے باہر چلا گیا لیکن اس کے کارناموں کی فصل پی ٹی آئی دس پندرہ سال تک کاٹتی رہے گی‘ اسٹیبلشمنٹ خاتون اول کے بارے میں بھی بار بار وزیراعظم کو مطلع کرتی رہی‘ جنرل باجوہ کی خاتون اول سے پہلی ملاقات وزیراعظم ہاؤس میں ہوئی تھی۔

وزیراعظم نے حکومت سنبھالنے کے بعد وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان کر دیا تھا اور یہ پی ایم ہاؤس میں ملٹری سیکریٹری کے بنگلے میں رہتے تھے‘ وزیراعظم نے آرمی چیف اور بیگم باجوہ کو کھانے کی دعوت دی۔

کھانے کی میز پر چار لوگ تھے‘ عمران خان‘ جنرل باجوہ‘ خاتون اول اور بیگم باجوہ‘ عمران خان نے میز پر بیٹھتے ہی حسب معمول کسی دوسرے کا انتظار کیے بغیر کھانا شروع کر دیا‘ جنرل باجوہ بھی دائیں بائیں دیکھ کر کھانا کھانے لگے لیکن خاتون اول برقعے میں تھیں اور وہ کھانا نہیں کھا رہی تھیں۔

جنرل باجوہ نے ان سے کھانے کی درخواست کی تو خاتون اول نے جواب دیا‘ میں بعد میں اپنے کمرے میں کھاؤں گی‘ کھانے کے بعد وزیراعظم اور جنرل باجوہ ڈرائنگ روم میں آ گئے اور دونوں خواتین زنانہ حصے میں چلی گئیں‘ واپسی پر راستے میں بیگم صاحبہ نے جنرل باجوہ سے کہا ’’آپ اگر وزیراعظم کو بچا سکتے ہیں تو بچا لیں‘‘ جنرل باجوہ نے تفصیل پوچھی لیکن بیگم صاحبہ نے اس موضوع پر مزید بات کرنے سے انکار کر دیا‘ جنرل عاصم منیر25 اکتوبر2018کو ڈی جی آئی ایس آئی بن گئے۔

یہ بھی وزیراعظم کو مختلف اوقات میں مطلع کرتے رہے‘ یہ آخر میں وزیراعظم کے پاس ثبوت بھی لے کر گئے لیکن وزیراعظم نے ثبوت پر توجہ دینے کے بجائے ڈی جی آئی کی تبدیلی کی خواہش ظاہر کر دی‘ وزیراعظم جنرل فیض حمید کو ڈی جی لگانا چاہتے تھے‘ جنرل باجوہ نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی ’’سر فوج میں افسر کچھ نہیں ہوتے ادارہ ہوتا ہے‘ جنرل عاصم شان دار افسر ہیں۔

آپ کا فیصلہ درست نہیں‘‘ مگر عمران خان نہیں مانے‘ جنرل باجوہ ہر فورم پر کہتے ہیں فوج نے عمران خان کی محبت میں دو جرنیلوں کے امیج اور دو کے کیریئرکی قربانی دی‘یہ جنرلز قمر جاوید باجوہ‘عاصم منیر‘ فیض حمید اور فیصل نصیر ہیں‘ بہرحال اللہ تعالیٰ کو جنرل عاصم منیر کی عاجزی پسند آ گئی اور اسے اس نے وہاں پہنچا دیا جس کی کسی کو بھی توقع نہیں تھی‘ اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا حکومت کے زیادہ تر اہم فیصلے خاتون اول کرتی ہیں۔

یہ اگر اجازت دیں گی تو وزیراعظم دوسرے ملک کا دورہ کریں گے اور یہ اگر وزیراعظم کو بلا لیں گی تو یہ میٹنگ سے اٹھ کر چلے جائیں گے‘ وزیراعظم نے ساڑھے تین سالوں میں برطانیہ کا دورہ نہیں کیا‘ کیوں؟ کیوں کہ خاتون اول نہیں چاہتی تھیں عمران خان لندن جائیں اور اپنے بیٹوں سے ملاقات کریں۔

اسٹیبلشمنٹ نے ایک بار بڑی کوشش کر کے2021 میں برطانیہ سے وزیراعظم کا انوی ٹیشن منگوایا لیکن وزیراعظم نے یہ دورہ اچانک ملتوی کر دیا‘ برطانوی ہائی کمشنراس پرروہانسا ہوگیا‘ یہ برطانیہ اور ہائی کمشنر کی بے عزتی تھی‘ جنرل باجوہ نے اس سے کہا ’’ایکسی لینسی وزیراعظم میرا باس ہے۔

میں اسے کیسے مجبور کر سکتا ہوں؟‘‘ وزیراعظم کو سمجھانے کی کوشش بھی کی گئی مگر یہ نہیں مانے اور یوں برطانیہ کے ساتھ بھی تعلقات خراب ہو گئے‘ اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا یہ فیصلے خاتون اول کر رہی ہیں اور وزیراعظم ان کے زیر اثر ہیں۔

جب وزیراعظم کو سمجھانے کی کوشش کی جاتی تھی تو ان کا جواب ہوتا تھا’’ بشریٰ بی بی ایک متقی اور پرہیز گار خاتون ہیں‘ یہ چھتیس چھتیس گھنٹے کا روزہ رکھتی ہیں‘‘ اور بتانے والے ایک دوسرے کا منہ دیکھ کر خاموش ہو جاتے تھے۔

Source: Express News

Must Read Urdu column Pas e Parda Kia hota raha By Javed Chaudhry

Leave A Reply

Your email address will not be published.