قربانی لیکن کس کی؟ – حامد میر
عیدِ بقر کو ہم بکرا عید بھی کہتے ہیں۔ اس عید پر بکرے، دُنبے، گائے یا اونٹ کی قربانی ایک مذہبی فریضہ ہے لیکن قربانی کی عید کو پاکستان میں ایک سیاسی استعارے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مہنگائی کے ہاتھوں بےحال اہلِ وطن کیلئے بکرا یا دُنبہ قربان کرنا پہلے ہی بڑا مشکل تھا لیکن اس سال کورونا وائرس نے اس مذہبی تہوار کو روایتی جوش و جذبے سے منانے کی راہ میں کئی رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔
مویشی منڈیاں شہری علاقوں سے باہر بنائی گئیں اور جب مہنگائی سے پریشان مسلمان ان منڈیوں میں بکرے کا ریٹ پوچھتے ہیں تو جواب سن کر ان کے احساسات کچھ یوں ہوتے ہیں کہ …
ریٹ تیرے سن کے میں حیران ہو گیا
قصائی کی فیس پوچھی تو پریشان ہو گیا
تیری قربانی تو عید کو ہو گی بکرے میاں
میں تو مگر عید سے پہلے قربان ہو گیا
اس سال کورونا وائرس تو محض ایک بہانہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خوفناک مہنگائی کے باعث پاکستانیوں کی ایک بڑی اکثریت چھوٹے سے چھوٹا بکرا بھی قربان کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اس سال حصہ ڈال کر قربانی کرنے کے طریقے پر زیادہ عمل کیا جا رہا ہے۔ پچھلے سال قربانی کی عید سے قبل حکومتی وزراء کہہ رہے تھے کہ قربانی کی عید کے بعد کئی اپوزیشن رہنمائوں کی قربانی ہونے والی ہے۔
اس سال اپوزیشن کے کچھ رہنما یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ قربانی کی عید کے بعد عمران خان کی حکومت کی قربانی ہو جائے گی۔ ویسے آگ تو دونوں طرف لگی ہوئی ہے۔ حکومت کی طرف سے بھی عید کے بعد کئی اپوزیشن رہنمائوں کو جیلوں میں ڈالنے کی تیاری کی جا رہی ہے جبکہ اپوزیشن رہنما مولانا فضل الرحمٰن کی کوشش ہے کہ عید کے بعد مختلف جماعتیں حصہ ڈال کر حکومت کی قربانی کریں۔
انہوں نے اسلام آباد، کراچی اور لاہور کے درمیان بھاگ دوڑ کرکے آخرکار قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی زبان سے یہ ڈائیلاگ کہلوا لیا ہے کہ عمران خان اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔
ماضی کے کئی وزرائے اعظم کی طرح عمران خان کا بھی شاید یہ خیال ہے کہ وہ ہمیشہ اقتدار میں رہیں گے کیونکہ جو انہیں اقتدار میں لائے ہیں ان کے پاس فی الحال دوسری کوئی چوائس نہیں لیکن سیاست میں کوئی بھی کسی کی مستقل مجبوری نہیں رہتا۔ ہماری سیاست میں دوستیاں اور دشمنیاں بدلتی رہتی ہیں اور اب تو دوستی کی آڑ میں دشمنوں والے کام کرنے کو بھی معیوب نہیں سمجھا جاتا۔
عمران خان نے دو سال جیسے تیسے مکمل کر لئے لیکن عید کے بعد ان کا اصل امتحان شروع ہونے والا ہے۔ اگلے چھ ماہ ان کے لئے بہت اہم ہیں اور بہت مشکل بھی۔ یہ چھ ماہ نکل گئے تو عمران خان کی حکومت کیلئے اپنے پانچ سال پورا کرنا آسان ہو جائےگا۔ اپوزیشن جماعتوں کے پاس بھی صرف چھ ماہ باقی بچے ہیں۔ چھ ماہ کے بعد پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا سینیٹ میں ان کی اکثریت ختم ہو جائے گی۔ تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی اکثریت آ جائے گی اور قانون سازی کیلئے عمران خان کو بار بار اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کرنا پڑیں گے۔
سوچنے کی بات ہے کہ ابھی عمران خان کے پاس سینیٹ میں اکثریت نہیں اور وہ اپوزیشن جماعتوں کو سانس نہیں لینے دے رہے اگر ان کے پاس سینیٹ میں بھی اکثریت آ گئی تو پھر وہ کسی کے بھی قابو نہ آئیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ عید کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمینٹ کے اندر اور باہر عمران خان کے خلاف سردھڑ کی بازی لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
اپوزیشن کے اتحاد کو توڑنے کیلئے ایک غیرسیاسی رابطہ کار نے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں فاصلے کم کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ ہم پیپلز پارٹی کو مرکز اور پنجاب کی حکومتوں میں حصہ دینے کیلئے تیار ہیں، جواب میں پیپلز پارٹی کی طرف سے تحریک انصاف کو سندھ حکومت میں حصہ دیا جائے لیکن پیپلز پارٹی نے خاموشی سے اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔ یہ پیشکش قبول کرکے پیپلز پارٹی کو نیب کے خلاف اپنی زبان بند کرنا پڑتی اور اس کی حالت وہی ہوتی جو آج کل مسلم لیگ (ق) کی ہے۔ اسے نیب کے الزامات کا سامنا ہے اور وہ کھل کر نیب کے خلاف بول بھی نہیں سکتے۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے پچھلے دنوں کوشش کی کہ نیب قانون اور ایف اے ٹی ایف سے متعلق قانون سازی پر حکومت کے ساتھ اتفاق رائے قائم کیا جائے لیکن عمران خان نے ان دونوں جماعتوں کی طرف سے نیب قانون میں تجویز کی گئی تبدیلیوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جس کے بعد اپوزیشن نے ایف اے ٹی ایف سے متعلق قوانین کو بھی مسترد کر دیا۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے جوائنٹ ورکنگ گروپ کا آئندہ اجلاس اکتوبر میں ہونے والا ہے جس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کا فیصلہ ہونا ہے۔
پاکستان ایف اے ٹی ایف کی 27میں سے 14شرائط پوری کر چکا ہے جس پر تحریک انصاف کی حکومت فخر کرتی ہے باقی 13شرائط کو پورا کرنے کیلئے کالعدم تنظیموں پر پابندیوں کو موثر بنانا اور منی لانڈرنگ کے خلاف باقاعدہ قانون سازی ضروری ہے لیکن اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت نے منی لانڈرنگ کے خلاف قانون سازی کو بھی سیاسی انتقام کیلئے استعمال کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔
اگر اس معاملے پر حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق رائے ہو جاتا تو پھر اپوزیشن کے ساتھ این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی پر بھی بات چیت ہو سکتی تھی لیکن ہو سکتا ہے کہ اب اپوزیشن این ایف سی میں تبدیلی کو عمران خان کی تبدیلی سے مشروط کردے۔
اس معاملے پر مسلم لیگ(ن) کا موقف زیادہ سخت نہیں ہے، پیپلز پارٹی کا موقف زیادہ سخت ہے لہٰذا پیپلز پارٹی کو اپنا موقف نرم کرنے کیلئے فیس سیونگ کی ضرورت ہوگی اور یہ فیس سیونگ عمران خان کی تبدیلی سے کم نہیں ہو سکتی۔ دوسری طرف مسلم لیگ(ن) کو صرف عمران خان کی تبدیلی نہیں بلکہ مڈٹرم الیکشن بھی چاہئے۔ یہ ایک مشکل کام ہے اور یہ مشکل کام کوئی نیا وزیراعظم ہی کر سکتا ہے جو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے آئے یا فارن فنڈنگ کیس میں عمران خان کی نااہلی کے بعد آئے۔
اس دوران قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ بھی کافی ہلچل پیدا کر سکتا ہے۔ جو بھی ہونا ہے اگلے چھ ماہ میں ہونا ہے، چھ ماہ میں کچھ نہ ہوا تو پھر جو بھی ہوگا، تین سال بعد ہوگا لیکن تین سال بعد پاکستان کی جو حالت ہوگی اس کا اندازہ پچھلے دو سال کی حالت سے لگا لیں۔ بہتری کے امکانات بہت کم ہیں، شاید سب کچھ قربان ہو جائے۔
Source: Jung News
Read Urdu column Qurbani Lakin Kiss ki By Hamid Mir