قصہ عمر رواں اور کچرے کا! – عطا ء الحق قاسمی
ہماری عدلیہ کی ایک محترم شخصیت کا بڑا حوصلہ ہے کہ انہوں نے اشفاق احمد کے بابے سے استفادہ کرتے ہوئے خود کو بھی ’’بابا‘‘ کہہ دیا، حالانکہ ابھی دور دور تک ان کے ’’بابا‘‘ ہونے کے کوئی آثار نہیں، ساٹھ سال بھی کوئی عمر ہوتی ہے، میں 75کراس کر رہا ہوں، مگر مجھے کوئی بابا کہہ کر تو دیکھے، ایک دفعہ میں دوستوں کے ساتھ کھڑا تھا، ایک بزرگ تشریف لائے داڑھی، مونچھیں اور بھنویں سفید، ہاتھوں میں رعشہ اور کمر جھکی ہوئی۔ وہ آ کر میرے پائوں چھونے لگے تو میں نے جلدی سے انہیں اپنے دونوں بازوئوں میں لیا اور کہا ’’بزرگو آپ مجھے کیوں شرمندہ کرتے ہیں؟‘‘ انہوں نے رعشہ زدہ آواز میں کہا ’’سر مجھے پائوں چھونے دیں۔ میں ایف سی کالج میں آپ کا شاگرد رہا ہوں‘‘ وہ تو شکر ہے کہ اردگرد کوئی خاتون نہیں تھی ورنہ ٹکے کی عزت نہ رہتی۔
میرے قارئین مجھ سے اکثر پوچھتے ہیں کہ جناب آپ اپنے کالموں میں اپنی عمر کا ذکر کیوں کرتے ہیں؟ ادب آداب سے ناواقف ایک قاری نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ آپ شاید جواب میں یہ سننا چاہتے ہیں کہ جناب آپ 75کے کہاں! آپ 24سے زیادہ کے نہیں لگتے، ایک تو ہم لوگوں کو کسی کا دل رکھنا نہیں آتا۔ وہ یہ بات طنزیہ انداز میں کہنے کے بجائے سنجیدگی سے بھی کہہ سکتا تھا، اس کا کیا جانا تھا۔ میرا دن اچھا گزر جاتا، مگر ہم تو
کسی کو خوش دیکھ ہی نہیں سکتے۔ ایک دن میں گھر سے نکلا تو واقعی بہت خوش تھا۔ کس بات پر خوش تھا، یہ تو مجھے علم نہیں، بقول شاعر؎
جیسا موڈ ہو ویسا نظر ہوتا ہے
موسم تو انسان کے اندر ہوتا ہے
چنانچہ بغیر کسی خاص وجہ کے بات بات پہ ہنستا تھا، مگر جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہم کسی کو خوش نہیں دیکھ سکتے، میری چہکار دیکھ کر ایک دوست نے کہا ’’تم آج بہت خوش نظر آ رہے ہو، مگر اتنا زیادہ خوش ہونا اچھا نہیں ہوتا‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’وہ کیوں؟‘‘ بولا ’’ہرخوشی کے پیچھے ایک دکھ دبے پائوں چلا آ رہا ہوتا ہے، ممکن ہے تمہاری مسلسل ہنسی سن کر وہ دکھ اپنی رفتار تیز کر دے‘‘ میں ڈر گیا کیونکہ ہم ڈر جانے والے لوگ ہیں، ہمارا میڈیا سارا دن ہمیں ڈراتا ہی تو رہتا ہے۔ میں نے فوراً رونی سی صورت بنا لی اور دوست سے پوچھا ’’اب ٹھیک ہے؟‘‘ اس نے کہا ’’بس گزارا ہے، کیونکہ تمہارے اندر کی خوشی ابھی تک تمہارے چہرے پر جھلک رہی ہے، پھر اس نے اپنے ’’فلسفے‘‘ کو تقویت پہنچانے کے لئے بتایا کہ اس کے ایک سرمایہ دار دوست نے امریکہ جانا تھا جہاں لاکھوں ڈالر کے آرڈر اسے ملنے تھے، مگر میری اور اس کی ٹکٹ ریکوسٹ پر تھی۔ میں وہاں اپنے بیٹے کے پاس جا رہا تھا، عین موقع پر اس کی سیٹ کنفرم ہو گئی، وہ خوشی سے پاگل ہو گیا اور خراماں خراماں جہاز میں جا بیٹھا۔ اس کی خوشی دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکا اور پھر وہی ہوا جو زیادہ خوش ہونے سے ہوتا ہے، اس کے جہاز کا کریش ہو گیا اور اس کی لاش کے ٹکڑے بھی نہیں ملے۔ ’’میں حالانکہ اس کی باتوں سے بہت ڈرا ہوا تھا مگر اللہ جانے مجھ میں اتنی ہمت کہاں سے آئی کہ میں نے اسے مخاطب کیا اور کہا ’’میں نے تم سے بڑا مفتی آج تک نہیں دیکھا‘‘۔
میرے خیال میں عمر کا تعلق ماہ و سال سے نہیں ہوتا، بلکہ اس کیفیت سے ہوتا ہے جو آپ اپنے اوپر طاری کر لیتے ہیں۔ وہ لوگ جوانی ہی میں بوڑھے ہو جاتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے اندر کے بچے کا گلا گھونٹنے میں لگے رہتے ہیں۔ وہ ڈھول کی تھاپ پر اگر اپنے جسم میں ارتعاش محسوس کریں تو اس ارتعاش کو ڈانٹ ڈپٹ کر بیٹھا دیتے ہیں۔ اگر کوئی قہقہہ آور لطیفہ نہیں تو دانت بھینچ لیتے ہیں کہ کہیں ہلکی سی ہنسی بھی باہر نہ پھسل جائے۔ ان کے نزدیک سوبر رہنا معزز ہونے کی نشانی ہے۔ مگر میں اپنے اندر کے بچے کے ساتھ کھیلتا رہتا ہوں اور خوش رہتا ہوں، یہ مفت کی خوشی ہے، میں اسے ہاتھ سے کیوں جانے دوں؟
چلیں عمر کا قصہ یہیں ختم کرتے ہیں کیونکہ مجھے اچانک یاد آیا کہ بہت عرصے سے کراچی میں کچرے کے ڈھیر موضوع گفتگو بنے ہوئے ہیں۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو ہمارے چاروں طرف کچرا ہی کچرا نظر آتا ہے۔ آپ کسی بھی دفتر میں چلے جائیں، وہاں کئی کرسیوں پر آپ کو سوٹ اور ٹائی میں ملبوس ’’کچرا‘‘ بیٹھا نظر آئے گا۔ علوم و فنون میں کچرے کی آمیزش، کاروبار میں کچرا، مذہب میں کچرا، سیاست میں کچرا، ہر طرف کچرا ہی کچرا، اور یہ صورتحال صرف پاکستان ہی میں نہیں انڈیا میں بھی نظر آتی ہے۔ پاکستان سے اس کی نفرت نے تو ان کے ذہن بھی کچرے سے بھر دیئے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کچرا جو ہم عام معنوں میں استعمال کرتے ہیں اور جس کے حوالے سے کراچی کا ذکر اکثر سننے میں آتا ہے، دہلی جیسا شہر بھی اس سے مبرا نہیں۔ میں نے ایک دفعہ دلی کے سب سے پوشڈ ایریا کناٹ پیلس میں ایک شخص کو ’’بڑے والی‘‘ حاجت پوری کرتے دیکھا۔ ایک دن خروشچیف انڈیا کے دورے پر گیا۔ تو اس نے ایک مقام پر ایک شخص کو دیوار کی طرف منہ کر کے دھواں ’’دھار‘‘ حرکت کرتے دیکھا۔ خرو شچیف نے نہرو کو مخاطب کر کے کہا ’’اس شخص کو دیکھو، اگر روس میں کوئی شخص ایسی حرکت سرعام کرتا نظر آئے تو اسے موقع پر ہی گولی مار دی جاتی ہے‘‘ نہرو نے شرمندگی سے منہ دوسری طرف پھیر لیا کچھ عرصے بعد نہرو روس کے دورے پر گئے تو ان کی نظر بھی ایک شخص پر پڑی جو دیوار کی ’’آبیاری‘‘ میں مشغول تھا۔ نہرو خوشی سے نہال ہو گئے اور خرو شچیف سے کہا ’’ادھر دیکھو‘‘ خرو شچیف نے دیکھا تو اپنے گارڈ سے کہا ’’جائو اور اسے موقع پر ہی شوٹ کر دو‘‘ گارڈ گیا۔ مگر اسی شخص کو شوٹ کرنے کی بجائے سیلوٹ مار کر واپس آ گیا۔ خرو شچیف نے غصے سے آگ بگولہ ہو کر کہا ’’تم نے اسے شوٹ کیوں نہیں کیا؟‘‘ گارڈ بولا ’’سر میں اسے شوٹ کیسے کر سکتا تھا، وہ انڈین ایمبیسڈر ہے!‘‘
چلیں اگر یہ لطیفہ ہے تو لطیفہ ہی سہی، مگر فٹ ضرور بیٹھتاہے!
Source: Jung News
Read Urdu column Qisah umer rawaan aur kachray ka By Ata ul Haq Qasmi