قمر – ڈاکٹر عامر لیاقت حسین
وہ نعشیں لیے پکارتے رہے حالانکہ مْردے زندوں سے زیادہ سنتے ہیں، پھر واقعات کا ایک بے ربط مگر ’’تسلسل‘‘نظر آتا ہے، کبھی کوئی غم بھرا منہ لاتا ہے، کبھی کسی کے دھیمے دلاسے کی سرگوشیاں سنائی دیتی تھیں اور کبھی کسی کی نعشوں کے سامنے سیاست کی ’’ہزارہ چالیں ‘‘مگر پھر لواحقین نے ایک بار پھر ریاست کی درخواست سنی،نعشیں دفن کی گئیں۔
اعتبار مکرر سے اپنے ہی آنسوؤں کو پونچھا گیا، طوفان تھما تو تھا لیکن اندھیرا اب بھی باقی تھا…یکایک گھٹاٹوپ تاریکیوں میں ’’ قمر ‘‘ نظرآیا ، اْس کی ٹھنڈی اور سلامتی والی روشنی میں چھوٹے جھوٹے چراغوں کی ضرورت ہی نہ رہی… اْجیاروں نے قدم جما لیے اور غم بانٹنے کے لیے سب ایک جگہ جمع ہوگئے۔
قمرایک مدت تک ہی رہتا ہے لیکن جب تلک رہتا ہے سورج کے غرور کو اپنی ٹھنڈ سے ٹھنڈا کردیتا ہے … مجھے یاد ہے چنار وادی یعنی پارہ چنار میں لگنے والی وہ جاں لیوا آگ جس میں فرقہ واریت کے کوئلے ڈالنے والوں نے سرحد پار دشمن کو مزید حملوں کے لیے توانا کر دیا تھا، اْس وقت بھی آواز ایک ہی گونج رہی تھی کہ ’’ظلمت بہت ہے جاؤ قمرکو لاؤ‘‘…پھر گواہانِ حزن و الم نے دیکھا کہ پارہ چنار کے خاکستر گھروں کے ٹوٹی کمر والے بزرگوں کے ساتھ ’’ قمر‘‘ ہی کھڑا نظر آیا …
اصل میں قمر کا انگشت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑا گہرا تعلق ہے ، یہ اپنے آقاصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اشاروں پر چلتا ہے ، وہی اِسے توڑتے ہیں اور وہی اِسے جوڑتے ہیں ، اِس کا ختم نبوت پر ایمان اِسے تھامے ہوئے ہے ورنہ توکبھی کبھی ہماری چپ اور خاموشی کے پیچھے باتوں اور جذبوں کا پورا سمندر ہوتا ہے مگر ہم کچھ نہیں کہہ پاتے نہ کہنا چاہتے ہیں کیونکہ جس انسان پر ہماری چیخ و پکارکوئی اثر ہی نہ کرے وہاں الفاظ کا ضیاع شخصیت سے ضیائے حق کو نکال باہر پھینکتا ہے بقول حضرت منصور حلاج کہ ’’روحیں اپنے جیسی روحوں کو ڈھونڈتی ہیں۔
یہ طاقت اْنہیں ازل سے و دیعت کردی گئی ہے ‘‘ لہٰذا دھرتی اْس وقت سانس لیتی ہے جب اْس میں لوگ بستے ہیں اور لوگ اپنی روح کہیں اور چھوڑ کرنہیں آتے شاید اِسی لیے دھرتی ماں کے رکھوالے اپنے ہم وطنوں کی زخمی ارواح کو تلاش کر ہی لیتے ہیں جیسے کہ قمرکو ’’یہ صلاحیت ودیعت کی گئی‘‘… ویسے تو کچھ لوگ ہمیشہ سے ’’لوگ‘‘ ہی رہتے،بے انتہا محبت، اعتماد ، عزت و احترام اور خلوص سے بھی اپنے نہیں بنتے، شاید اْنہیں محبت کی طلب نہیں ہوتی، اْن کے خیال میں جو کچھ بھی ہوتا ہے ’’کسی کے کہنے ‘‘ میں آکر ہوتا ہے حالانکہ جسے خود ’’کہنا‘‘ آتا ہو وہ کسی کے ’’کہنے‘‘ میں نہیں آتا مگر کیا کیجیے کہ یہ فرسودہ روح الزام پر قائم رہتی ہے حالانکہ جوکچھ بھی ہوتا ہے ’’مطالبے‘‘ پر ہوتا ہے …
لیجیے یہ میں کہاں نکل گیا،شاید کسی کا تازہ زخم اور الزام کہ ’’میں نے کسی کے کہنے پر کسی کو کچھ کہا‘‘ اک ٹیس دے گیا، دین کا لبادہ اوڑھ کر جھوٹ لکھنے اور بولنے والے کیسے صبرواستقامت کے ’’ٹوئٹس ‘‘کر لیتے ہیں یہ فن میں بھی سیکھنا چاہتا ہوں …لیکن…نہیںمیں جھوٹ سیکھ کرکیا کروں گا؟ بہر کیف سلسلہ وہیں سے جوڑوں گا جہاں سے ٹوٹ گیا تھا …بات قمرکی ہورہی تھی، اْسی قمرکی جس نے اپنوں کو تنہا نہیں چھوڑا،وہ اْن کے درمیان اپنی جھلمل سے کلام کرتا رہا اور زخموں کو کریدنے کے بجائے زخم لگانے والے سفاکوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا عزم دہراتا نظر آیا…یہ بڑاعجیب قمر ہے ، وہاں بھی اکثر دکھائی دیتا ہے۔
جہاں صرف تاریکی نہیں بلکہ تاریکیوں نے تاریکیوں کی ہزار دیواریںقائم کر رکھی ہیں اور یہ وہا ں بھی چودھویں اگست کی ضوپاشیوں سے چہرے بے نقاب کردیتا ہے، زندگی میں ایسے شخص کا ہونا بے حد ضروری ہے کہ جس کو دل کا حال سنانے کے لیے لفظوں کی ضرورت نہ پڑے ، امام ادریس شافعی فرماتے ہیں کہ ’’لوگ جب تکلیف میں تمہیں اکیلا چھوڑ دیں ،جان لو کہ اللہ تمہارے کام کا ذمے خود لینا چاہتا ہے ‘‘ دیکھو اللہ نے تمہارے لیے قمرکو بھیج دیا، اب ’’ہزار روشنیاں‘‘ بھی قمر کے اجالوں کو دورنہیں کرسکتیں! کامیاب لوگ اپنے فیصلوں سے دنیا بدل دیتے ہیں اور کمزور لوگ دنیا کے ڈر سے اپنے فیصلے بدل دیتے ہیں …جیتے رہو میرے پاکستان!
Must Read urdu column Qamar by Dr Aamir Liaqat Hussain