قابلِ تحسین و قابل تقلید ادارہ – ڈاکٹر عبد القدیر

dr-abdul-qadeer-khan

آپ کو علم ہے کہ میں اور میرے رفقائے کار لاہور میں ایک بڑا 300بیڈ کا فلاحی اسپتال بنا رہے ہیں وہاں شروع میں ہی (3 سال قبل) ہم نے ایک اعلیٰ OPD بنا دیا تھا۔ تین سال میں ہم نے وہاں تقریباً تین لاکھ اسی ہزارافراد کا بالکل مفت علاج کیا ہے۔ وہاں ہرقسم کے ڈاکٹر موجود ہیں اور چھوٹا آپریشن تھیٹر بھی ہے۔ تقریباً ایک سال میں ہم نے ہزاروں افراد کا ڈائیلسزبھی کیا ہے۔ جب لاہور میں ڈاکٹر ہڑتال کرتے ہیں اور OPD بند کردیتے ہیں تو ہم اپنے اسپتال کا OPD ہفتہ میں سات دن اور چوبیس گھنٹے کھلا رکھتے ہیں کہ ضرورت مند مریض علاج کراسکیں اور دوائیں بھی لے جائیں۔ اس اسپتال کی تعمیر ان شاء اللہ اگلے سال مکمل ہوجائے گی اور اعلیٰ علاج فراہم کیا جائے گا۔ اسپتال کی تعمیر اوردیگرمسائل کی وجہ سے میں ہر ماہ ضرور دو تین دن کا چکّر لگاتا ہوں۔

چندہفتہ قبل میرے نہایت عزیز دوست اور قابل ڈاکٹر اے ایس چغتائی صاحب نے دعوت دی کہ انہوں نے نہایت اعلیٰ اسٹیٹ آف دی آرٹ ایک لیبارٹری بنائی ہے، اس کے افتتاح کے لئے ہوٹل میں ڈنر رکھا اور مجھے چیف گیسٹ بننے کا اعزاز بھی بخشا۔ بدقسمتی سے میری طبیعت ناساز ہوگئی اور شدیدخواہش کے باوجود ڈاکٹروں کے مشورے اور ہدایت کی وجہ سے میں اس میں شرکت نہ کرسکا۔ میں نے پھر بھی ایک چھوٹا سا پیغام ریکارڈ کروا کر ان کو بھجوا دیا۔ پچھلے ہفتہ مجھے پھر لاہور جانا پڑا تو میں نے ڈاکٹر چغتائی صاحب کو پیغام بھیجا کہ اگر ممکن ہو تو میں ان کی لیب کا دورہ کرلوں اور پچھلی غیرحاضری کا مداوا کردوں۔ وہ اور ان کا اسٹاف بہت خوش ہوا اور ہم 9 بجے کی فلائٹ لے کر 10 بجے لاہور پہنچے اور وہیں سے سیدھےاس اعلیٰ ترین لیب پہنچ گئے۔اس نہایت خوبصورت 8,7 منزلہ عمارت میں داخل ہوا تو یہ احساس ہوا کہ میںجرمنی یا سوئٹزرلینڈ کی کسی عمارت میں داخل ہوگیا ہوں۔ نہایت اعلیٰ تعمیر، صفائی یورپ کے مقابلے کی، 15 برس یورپ میں رہا ہوں اور جرمنی، ہالینڈ، فرانس، اٹلی، بلجیم، انگلینڈ، سوئیڈن، ناروے، ڈنمارک، امریکہ میں لاتعداد یونیورسٹیوں اور صنعتی اداروں کا دورہ کیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ چغتائی لیب دیکھ کر ان کی یادیں تازہ ہوگئیں۔

ڈاکٹر چغتائی ایک تجربہ کار اعلیٰ پتھالوجسٹ ہیں آپ کنگ ایڈورڈ کالج میں پروفیسر رہے ہیں۔ اس کے بعد آپ سینٹرل پارک میڈیکل کالج کے پرنسپل رہے، میں بھی ایک مرتبہ وہاں گیا تھا۔ بہت اچھا کالج تھا۔ آپ نے اپنی کمپنی کا موٹو ’’ون نیشن، ون لیب‘‘ (One Nation – One Lab) رکھا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ واقعی ایک لیب، ایک ہی چھت تلے علاج و معالجہ اور ریسرچ کی تمام سہولتیں اکٹھاکردی ہیں۔ ان کی اور بیگم صاحبہ کی سرپرستی میں بچوں نے بھی بہت اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔یہ بہت اچھی بات ہے کہ اس قسم کے اہم کام میں اپنے عزیز و اقارب شامل ہوں تو انسان سکون قلب سے کام میں مصروف رہتا ہے اور کام خوش اسلوبی سے ہوتا ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ اس طرز ِ عمل سے ڈاکٹر چغتائی ان شاء اللہ اس ادارے کو مزید اعلیٰ بنا دینگے۔

پروفیسر ڈاکٹر چغتائی نے اس نئی عمارت کے افتتاح کے موقع پر ایک اسپیشل بلیٹن شائع کیا ہے جس میں انہوں نے اپنے لمبے دشوار سفر اور منزل مقصود حاصل کرنے پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ فرماتے ہیں، ’’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بہت پرانی بات نہیں ہے یہ سفر 1983 میں شروع ہوا جب ہمارے پاس صرف تین کمرے تھے دو ٹیکنالوجسٹ تھے اور ایک پتھالوجسٹ۔ ہمیں خود پتہ نہ تھا کہ یہ سفر کہاںاور کس طرح مکمل ہوگا۔ وقت گزرتا گیا۔اس اعلیٰ اہم دشوار سفر کی مختصراً تفصیل حاضر خدمت ہے۔ 1983میں ڈاکٹر اے ایس چغتائی نے لاہور لیب قائم کی تین کمرے دو ٹیکنیشنز اور ایک پتھالوجسٹ (غالباً خود)،1985 میں جیل روڈ پر پہلی لیبارٹری بنائی گئی، 1986 میں لاہور لیب نے بلڈ بینک بنایا اور وہاں خون کے نمونوں کی باقاعدہ اسکریننگ ہونے لگی، 1987 میں ’’ایلی سا‘‘ پر مبنی ہپاٹائٹس اور ہارمون ٹیسٹنگ شروع کی,1988 میں باریک سوئی سے خون وغیرہ نکالنا، 1997 میں ڈاکٹر چغتائی نے لاہور لیب کا نام چغتائی لاہور لیب رکھ دیا،2000 میں لاہور کے باہر توسیعی کام شروع ہوا اور گوجرانوالہ، اوکاڑہ اور فیصل آباد میں شاخیں قائم کردی گئیں، 2001 میں ایک اعلیٰ سافٹ ویئر، مریضوں کی سہولت کے لئے، تیار کیا گیا اور لیب میںلگا دیا گیا۔لیب کی شاخیں اسلام آباد اور راولپنڈی میں 2009 میں قائم کردی گئیں،بارکوڈ نمونوں پر لیبل لگانے اور ان پر مسلسل نگاہ رکھنے کے لئے 2010 میں دو راہا انٹرفیس قائم کیا جو آلات اور لیب سافٹ ویئر کے ساتھ جوڑ دیا گیا,2010/2011 میں ڈینگی مچھر و بخار کی وبا کے دوران لیب نے ایک لاکھ پچیس ہزار سے زیادہ نمونوں کی جانچ پڑتال کی اور اسی دوران میں15189 ISOاسٹینڈرڈ حاصل کرلیا۔ ملتان میں STAT لیب کھول دی گئی2012 میں لیب نےm 2000 آٹومیٹک PCR سسٹم لگا لیا او گھر میں جاکرمفت کا آغاز ہوگیا۔ بہاولپور اور سرگودھا میں شاخیں کھل گئیں،لیب کو PMDC نے FCPS کے امتحانات کی ٹریننگ کے لئے منظور کرلیا اور اجازت دے دی، 2013 میں FCPS کے لئے ٹریننگ کی اجازت مل گئی، پشاور، لاڑکانہ اور سکھر میں شاخیں کھل گئیں، 2015 میں چغتائی لیب لاہور کا نام تبدیل کیا گیا اور اب وہ صرف چغتائی لیب کہلانے لگی۔

اس وقت یہ لیب پوری طرح آٹومشین پر چل رہی ہے۔ انسانی ہاتھ تمام نمونے وغیرہ چھونے سے محفوظ رہتے ہیں۔ اس میں نہایت اعلیٰ آلات لگائے گئے ہیں اور اعلیٰ سافٹ ویئر لگا ہوا ہے۔ اس وقت مندرجہ ذیل سہولیات موجود ہیں،گھر سے نمونے لینےاور نرسنگ کی سہولت، گھر پر فزیوتھراپی، انجکشن اور ڈرپ وغیرہ لگانا اور ایکسرے اوردوائیں پہنچانا، ایمولینس کی سروس، ہوم کیئر، لائبریری، بلڈ سینٹر اور فائونڈیشن اعلیٰ خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اسکے علاوہ ICU اور لٹرا سائونڈ، ECO, ECG وغیرہ کی سہولتیں بھی موجود ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے بیمار لوگوں کو کبھی واپس نہیں کیا جاتا۔ چغتائی بھائی ان کے اہل و عیال و رفقائے کار کو اللہ پاک تندرست و خوش اور حفظ و امان میں رکھے۔ آمین

Read Urdu column Qabil tehseen o qabil taqleed idarah Dr Abdul Qadeer Khan
source

Leave A Reply

Your email address will not be published.