رنجیت سنگھ یا بھگت سنگھ؟ – حامد میر

hamid-mir

عظمت کا خبط ایک ذہنی بیماری ہے۔ یہ بیماری صرف حکمرانوں میں نہیں بلکہ آج کل تو عام انسانوں میں بھی پھیل چکی ہے۔ حکمران عظمت کی بلندیوں کو چھونے کے لئے اپنی طاقت میں اضافے کی جائز و ناجائز کوشش کرتے ہیں اور سب سے پہلے قانون کو اپنے گھر کی لونڈی بنا ڈالتے ہیں۔

عام آدمی قانون کو لونڈی نہیں بنا سکتا لیکن وہ عظیم بننے کے لئے تاریخ میں سے اپنی مرضی کے ہیرو اور مرضی کے ولن نکال لاتا ہے۔ ہیرو کے ساتھ اپنا تعلق جوڑ کر خود کو عظیم سمجھنے لگتا ہے اور ولن کو بُرا بھلا کہہ کر فاتحانہ احساسات سے سرشار ہو جاتا ہے۔

اس خاکسار کے پچھلے کالم میں لاہور کی تاریخ کے حوالے سے رنجیت سنگھ کا ذکر آیا تھا جسے شہر کے معززین نے بھنگی سکھ سرداروں کے ظلم سے نجات کے لئے خود حملے کی دعوت دی تھی لیکن اس کالم کی بنیاد پر کچھ مہربانوں نے آپس میں کفر و اسلام کی جنگ چھیڑ دی۔

تحریک انصاف کے کچھ غصیلے حامیوں نے پورا کالم پڑھے بغیر ہی میری پاکستان سے محبت پر سوال اُٹھا دیے۔ کچھ سندھی دوستوں نے اعتراض کیا کہ اگر رنجیت سنگھ پنجابیوں کا ہیرو ہو سکتا ہے تو پھر راجہ داہر سندھیوں کا ہیرو کیوں نہیں ہو سکتا؟

وفاقی وزیر فواد چوہدری نے رنجیت سنگھ کے دفاع میں ٹویٹ کی اور مسلم لیگ(ن) کے رکن قومی اسمبلی خواجہ سعد رفیق نے رنجیت سنگھ کو اسلام دشمن قرار دے دیا۔ اس بحث میں گالم گلوچ کے ذریعہ اسلام اور پاکستان سے محبت کے اکثر دعویداروں نے کوئی کتاب پڑھی تھی، نہ یہ تاریخ سے واقف تھے اور جو اپنے آپ کو لبرل اور سیکولر سوچ کے علمبردار قرار دے رہے تھے وہ بھی یکطرفہ موقف پیش کر رہے تھے۔

اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ رنجیت سنگھ نے 1799ء میں لاہور پر قبضہ کرنے کے بعد اپنی خالصہ اسٹیٹ کی سرحدیں افغانستان سے چین تک پھیلا دیں اور اسی لئے کئی پنجابی اُسے اپنا ہیرو قرار دیتے ہیں لیکن رنجیت سنگھ پر تنقید کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ رنجیت سنگھ پر تنقید کا مطلب سکھ مذہب پر تنقید نہیں ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ رنجیت سنگھ اُن پنجابیوں کا ہیرو بن سکتا ہے جنہیں اپنے پنجابی ہونے پر فخر ہے لیکن وہ پنجابی اور کشمیری اُسے اپنا ہیرو نہیں مانتے جنہیں پتا ہے کہ رنجیت سنگھ کے دور میں اذان پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

اسی طرح احمد شاہ ابدالی اُن افغانوں کا ہیرو ہے جنہیں اپنی افغانیت پر فخر ہے لیکن کشمیر والے ابدالی اور رنجیت سنگھ میں کوئی فرق نہیں سمجھتے کیونکہ دونوں نے کشمیریوں پر ظلم کیا۔

رنجیت سنگھ وسطی پنجاب کے کچھ دانشوروں کا ہیرو ہو سکتا ہے لیکن جنوبی پنجاب والے اُس کی تعریف کیسے کریں؟ ملتان پر سکھوں کے قبضے اور مظفر گڑھ شہر کے خالق نواب مظفر خان کی سکھوں کے ساتھ لڑائی میں شکست کے بعد وہاں جو ہوا وہ تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے۔

ملتان کے بعد رنجیت سنگھ نے کشمیر پر حملہ کیا۔ 1819ء میں رنجیت سنگھ کی فوج سرینگر میں داخل ہوئی تو افغانوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مارا گیا۔ محمد الدین فوق نے اپنی تصنیف ’’مکمل تاریخ کشمیر‘‘ کے صفحہ 705پر لکھا ہے کہ افغانوں کی حکومت اگر تلخ گھونٹ تھی تو خالصہ بہادر زہر میں بجھے ہوئے تیر تھے۔

انہوں نے اسلامی عبادت گاہوں کے ساتھ وہ سلوک کیا کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ گئے۔ یہ درست ہے کہ رنجیت سنگھ کی حکومت میں کچھ مسلمان بھی شامل تھے اور فقیر سید وحید الدین نے اپنی کتاب ’’اصلی رنجیت سنگھ‘‘ میں اُسے ایک سیکولر حکمران قرار دیا ہے لیکن فقیر صاحب کا خاندان رنجیت سنگھ کے دربار سے وابستہ تھا۔

اس خاندان نے لاہور کے فقیر خانہ میوزیم میں رنجیت سنگھ سے متعلق بہت سے نوادرات کو محفوظ کر رکھا ہے اور یہ میوزیم تاریخ کے طالب علموں کے لئے بہت کچھ جاننے کا مقام ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم آنکھیں بند کر کے رنجیت سنگھ کو وہ مقام دے دیں جو فقیر سید وحید الدین نے دیا تھا۔ ہم ڈاکٹر محمد جہانگیر تمیمی کی کتاب ’’سکھ مسلم تعلقات‘‘ کو کیسے نظر انداز کر دیں جس میں شامل اکثر معلومات کا ذریعہ سکھ مصنفین کی کتابیں ہیں۔

یہ کتاب کچھ سال پہلے سینٹر فار سائوتھ ایشین اسٹڈیز یونیورسٹی آف پنجاب لاہور نے شائع کی تھی اور یہ کتاب پاکستان کے ہر سیاستدان، ہر صحافی اور ہر فوجی افسر کے علاوہ تمام بیورو کریٹس اور سفارتکاروں کو پڑھنی چاہئے۔

اس کتاب کا انتساب براعظم پاک و ہند میں سلسلہ قادریہ کے میرِ کارواں اور سکھ قومیت کے روحانی سرپرست حضرت میاں میرؒ کے نام ہے۔ اس کتاب میں سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان کچھ تاریخی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں بابا گورو نانک کو خراج تحسین پیش کیا گیا یہ جو کتاب کے صفحہ 329کی زینت ہے۔

پھر اُٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے

ہند کو اک مردِ کامل نے جگایا خواب سے

لیکن دوسری طرف ڈاکٹر محمد جہانگیر تمیمی نے فقیر سید وحید الدین کا یہ دعویٰ مسترد کر دیا ہے کہ رنجیت سنگھ مذہبی روا داری کا قائل تھا۔

وہ لکھتے ہیں کہ اگر رنجیت سنگھ مذہبی روا داری کا قائل ہوتا تو اذان اور گائے ذبح کرنے پر پابندی نہ لگاتا اور سید احمد شہیدؒ پوپی، بنگال اور بہار سے مسلمانوں کا قافلہ لے کر جہاد کے لئے پنجاب نہ آتے اور سندھ، ہزارہ اور کشمیر کے مسلمان اُن کا ساتھ نہ دیتے۔ اسی رنجیت سنگھ نے مہاراجہ گلاب سنگھ کو جموں پر مسلط کیا اور اُس کے ذریعہ لداخ تک پہنچا اور آخر کار اس گلاب سنگھ نے پورے کشمیر پر قبضہ کر لیا۔

تمیمی صاحب نے سکھوں کے ساتھ اچھے تعلقات کے فروغ کو قائداعظمؒ کی تعلیمات کا اہم تقاضا قرار دیا ہے، وہ بابا گورو نانک کے سامنے سر جھکانے کو تیار ہیں لیکن مہاراجہ رنجیت سنگھ کے سامنے نہیں لہٰذا ہمیں اس غیر ضروری بحث سے نکلنا چاہئے۔

پاکستان میں رہنے والے تمام ہندو، سکھ، مسیحیوں اور دیگر غیر مسلموں کو ہمیں اپنا بھائی سمجھنا چاہئے اور اگر کسی سکھ کو واقعی اپنا ہیرو قرار دینا چاہئے تو وہ بھگت سنگھ ہے جسے برطانوی سامراج نے لاہور میں پھانسی دی تھی۔ بھگت سنگھ صرف پنجابیوں کا نہیں دنیا بھر کے انقلابیوں کا ہیرو ہے۔

Source: Jung News

Read Urdu column DR SM Zafar Banam Usman Buzdar By Hamid Mir

Leave A Reply

Your email address will not be published.