پی ڈی ایم کی نہیں اپنی فکر کیجئے! – حامد میر
ایک دفعہ نہیں بار بار لکھا کہ عمران خان کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ عمران خان کو خطرہ ہے تو عمران خان سے ہے۔ کئی ہفتے پہلے میں نے اپنے اسی کالم میں عمران خان کی حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ایک سراب قرار دیا تو سوشل میڈیا پر سرگرم ایک وفاقی وزیر نے پوچھا کہ سراب اور شراب میں کیا فرق ہے؟ یہ سوال سن کر میری ہنسی چھوٹ گئی تو وزیرصاحب نے شکوے سے بھرپور لہجے میں کہا کہ آج میرے ایک دوست نے مجھے آپ کا کالم پڑھ کر سنایا کیونکہ میری اردو کمزور ہے لیکن کالم کا عنوان میرے لئے پریشان کن تھا ’’ایک تھی تحریک انصاف‘‘۔
آپ نے کالم میں کچھ انگلش میڈیم سیاست دانوں کے بارے میں لکھا کہ وہ اردو میں تقریریں تو کر سکتے ہیں لیکن اردو پڑھ نہیں سکتے۔ مجھے ایسا لگا کہ آپ نے میری طرف اشارہ کیا ہے، میری اردو اتنی کمزور ہے کہ آپ نے سراب کا مطلب سمجھایا لیکن مجھے پھر بھی سمجھ نہ آیا تو سوچا کہ آپ سے ڈائریکٹ پوچھ لیتا ہوں لیکن آپ تو ہنس دیئے ۔
میں نے فوراً اپنی ہنسی روکی اور معذرت خواہانہ انداز میں کہا کہ میرا اشارہ آپ کی طرف نہیں تھا نہ ہی میرا مقصد کسی کا مذاق اڑانا تھا میں تو صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ کچھ بڑے بڑے سیاست دانوں کی اردو بہت کمزور ہے اور پاکستانیوں کی بڑی اکثریت کی انگریزی بہت کمزور ہے۔
بڑے لوگ انگریزی میں سوچتے ہیں جبکہ عوام اردو اور اپنی مادری زبانوں میں سوچتے ہیں یہ وہ فرق ہے جس نے کئی تضادات کو جنم دیا ہے۔ ویسے تو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی اردو بھی بہت کمزور تھی لیکن ان کی سوچ اور عوام کی سوچ میں کوئی فرق نہ تھا کیونکہ قائداعظم نہ جاگیردار تھے اور نہ ہی بینکوں کے قرضے خردبرد کرکے بہت بڑے سرمایہ دار بنے تھے ۔
قائداعظم کے بعد بھی ایسے کئی لیڈر آئے جو نہ عوام کی زبان بول اور لکھ سکتے تھے نہ عوام کے جذبات سمجھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ میرا لمبا جواب ابھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ وزیر صاحب نے کہا کہ آپ ہمارے معاملے میں قائداعظم کو لے آئے، آپ سے صرف یہ پوچھا تھا کہ سراب اور شراب میں کیا فرق ہے؟ میں نے بتایا کہ دھوپ کی شدت سے جب صحرا کی ریت چمکنے لگتی ہے تو دور سے پانی کا تالاب نظر آتی ہے اور جب کوئی پیاسا اس تالاب کے قریب پہنچتا ہے تو اسے پانی نہیں ملتا۔ نظر کا یہ دھوکہ سراب کہلاتا ہے۔ سراب بھی ایک دھوکہ ہے اور شراب بھی ایک دھوکہ ہے کیونکہ زیادہ شراب پینے والا مدہوش ہو کر بادلوں میں اڑنے لگتا ہے۔
تھوڑے دن بعد یہی وزیر صاحب ایک ٹی وی شو میں اپوزیشن اتحاد کو سراب قرار دیتے نظر آئے تو ایک دفعہ پھر میری ہنسی نکل گئی۔ کل عوامی نیشنل پارٹی نے پی ڈی ایم سے علیحدگی کا اعلان کیا تو یہ وزیر صاحب سوشل میڈیا پر پی ڈی ایم کی موت کا جشن مناتے نظر آئے۔
میری ناقص رائے میں پی ڈی ایم سے ایک اہم جماعت علیحدہ ہو گئی ہے اور دو بڑی جماعتوں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی بھی ہو رہی ہے لیکن ابھی پی ڈی ایم ختم نہیں ہوئی۔ پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کو چھوڑ بھی دیا تو مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی (ف) اس اتحاد کو قائم رکھیں گی۔
پاکستان میں بننے والے سیاسی اتحادوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ بہت سے اتحادوں میں سے سیاسی جماعتیں نکلتی اور شامل ہوتی رہیں لیکن یہ اتحاد کئی سال تک قائم رہے۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے خلاف ایم آر ڈی (تحریک بحالی جمہوریت) کے نام سے 6 فروری 1981 کو ایک اتحاد قائم کرنے کا اعلان ہوا جس میں وہ پارٹیاں بھی شامل تھیں جنہوں نے 1977میں پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک چلائی تھی۔
ایم آر ڈی میں مسلم کانفرنس کے سربراہ اور آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم سردار عبدالقیوم خان بڑے سرگرم تھے لیکن اس اتحاد کے قیام کے چند ہفتوں بعد 2مارچ 1981کو پی آئی اے کا طیارہ اغوا کرکے کابل پہنچا دیا گیا۔ میر مرتضیٰ بھٹو کی تنظیم ’’الذوالفقار‘‘ نے اس ہائی جیکنگ کی ذمہ داری قبول کی۔ اس وقت اجمل خٹک بھی کابل میں جلاوطن تھے۔
پاکستان واپس آنے کے بعد اجمل خٹک نے مجھے ایک انٹرویو میں بتایا کہ میر مرتضیٰ بھٹو کو ہائی جیکنگ کا کوئی علم نہ تھا۔ انہیں اس وقت پتہ چلا جب پی آئی اے کا طیارہ کابل پہنچ گیا اور پھر اپنے کچھ ساتھیوں کے کہنے پر انہوں نے ذمہ داری قبول کرلی۔ ذمہ داری قبول کرنے کے بعد پاکستان میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی پکڑدھکڑ شروع ہو گئی۔
سردار عبدالقیوم خان نے ہائی جیکنگ کو جواز بنا کر ایم آر ڈی کو توڑنے کا اعلان کر دیا لیکن پیپلز پارٹی، ولی خان کی این ڈی پی، مولانا شاہ احمد نورانی کی جے یو پی، ملک محمد قاسم اور خواجہ خیر الدین کی مسلم لیگ، اصغر خان کی تحریک استقلال، مولانا فضل الرحمٰن کی جے یو آئی، میر غوث بخش بزنجو کی پی این پی، نوابزادہ نصراللہ خان کی پی ڈی پی، معراج محمد خان کی قومی محاذ آزادی، فتح یاب علی خان کی مزدور کسان پارٹی اور شیر باز مزاری کی پی ڈی پی نے ایم آر ڈی کو قائم رکھنے کا فیصلہ کیا۔
جنرل ضیاء الحق نے ایم آر ڈی کو کمزور کرنے کیلئے سندھو دیش کے حامی جی ایم سید کی حمایت حاصل کی لیکن 1983میں ایم آر ڈی کی تحریک اپنے جوبن پر پہنچی اور 1988تک ایم آر ڈی قائم رہی۔
پاکستان میں کچھ سیاسی اتحاد توڑنے اور کچھ اتحاد بنانے میں خفیہ اداروں کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ پی ڈی ایم کے قیام کو ابھی چھ ماہ ہوئے ہیں، اے این پی کی اس اتحاد سے علیحدگی اہم واقعہ ہے لیکن فوری طور پر پی ڈی ایم کے خاتمے کا امکان نظر نہیں آرہا۔
فی الحال پی ڈی ایم موجودہ حکومت کیلئے کوئی بڑا خطرہ بھی نہیں ہے لیکن تحریک انصاف کی حکومت کیلئے بڑا خطرہ خود عمران خان کے کچھ فیصلے ہیں۔ بدھ کے دن پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے گیارہ ارکان اور قومی اسمبلی میں تین ارکان نے جہانگیر ترین کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے ہو کر وفاقی حکومت پر تنقید کرنے والوں میں پنجاب کے صوبائی وزیر نعمان لنگڑیال سمیت تین صوبائی مشیر بھی شامل تھے۔
رکن قومی اسمبلی راجہ ریاض کا دعویٰ ہے کہ آنے والے دنوں میں تحریک انصاف کے مزید ارکان قومی و صوبائی اسمبلی جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے ہونے والے ہیں۔ عمران خان اور ان کے وزراء پی ڈی ایم کے اندرونی بحران پر خوش نہ ہوں بلکہ تحریک انصاف کے اندرونی بحران کی فکر کریں کیونکہ یہ بحران شدید سے شدید تر ہو سکتا ہے۔
Source: Jung News
Must Read Urdu Column PDM ki Nahi Apni Fikar Kijye by Hamid Mir