پنجاب کا پھوپھا! – ارشاد بھٹی
شیریں مزاری کے امریکی ایجنٹ، پرویز مشرف کے وزیرنجکاری، پیپلز پارٹی کے وزیرخزانہ حفیظ شیخ تحریک انصاف کی وزارت خزانہ بھی بھگتا کر فارغ بلکہ فارغ کر دیے گئے، حفیظ شیخ بھی خیر سے ناصر درانی، اسد عمر، عامرکیانی، فردوس عاشق، عاطف خان، شہرام ترکئی، فیاض چوہان، ہارون شریف، تانیہ ایدروس، افتخار درانی، جہانگیر ترین، ندیم بابرکی طرح ایسے فارغ کئے گئے کہ گھر بھجوانے سے پہلے کپتان نے چائے کا ایک کپ یا5منٹ کی الوداعی ملاقات تک نہ کی، گو کہ ایک بار فارغ ہو کر کچھ کو دوبارہ نوکریاں مل چکیں، جیسے اسد عمر کودوبارہ وزارت مل چکی، فردوس عاشق مرکز سے پنجاب جا چکیں، فیاض چوہان دوبارہ وزیر ہو چکے، شہرام ترکئی بھی دوبارہ وزیربن چکے، عامرکیانی پارٹی سیکرٹری جنرل ہوگئے، مگر پہلی بار جب یہ سب فارغ کئےگئے تو ایسے کہ کپتان نے الوداعی ملنا تک گوارہ نہ کیا، ایک اور بات جو بھی فارغ ہوا تحریک انصاف ہی اس سے متعلق طرح طرح کی کہانیاں سناتی ملی، اسد عمر فارغ کئے گئے آدھی سے زیادہ تحریک انصاف ہفتوں ایسی داستانیں سناتی رہی لگتا تھا کہ ہر برائی کا ذمہ دار اسدعمر، عامرکیانی فارغ کیے گئے، اربوں کے کرپشن الزامات، مجھے یاد ایک مشیر نے کاغذات کا ایک پلندہ دکھا کر کہا، یہ سب ثبوت فردوس عاشق کی کرپشن کے، پھر ڈاکٹرصاحبہ پنجاب پہنچیں تو چراغوں میں روشنی نہ رہی، اب یہاں یہ نہیں معلوم کہ 5چیئرمین ایف بی آر، 4بورڈ آف انوسٹمنٹ سربراہ، 4کامرس سیکرٹری، 5آئی جی پنجاب، 4چیف سیکرٹری پنجاب، 3وفاقی سیکرٹری خزانہ، 3وفاقی وزیراطلاعات، 3فوڈ سیکورٹی وزیر، 3انڈسٹری کے وزیر، 4سیکرٹری داخلہ میں سے کتنے خوش نصیب ایسے کہ جن کی باعزت رخصتی ہوئی، باعزت تبادلہ ہوا یا جاتے ہوئے چائے کا کپ نصیب ہوا، اپنے حفیظ شیخ تو وہ خوش نصیب کہ جن کی معاشی پالیسیوں کی تعریف میں کپتان نے 10ٹوئٹس کئے، یہاں ایسے ہی دل میں خیال آرہا کہ اپنی بری کارکردگی پر فارغ ہوئے حفیظ شیخ عمران خان کو فون کرکے اگر پوچھ لیں ’’ دو ہفتے پہلے جب آپ مجھے سینیٹر بنوا رہے تھے تب کیا میری کارکردگی بہتر تھی، اگر بہتر نہیں تھی تو سینیٹر کیوں بنوا رہے تھے اور اگر بہتر تھی تو دوہفتوں میں کیا ہوگیا کہ مجھے چلتا کر دیا ‘‘۔
اب آتے ہیں اس طرف کہ حفیظ شیخ کو فارغ کیوں کیا گیا، پہلی وجہ، گیلانی صاحب سے ہارے، عمران خان اس ہار کو دل پر لے گئے، انہیں خود اعتماد کاووٹ لیناپڑا،اسی ہارکے بعد شیخ صاحب کپتان کی نظروں سے اترے، بوجھ بن گئے، کپتان کو یہ بھی معلوم پڑا کہ قومی اسمبلی اراکین میں یہ کتنے نا پسندیدہ، دوسری وجہ، حفیظ شیخ کو ہارنے کے بعد اخلاقی طو ر پر عہدہ چھوڑ دینا چاہئے تھا،حفیظ شیخ نے خود عہدہ نہ چھوڑا، ا ن سے چھڑوادیا گیا، شاید جان چھڑوانے کیلئے اخلاقیات کا سہارا لیا گیا، تیسری وجہ، اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا کہ ’’کوئی ان الیکٹڈ شخص حکومتی کمیٹی کا سربراہ نہیں ہوسکتا ‘‘، حفیظ شیخ صرف 6ماہ ای سی سی سمیت کسی کمیٹی کی سربراہی کرسکتے تھے، انہیں ابھی اس لئے فارغ کر دیا گیا تا کہ حماد اظہر جون میں بجٹ تک قدم جما سکیں، سب کمیٹیوں کو فعال کر سکیں، چوتھی وجہ، الیکٹڈ اور ان الیکٹڈ جنگ، یہ ممبران قومی اسمبلی میں غیر مقبول، کسی کا کوئی کام نہیں کرتے تھے، سب تنگ، سب عمران خان سے شکایتیں لگا رہے تھے، آخر کار کپتان کو یہ فیصلہ کرنا پڑا، پانچویں وجہ، کپتان کو احسا س ہونا کہ حفیظ شیخ نے آئی ایم ایف کی ہرشرط مان کر تباہی پھیر دی عوام کی، مہنگائی، بے روزگاری، غربت بڑھنے کی ایک وجہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط، باقی چھوڑیں، آئی ایم ایف سے 5سو ملین ڈالر کی دوسری قسط لینے کیلئے 6مرحلوں میں بجلی صارفین پر 150ارب کا ٹیکس، گیس صارفین پر 105ارب ٹیکس، مطلب بجلی کی قیمتوں میں 5.65روپے فی یونٹ اور گیس نرخوں میں 97فیصد اضافہ کرنا، اکتوبر تک بجلی صارفین سے 884ارب اضافی ریونیو وصول کرنا، 140ارب کا ٹیکس استثنیٰ ختم کرنا، یعنی 36 ٹیکسوں کااستثنیٰ کا خاتمہ اور اسٹیٹ بینک آرڈیننس، جس کے تحت اسٹیٹ بینک کو خود مختار بنانا، دباؤ سے آزاد کروانے کی آڑ میں اسٹیٹ بینک کو ایسا بنا دینا کہ وہ حکومت پاکستان کو بھی جوابدہ نہیں ہوگا، ایف آئی اے، نیب سمیت کوئی ادارہ ا س سے کچھ پوچھ نہیں سکے گا،وہ اپنی ہر خفیہ یااہم معلومات جس کو مرضی بتا سکے گا، مطلب ایسی آئی ایم ایف شرائط پر انہیں ہٹایا گیا، یہاں سوال یہ بھی کہ اگر انہیں آئی ایم ایف کی ہرشرط ماننے پر ہٹایا گیا تو گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر ابھی تک کیوں عہدے پر موجود، وہ بھی آئی ایم ایف کے ملازم تھے، وہ بھی حفیظ شیخ کے ہر کام میں برابر کے شریک، بہر حال حفیظ شیخ جاچکے، حماد اظہر آچکے، وقت کم مقابلہ سخت، مسائل کے انبار وسائل نایاب، دیکھتے ہیں یہ تبدیلی کیارنگ دکھلاتی ہے۔
یہ تو حفیظ شیخ تھے، تحریک انصاف اس حوالے سے بدقسمت رہی کہ اڑھائی سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا، ان کاکوئی دماغ نہیں چل سکا، اور چھوڑیں تحریک انصاف کے ارسطو،پوسٹر بوائے، عمران خان کے بعد سب سے بڑے دماغ سمجھے جانے والے اسد عمر ڈیزاسٹر نکلے، بحیثیت وزیرخزانہ، آئی ایم ایف کے پاس جائیں نہ جائیں، پہلے اس کنفیوژن سے ستیاناس کیا، پھر شوگر سبسڈی، شوگر ایکسپورٹ اجازت اور شوگرمافیا کو نواز دور کے رکے پیسے دینے جیسے فیصلے، پھر اسٹیٹ بینک رپورٹ بتائے کہ اکتوبر 2018سے اپریل 2019تک 4.5بلین ڈالر کے استحکام کیلئے مارکیٹ میں پھینکے مگر اس کے باوجود ڈالر 125روپے سے 165روپے پر چلا گیا، اسد عمر بحیثیت پلاننگ ڈویژن وزیر، باقی چھوڑیں، 650ارب ترقیاتی بجٹ میں سے صرف 283ارب خرچ ہوپائے مطلب ترقیاتی بجٹ کا 43.8فیصد ہوپایا، اب ترقیاتی بجٹ خرچ نہیں ہوگا تو اسپتال، اسکول سڑکیں مطلب ترقیاتی منصوبوں اور عوام پر پیسہ کہاں سے لگے گاجب ان سے پوچھا گیا کہ ترقیاتی بجٹ کیوں نہیں خرچ ہو پایا،تاریخی جواب دیا، بیوروکریسی نیب کے ڈر سے پیسہ نہیں خرچ رہی، سبحان اللہ، اسد عمر بحیثیت این سی او سی سربراہ، کورونا پالیسیاں، کورونا پھیلاؤ، ویکسین غفلتیں، کوتاہیاں سب چھوڑیں، اس وقت خطے میں صورتحال یہ کہ نیپال میں ایک ہزار افراد میں سے 50 کو ویکسین لگ چکی، سری لنگا میں 40افراد کو، بنگلہ دیش میں 30اور بھارت میں ایک ہزار میں سے 29افراد کو ویکسین لگ چکی جبکہ پاکستان میں ایک ہزار میں ایک شخص کو ویکسین لگ رہی، یہیں رکیں، یہ رونا دھونا پھر سہی، ایک لذیذبات کرنی ہے، مجھے پنجاب کے پھوپھا پر لکھنا، تفصیلاً پھر سہی مختصراً سنتے جائیے کہ پنجاب میں ایک شاہی پھوپھا کا ظہور ہوچکا، ایک نئی اور انوکھی مثال قائم ہوچکی، پنجاب کے سب سے بڑے سائیں کے پھوپھا جو والی بال اسپورٹس کوٹے پر کبھی پولیس میں اے ایس آئی بھرتی ہوئے اور ریٹائر ہونے سے چند ماہ پہلے بمشکل ایس پی پر پروموٹ ہوئے، یہ ریٹائر ہوئے تو ان کیلئے ڈائریکٹر اسپیشل برانچ جنوبی پنجاب پوسٹ تخلیق کی گئی، 3لاکھ تنخواہ پر 3سالہ کنٹریکٹ،پھوپھا کو سامنے بٹھاکر اشتہار بنایا گیا، اِدھر اشتہارچھپا،اُدھر پھوپھا پولیس سے ریٹائر ہو کر ڈائریکٹر اسپیشل برانچ جنوبی پنجاب لگ گئے، ذرا سوچیئے،یہ پھوپھا مسلم لیگ کے ہوتے، پی پی کے ہوتے تو اب تک کپتان اور ان کے متوالے کیا کچھ نہ کر چکے ہوتے، چونکہ پھوپھا کپتان کے سائیں کا، لہٰذا ستے خیراں،آج کا یہ کالم اس خوش نصیب پھوپھا پنجاب کے اس شاہی پھوپھاکے نام، اے پھوپھا وطن کی ہوائیں تمہیں سلام کہتی ہیں۔
Source: Jung News
Read Urdu column Punjab Ka Phupha By Irshad Bhatti