پروجیکٹس کا قبرستان – جاوید چوہدری
مدت پہلے افریقہ کے کسی ملک کے بارے میں پڑھا ‘ اس کے صدر نے فرانس سے نیوی کے لیے دو بحری جہاز خریدے‘ ادائیگی بھی ہو گئی‘ صدر کو ’’کک بیکس‘‘ بھی مل گئیں اور فرنچ کمپنی نے بحری جہاز بھی تیار کر دیے لیکن جب ڈیلیوری کا وقت آیا تو خریدار ملک نے جہاز لینے سے انکار کر دیا‘ فرنچ کمپنی پریشان ہو گئی اور اس نے اپنی ایک ٹیم گاہک ملک کے پاس بھجوا دی۔
ٹیم کی صدر سے ملاقات ہوئی تو صدر نے بتایا آرڈر دینے والا صدر جنرل فلاں خان انتقال کر چکا ہے اور اس کی جگہ اب جنرل نیا خان آ گیا ہے‘ دوسرا ملک میں نیوی نہیں ہے لہٰذا یہ جہاز کس کو ہینڈ اوور کیے جائیں ہم نہیں جانتے اور تیسرا اور آخری مسئلہ ہم ’’لینڈ لاکڈ کنٹری‘‘ ہیں۔
ہمارے پاس سمندر بھی نہیں ہے چناں چہ ہم یہ جہاز لائیں گے کیسے ہم نہیں جانتے لہٰذا اگر کمپنی کے پاس ان مسائل کا کوئی حل ہے تو وہ دے دے‘ ٹیم کے ماتھے پر پسینہ آ گیا اور وہ مایوس ہو کر واپس چلی گئی‘ کمپنی نے جہاز دو تین ماہ اپنے پاس رکھے‘ اس کے بعد مقدمہ چلا اور عدالت نے کمپنی کو دونوں جہاز اس ملک کی قریب ترین بندر گاہ پر کھڑے کرنے کا حکم دے دیا۔
کمپنی نے اس حکم پر جہاز قریب ترین ملک کی بندرگاہ پر کھڑے کیے اور چابیاں خریدار ملک کے سفارت خانے میں ڈراپ کر دیں اور اس کے بعد خریدار ملک اس وقت تک جہازوں کی پارکنگ فیس ادا کرتا رہا جب تک جہاز گل سڑ کر کباڑ نہیں بن گئے‘ کتاب میں اس مثال کے بعد مصنف نے لکھا تھا‘ افریقہ قدرتی وسائل کے لحاظ سے دنیا کا امیر ترین لیکن ایسی انسانی حماقتوں کی وجہ سے تاریخ کا غریب ترین علاقہ ہے۔
پاکستان کی کہانی بھی اس سے ملتی جلتی ہے‘ ہم وسائل‘ جغرافیے‘ آبادی اور جذبے کے لحاظ سے دنیا کے دس بڑے ملکوں میں شمار ہوتے ہیں‘ پاکستان میں دنیا کی تمام سہولتیں موجود ہیں حتیٰ کہ ہم زعفران اور ایواکاڈو بھی اگا رہے ہیں‘ ہمارے پاس تیل‘ گیس‘ سونا اور یورینیم بھی ہے مگر ہم اس کے باوجود غریب ترین ملکوں میں شمار ہوتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ ملک بھی افریقی جہاز جیسے پروجیکٹس کا قبرستان ہے۔
ہمارے ایک دوست کی تحقیق کے مطابق ہم اگر ماضی کے پروجیکٹس مکمل کرنے کا بیڑا اٹھا لیں تو ہمیں تمام پروجیکٹس مکمل کرنے کے لیے 34 سال چاہییں‘ یہ دعویٰ میرے لیے حیران کن تھا لیکن جب میں نے خودسن گن لینا شروع کی تو میں بھی سر پکڑ کر بیٹھ گیا‘آپ یقین کریں ہمارے ملک میں ایسے ہزاروں بحری جہاز کھڑے ہیں جنھیں چلانے کے لیے کیپٹن موجود ہیں اور نہ ہی انجن اور پٹرول اور اگر ان تینوں کا بندوبست ہو بھی جائے تو بھی ہم ان جہازوں کو چلانے کے لیے سمندر کہاں سے لائیں گے؟
ان پروجیکٹس کی دراصل بنیاد ہی غلط تھی‘ ہم نے ہاتھی باندھنے کے لیے بانس کا پنجرہ بنا لیا تھا یا شیر کو بکریوں کے باڑے میں بند کر دیا تھا چناں چہ ہمارے کھربوں روپے ضایع ہو گئے اور ہم نے اگر اب بھی عقل کو ہاتھ نہ مارا تو پاکستان کے ان بے وقوفانہ منصوبوں کی تکمیل کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا سارا اکاؤنٹ بھی ناکافی ہو گا۔
آپ دور نہ جائیں‘ میں آپ کو چند پروجیکٹس بتاتا ہوں اور آپ کو اس کے بعد چیلنج دیتا ہوں آپ اپنے دائیں بائیں دیکھیں آپ کو اس ملک میں ایسے ہزاروں پروجیکٹس ملیں گے جن پر کھربوں روپے ضایع ہو چکے ہیں اور اس کے باوجود یہ پروجیکٹس پرانی بندرگاہ پر لنگڑے جہاز کی طرح کھڑے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنے زمانے میں سندھ میں رینی کینال کے نام سے پروجیکٹ شروع کیا تھا‘ یہ جنرل مشرف کا فلیگ شپ منصوبہ تھا اور جنرل مشرف اپنے دور میں اپنی ہر تقریر میں اس کا ڈھنڈورا پیٹتے تھے‘ جنرل پرویز مشرف کا دور ختم ہو گیا‘تین حکومتیں آئیں اور چلی گئیں‘ اربوں روپے خرچ ہو گئے لیکن واپڈا یہ نہر سندھ حکومت کے حوالے نہ کر سکا‘ خدا خدا کر کے2021 میں سندھ حکومت نے اس کا چارج لیا تو پتا چلا نہر میں پانی ہی نہیں‘ کیوں؟
کیوں کہ یہ نہر فلڈ چینل تھی اور یہ بارشوں کی محتاج تھی‘ بارش ہو گی تو اس میں پانی آئے گا‘ بارش نہیں ہو گی تو یہ سوکھی رہے گی اور اگر خدانخواستہ اس میں پانی آ بھی گیا تو یہ پانی جائے گا کہاں؟واپڈا کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا‘ کیوں؟ کیوں کہ رینی کینال کے پانی کو فصلوں تک پہنچانے کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا تھا چناں چہ یہ نہر بھی افریقی بحری جہاز بن کر پرائی بندر گاہ پر کھڑی ہے۔
جنرل مشرف ہی کے دور میں داروٹ ڈیم شروع ہوا تھا‘ یہ جام شورو ضلع میں ہے اور آپ جب کراچی سے حیدر آباد جاتے ہیں تویہ آپ کو بائیں جانب نظر آتا ہے‘ اس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا یہ 25 ہزار ایکڑ زمین سیراب کرے گا‘ یہ ڈیم بھی واپڈا نے بنایا‘ یہ 2014 میں مکمل ہو گیا لیکن یہ 2018 تک سندھ حکومت کو ہینڈ اوور نہیں ہوا‘ڈیم کی فائل چار سال واپڈا اور سندھ حکومت کے درمیان ذلیل ہوتی رہی‘ بہرحال 2018 میں جب شمائل خواجہ جیسا درد دل رکھنے والا بیوروکریٹ سیکریٹری واٹر اینڈ پاور بنا اور اس نے جب پروجیکٹ کی حالت دیکھی تو یہ سیدھے چیف سیکریٹری کے پاس گئے۔
ان کی منت کی اور یوں سندھ حکومت نے ڈیم کا چارج لیا لیکن چارج کے بعد پتا چلا اس ڈیم کے لیے بھی پانی کا سورس نہیں اور اس میں سے پانی نکال کر فصلوں تک پہنچانے کا بندوبست بھی نہیں لہٰذا سوال یہ ہے ڈیم میں پانی کہاں سے آئے گا اور اگر آ گیا تو اس سے نکالا کیسے جائے گا ‘ یہ زمینوں تک کیسے پہنچایا جائے گا؟ اس کا جواب بھی کسی کے پاس نہیں لہٰذا یہ ڈیم بھی افریقی جہاز کی طرح کھڑا ہے‘ جنرل مشرف ہی کے دور میں بلوچستان میں کچی کینال کا منصوبہ شروع ہوا‘ یہ ایک شان دار منصوبہ تھا۔
اس نے بلوچستان کے چار اضلاع کی 7 لاکھ 13 ہزار ایکڑ زمین سیراب کرنی تھی اور یہ اگر مکمل ہو جاتا تو بلوچستان کی آدھی آبادی کا مقدر بدل جاتا وہاں ہریالی بھی آ جاتی اور خوش حالی بھی اور خوش حالی سے دہشت گردی اور عسکریت پسندی بھی ختم ہو جاتی لیکن ابھی تک اس کا صرف فیز ون مکمل ہوا اور فیز ون کی اس نہر میں بھی 140 شگاف ہیں۔
فیز ون میں چھ ہزار کیوسک فٹ پانی کی گنجائش تھی لیکن 2017 میں اس میں صرف 100 کیوسک پانی بہہ رہا تھا اور اس میں اس قدر بھل اور ریت آ چکی تھی کہ صرف اس کی صفائی کے لیے 20 ارب روپے چاہیے تھے مگر اس صورت حال کے باوجود بیوروکریسی نے ستمبر 2017 میں نواز شریف سے کچی کینال کا افتتاح بھی کرا لیا اور حکومت نے مبارک سلام کے اشتہار بھی دے دیے‘ آپ آج بھی اس کینال کا معائنہ کر لیں۔
آپ اپنا سر پیٹ لیں گے‘ بے نظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دور حکومت میں 1994میں سیالکوٹ کے قریب سمبڑیال ایکسپورٹس پروموشن زون بنایا تھا‘ حکومت نے اربوں روپے لگا کر اس میں 900 انڈسٹری پلاٹس بنائے‘ اس کے اندر سڑکیں اور پل بھی بنائے گئے اور باہر باؤنڈری وال بھی بنائی گئی لیکن 2019 میں (25 سال بعد) اس کی صورت حال یہ تھی اس میں صرف 160 یونٹس تھے اور ان میں سے بھی صرف 43 فنکشنل تھے جب کہ باقی یونٹس اور پلاٹوں میں آٹھ آٹھ فٹ سرکنڈے کھڑے تھے اور لوگ باؤنڈری وال کی اینٹیں تک اکھاڑ کر لے گئے تھے اور آج کی تازہ ترین صورت حال یہ ہے اس کے مزید30 یونٹس بند ہو چکے ہیں اور وہاں اس وقت صرف 13 یونٹس کام کر رہے ہیں اور باقی ایکسپورٹس زون میں کتے اور کھوتے پھر رہے ہیں۔
اس طرح حکومت نے 1990 کی دہائی میں سیالکوٹ میں اسپورٹس ٹیسٹنگ لیبارٹری بنائی ‘ سیالکوٹ اسپورٹس پراڈکٹ بنا کر پوری دنیا میں ایکسپورٹ کرتا ہے‘ ان پراڈکٹس کے لیے کوالٹی سر ٹیفکیٹ چاہیے ہوتا ہے اور پاکستان میں یہ سہولت دستیاب نہیں تھی چناں چہ ایکسپورٹر کو سر ٹیفکیٹ کے لیے اپنے نمونے یورپ‘ برطانیہ اور امریکا بھجوانے پڑتے تھے اور اس سے وقت اور پیسہ دونوں برباد ہوتے تھے اور تاخیر کی وجہ سے سودے بھی کینسل ہو جاتے تھے۔
حکومت نے اربوں روپے خرچ کر کے ٹیسٹنگ لیبارٹری بنا دی جب بلڈنگ مکمل ہوئی تو پتا چلا بجٹ میں مشینری اور عملے کے لیے رقم ہی مختص نہیں کی گئی لہٰذا بجٹ کا پراسیس شروع ہوا اور یہ پراسیس آج 33 سال بعد بھی مکمل نہیں ہوا‘ اس دوران عمارت کھنڈر بن گئی۔
اس کی کھڑکیاں‘ دروازے‘ لائیٹس‘ پنکھے اور فرش لوگ اکھاڑ کر لے گئے‘ مجھے یقین ہے اب کسی دن حکومت آلات اور اسٹاف کا بجٹ پاس کر دے گی جس کے بعد لوگ بھرتی ہو جائیں گے اور آلات بھی منگوا لیے جائیں گے لیکن پھر پتا چلے گا عمارت ورکنگ پوزیشن میں نہیں‘ عمارت کے لیے دوبارہ رقم نکلے گی‘ یہ بننا شروع ہو گی اور جب یہ مکمل ہو گی تو اس وقت تک آلات خراب ہو چکے ہوں گے اورا سٹاف اربوں روپے تنخواہ لے چکا ہو گا اور یہ ہے اس ملک کا کمال۔
میری احسن اقبال سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر نئے پروجیکٹس پر کام رکوا کر ملک کے ادھورے پروجیکٹس پر ریسرچ کرائیں‘ آپ فہرستیں بنوائیں‘ پاکستان میں کتنے اسکولوں‘ کالجز‘ یونیورسٹیوں‘ اسپتالوں‘ انڈسٹریل اسٹیٹس‘ نہروں‘ برجز‘ ڈیمز اور سڑکوں کے پروجیکٹس نامکمل پڑے ہیں اور پھر ریسرچ کرائیں یہ منصوبے نامکمل کیوں ہیں اگر یہ مکمل ہو جائیں تو ان کا کیا فائدہ ہوگا اور آپ اس کے بعد ہنگامی طور پر پہلے ان منصوبوں کو مکمل کرائیں‘یقین کریں ملک پھر ترقی کرے گا ورنہ ہم پوری دنیا سے مانگ کر رقم لاتے رہیں گے اور یہ رقم ان تنوروں کی راکھ بنتی رہے گی اور پاکستان مزید تباہی کے گڑھے میں دھنستا چلاجائے گا۔
نوٹ:جون میںہمارا گروپ اسکردو جا رہا ہے‘ آپ اس گروپ کا حصہ بننے کے لیے ان نمبرز پر رابطہ کر سکتے ہیں۔
+92 301 3334562,+92 331 5637981, +92 331 3334562
Source: Express News
Must Read Urdu column Projects ka Qabaristaan By Javed Chaudhry