Pyrrhic Victory- جاوید چوہدری
بوروڈینو (Borodino) ماسکو سے ایک سو تیس کلومیٹر دور چھوٹا سا روسی گائوں ہے‘ آبادی 17 ہزارہے اور اس پورے ٹائون میں بیچنے کے لیے صرف ایک چیز ہے اور وہ ہے نپولین بونا پارٹ‘ یہ قصبہ آج سے 210 سال پہلے نپولین بونا پارٹ اور روسی فوج کا آخری میدان جنگ بنا تھا‘ نپولین نے اس میدان میں کھڑے ہو کر روس کو شکست دی تھی‘ یہ جنگ تاریخ میں بورو ڈینو وار کہلاتی ہے اور یہ دنیا کی تمام ملٹری اکیڈمیوں میں پڑھائی جاتی ہے۔
اس جنگ‘ اس میدان اور اس قصبے نے پوری دنیا کو ایک دل چسپ سبق دیا تھا‘ وہ سبق کیا تھا آپ کو وہ سمجھنے کے لیے نپولین کا مختصر سا بیک گرائونڈ جاننا ہو گا‘نپولین چھوٹے سے قد کا عام سا نوجوان تھا‘ کورس آئی لینڈ میں اجیکسیو سٹی میں پیدا ہوا‘ قد کی وجہ سے فوج میں بھرتی نہ ہو سکا لیکن اس نے تعلیم فوجی اسکولوں میں حاصل کی ‘ انقلاب فرانس کے دوران اس نے انقلابیوں کے ساتھ مل کر تلوس میں فوج کو شکست دے دی اور وہاں سے اس کا عروج شروع ہو گیا۔
وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا گیااور1800 میں فرانسیسی فوج کا کمانڈر انچیف بن گیا‘ آخر میں اقتدار پر قابض ہوا اور 1804 میں خود کو شہنشاہ ڈکلیئر کر دیا‘ وہ آمر تھا اور دنیا کے نوے فیصد آمروں کو اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے جنگوں کی ضرورت پڑتی ہے‘ نپولین کو بھی ایک بڑی جنگ کی ضرورت تھی‘ اس نے آسٹریا اور جرمنی سے جنگ چھیڑ دی‘ وہ مضبوط اور سمجھ دار تھا‘ اس نے دونوں ملک فتح کر لیے‘ اگلا ہدف انگلینڈ تھا‘ انگلینڈ اس سے گھبرا رہا تھا۔
نپولین کو چاہیے تھا وہ اس گھبراہٹ کا فائدہ اٹھاتا لیکن اس نے برطانیہ کو مزید خوف زدہ کرنے کے لیے روس پر حملے کا فیصلہ کر لیا‘ مشیروں نے اسے سمجھایا مگر وہ باز نہ آیا اور چھ لاکھ فوج کے ساتھ روس میں داخل ہو گیا‘ روس کا سب سے بڑا دفاع اس کا موسم ہوتا ہے‘ یہ ملک اکتوبر کے بعد جمنا شروع ہو جاتا ہے اور جوں جوں برف پڑتی جاتی ہے فوجوں کے لیے آگے بڑھنا اور وہاں سے نکلنا مشکل ہوتا چلا جاتا ہے۔
نپولین کے ساتھ بھی یہی ہوا‘ وہ آگے بڑھتا رہا اور روسی فوج اسے مزید آگے لانے کے لیے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتی رہی یہاں تک کہ نپولین سردی میں ٹھٹھرتا ہوا بوروڈینو پہنچ گیا‘برف باری اور طویل سفر کی وجہ سے اس کی فوج بری طرح تھک گئی مگر وہ اس کے باوجود یہ جنگ جیت گیا لیکن چھ لاکھ فوجیوں میں سے پانچ لاکھ فوجی موسم‘ جنگ اور بیماریوں کا نشانہ بن گئے‘ صرف ایک لاکھ فوج بچی‘بوروڈینو وار کے بعد نپولین نے ابھی فتح کا جشن منانا بھی شروع نہیں کیا تھا کہ اسے پتا چلا آسٹریا‘ جرمنی اور برطانیہ نے فرانس کا محاصرہ کر لیا ہے اوراگر وہ فوری طور پر پیرس نہیں پہنچا تو فرانس اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔
نپولین فوری طور پر بچی کھچی فوج کے ساتھ واپس دوڑا لیکن راستے میں روسی فوج اس پر حملے کرتی رہی‘ ان حملوں میں اس کے مزید 90 ہزار فوجی مارے گئے اور جب وہ پیرس پہنچا تو اس کے ساتھ صرف دس ہزار فوجی بچ گئے تھے‘ روس کی فتح پانچ لاکھ نوے ہزار فوجی نگل گئی تھی‘ نپولین کی اس فوجی حماقت سے پیرہک وکٹری (Pyrrhic Victory) کی اصطلاح نے جنم لیا‘ پیرہک وکٹری کا مطلب ہوتا ہے ایک ایسی فتح جو آپ کا مکمل ستیاناس کر دے اور آپ کام یاب ہو جائیں لیکن کام یابی تک پہنچتے پہنچتے آپ اپنا سب کچھ گنوا چکے ہوں‘ آپ میں اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی ہمت تک نہ ہو۔
ہمارے ہردل عزیز عمران خان بھی نپولین بوناپارٹ کی پیرہک وکٹری کا نادر نمونہ ہیں‘ ملک کی فیصلہ ساز قوتیں 2013ء اور 2018ء میں آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی نفرت میں آگے بڑھتے بڑھتے بورو ڈینو پہنچ گئیں اور عمران خان کی وکٹری کے لیے اپنے سارے اثاثے استعمال کر دیے‘ دنیا کی کوئی ایسی تکنیک‘ کوئی ایسا طریقہ کار نہیں بچا جوعمران خان کو اقتدار تک پہنچانے کے لیے استعمال نہ کیا گیا ہو حتیٰ کہ یہ اس کے باوجود بھی کام یاب نہ ہو سکے تو ایم کیو ایم کی ’’زندہ لاشیں‘‘ ’’پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو‘ ‘’’سندھ کے لٹیروں‘‘ اور بلوچستان کی باپ پارٹی کو بھی عمران خان کی جھولی میں ڈال دیا گیا اور یوں بوروڈینو فتح ہو گیا‘ عمران خان وزیراعظم بن گئے۔
یہ فتح اگر یہاں رک جاتی تو بھی شاید زیادہ نقصان نہ ہوتا لیکن عمران خان ان سے بھی بڑے نپولین ثابت ہوئے‘ یہ بھی ملک کو نواز شریف اور آصف علی زرداری کی نفرت کا ایندھن بناتے چلے گئے‘ نیب ہو ‘ ایف آئی اے ہو یا پھر آئی بی ہو وزیراعظم نے ملک کے تمام بڑے سویلین ادارے اپوزیشن کے پیچھے لگا دیے‘ حکومت دن رات نفرت کاکھیل کھیلتی رہی اور اس کھیل میں میاں شہباز شریف کو سات ماہ‘ حمزہ شہباز کو20ماہ‘ رانا ثناء اللہ چھ ماہ ‘ خواجہ آصف چھ ماہ‘ خواجہ سعد رفیق 15ماہ‘احسن اقبال دو ماہ‘ سید خورشید شاہ 25ماہ‘ اورشاہد خاقان عباسی کو سات ماہ جیل میں رکھا گیا۔
حکومت کو جہاں بھی کوئی باصلاحیت شخص نظر آتا تھا یہ اسے بھی لپیٹ لیتی تھی اور وہ شخص خواہ جہانگیر ترین ہو‘ علیم خان ہو‘ذلفی بخاری ہو یا پھر پرویز خٹک ہو عمران خان نے اپنے یا پرائے کسی کو نہیں چھوڑا‘ ملک کے تمام اہم اداروں پر بھی چن چن کر نااہل لوگوں کو تعینات کیا گیا‘ پنجاب جیسا بڑا صوبہ اس عثمان بزدار کے حوالے کر دیا گیا جو وزیراعلیٰ بننے سے پہلے کراچی نہیں گیا تھا‘ جو مال روڈ پر گاڑی نہیں چلا سکتا تھا‘ جو ٹچ اسکرین فون استعمال کرتے ہوئے بھی گھبراتا ہے اور جس کو جس نے جو کہہ دیا اس نے اسی وقت کر دیا‘ نیب جیسے ادارے کو بھی ’’اگلے حکم تک‘‘ کا پابند بنا دیا گیا‘ ساڑھے تین سال میں ایف بی آر کے چھ چیئرمین بدل گئے۔
چار وزیر خزانہ تبدیل ہوئے‘ آئی جی حضرات کی مدت تین تین ماہ ہو گئی اور سیکریٹری اور وزراء ٹویٹر دیکھ کر دفتر آتے تھے کہ میں اب بھی اپنی کرسی پر ہوں یا نہیں‘ حکومت کا اتحادیوں کے ساتھ رویہ بھی افسوس ناک تھا‘ ایم کیو ایم ہو‘ ق لیگ ہو‘ جی ڈی اے ہویا پھر باپ پارٹی ہو وزیراعظم کسی سے ملاقات کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے‘یہ کسی کی بات سننے کے روادار بھی نہیں تھے‘ ان کے پاس جو بھی آتا تھا یہ اسے اپنی سنا کر واپس بھجوا دیتے تھے‘ چوہدری صاحبان نے اس رویے کی شکایت کی تو نیب میں ان کے کیس بھی کھل گئے اور چوہدری پرویز الٰہی کی گرفتاری کا حکم بھی دے دیا گیا۔
یہ معاملات بھی شاید برداشت ہو جاتے لیکن حکومت نے اپوزیشن اور اتحادیوں کے ساتھ ساتھ معیشت کا جنازہ بھی نکال دیا‘ ڈالر 180 تک پہنچ گیا‘ مہنگائی 15 فیصد تک پہنچ گئی‘ غریب تو دور اشیاء ضرورت امیر طبقے کے ہاتھ سے بھی نکل گئیں اور مہنگائی کے ساتھ بے روزگاری کا طوفان بھی آگیا‘ وزیراعظم اگر یہاں بھی رک جاتے تو بھی شاید بچت ہو جاتی لیکن انہوں نے عالمی برادری کے ساتھ بھی میاں نواز شریف جیسا سلوک شروع کر دیا۔
چین ہو‘ سعودی عرب ہو‘ ایران ہو‘ یورپی یونین ہو یا پھر ترکی اورملائیشیا ہوں وہ کون سا ملک تھا جس کی ناک میں ہم نے دھواں نہ چھوڑا ہو‘ ہم امداد بھی مانگتے رہے اور آنکھیں بھی دکھاتے رہے لہٰذا ہم پوری دنیا میں تنہا ہو گئے‘ آج حالت یہ ہے دنیا کا کوئی ملک ہمارے ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں‘ رہی سہی کسر ہم نے روس کے تنور میں چھلانگ لگا کر پوری کر دی‘ پوری دنیا یوکرین کے ساتھ کھڑی تھی اور ہم روس کی بغل میں جا کھڑے ہوئے لہٰذا یہ ساڑھے تین سال پیرہک وکٹری کا خوف ناک نمونہ تھے۔
ہمیں آج ماننا ہوگا عمران خان اور عمران خان کے ٹیلی فون دونوں اس ملک کے لیے نپولین بونا پارٹ ثابت ہوئے ہیں‘ یہ دونوں فتح یاب ہو گئے بلکہ انہوں نے فتوحات کا انبار لگا دیا لیکن ہم مانیں یا نہ مانیں یہ فتوحات نپولین کی فتوحات ثابت ہوئیں‘ یہ لوگ جیت گئے لیکن ملک ہار گیا‘ ہمارے تمام ادارے (جی ہاں تمام) زخمی ہو گئے اور ہمارے یہ زخم کب مندمل ہوں گے‘ ہم نہیں جانتے‘ یہ قوم اب برسوں تک چند لوگوں کی انا کی قیمت چکائے گی‘ حکومت عملاً جا چکی ہے بس او آئی سی کانفرنس کے خاتمے کی دیر ہے اور عمران خان میدان میں اکیلے کھڑے ہوں گے۔
تسمے باندھنے والے مشیر بھی رخصت ہو جائیں گے اور ان کے لیے آیت کریمہ کا ورد کرنے والے بھی کہیں دکھائی نہیں دیں گے لیکن ملک کے نقصان کاحساب کون دے گا؟ اس ملک کی معذور معیشت کو سہارا کون دے گا اور یہ سلسلہ بھی اگر یہاں تک رک جائے تو بھی غنیمت ہے لیکن میاں نواز شریف‘ آصف علی زرداری اورمولانا فضل الرحمن بھی اس بار انتقام کی ایسی تاریخ رقم کریں گے کہ لوگ جغرافیہ تک بھول جائیں گے‘ یہ بھی نپولین وکٹری کے ساتھ حکومت بنائیں گے اور اس کا خمیازہ بھی اس بے چارے ملک کو بھگتنا پڑے گا۔
میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن دونوں اب ماضی کے لوگ نہیں ہیں‘ یہ مکمل انتقام کے ساتھ واپس آ رہے ہیں‘ یہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے‘ آپ یقین کریں میں جب آنے والے وقت کاتصور کرتا ہوں تو میری روح تک کانپ جاتی ہے۔
ہم بڑی تیزی سے واٹر لو کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Pyrrhic Victory By Javed Chaudhry