رضائے الٰہی – جاوید چوہدری
میرے ایک دوست نے گجرات میں اپنے ڈیرے پر ملازم رکھ لیا‘ وہ بے چارہ فاٹا کے کسی گاؤں سے آیا تھا اور پنجابی زبان اور پنجابی روایات دونوں سے ناواقف تھا‘ وہ مہینے بھر کی نوکری کے بعد اپنے مالک کے پاس آیا اور اس سے کہا ’’صاحب میں ایک بات پر بہت حیران ہوں‘‘ ہمارے دوست نے پوچھا ’’کیوں کیا ہوا؟‘‘ وہ شرما کر بولا ’’آپ کے گاؤں میں ایک ہی بندہ بار بار کیوں مرتا ہے؟‘‘ مالک نے جواب دیا ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘
خان تھوڑی دیر شرمایا اور پھر بولا ’’آپ کی مسجد کا مولوی صاحب روز اسپیکر پر اعلان کرتا ہے رضائے الٰہی فوت ہو گیا آپ کے گاؤں میں رضائے الٰہی روز کیوں مرتا ہے‘‘ میرے دوست نے یہ واقعہ سنایا تو میں بھی دیر تک ہنستا رہا لیکن پھر رک کر اپنے دوست سے کہا’’ہمارے پاکستان میں بھی رضائے الٰہی روز فوت ہو رہے ہیں‘‘۔میرے دوست کو میری بات عجیب لگی۔
مجھے یقین ہے آپ کو بھی میرے دوست کی طرح میری بات عجیب محسوس ہو گی لیکن آپ یقین کریں ہمارے معاشرے میں جتنی خوبیاں تھیں وہ سب رضائے الٰہی کی طرح ایک ایک کر کے فوت ہو رہی ہیں جب کہ برائیاں روز بچے دے رہی ہیں‘ آپ انحطاط کا لیول ملاحظہ کیجیے‘ محمد زبیر کے حوالے سے چند کلپس نکلے اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے ٹاپ ٹرینڈ بن گئے اور پورا ملک چسکے لینے لگا‘ کسی نے کسی کو نہیں روکا‘ 22 کروڑ لوگ یہ بھول گئے محمد زبیر کی فیملی بھی ہے‘ اس کے پوتے پوتیاں اور نواسے نوسیاں بھی ہو سکتی ہیں۔
کلپس صحیح ہیں یا غلط اس کا فیصلہ وقت کرے گا لیکن اس شخص کی بے عزتی اور ہتک ہم نے آج کر دی‘ یہ سلسلہ اگر یہاں تک رہتا تو بھی شاید برداشت ہو جاتا لیکن ان کلپس کے بعد اس کے مرحوم والد کے بارے میں جو میمز بنائے گئے یا جس طرح مریم نواز کو میمز کے ذریعے بے عزت کیا گیا اس کی کیا جسٹی فکیشن ہے؟ گناہ ثواب یا جنت دوزخ کا فیصلہ اللہ تعالیٰ حشر کے دن کرے گا لیکن ہم جس طرح روزانہ کی بنیاد پر اپنے آدرش اور اپنی معاشرتی اخلاقیات قتل کر رہے ہیں کیا ہمیں اس کا حساب نہیں دینا پڑے گا‘ کیا ہمیں اس کا تاوان ادا نہیں کرنا پڑے گا؟
حضرت عمرؓ کے بارے میں تاریخ کی کتابوں میں ایک واقعہ درج ہے‘ یہ واقعہ اگرچہ غیر مستند ہے لیکن یہ اس کے باوجود قابل توجہ ہے‘حضرت عمرؓ حضرت ابن مسعود ؓ کے ساتھ رات کے وقت گشت کر رہے تھے‘ ایک گھر سے گانے کی آوازآئی‘آپؓ نے دروازے کے سوراخ سے جھانکا تو اندر ایک بوڑھا شخص دکھائی دیا‘ اس کے سامنے شراب تھی اور گانے والی لڑکی گا رہی تھی‘آپؓگھر کی پچھلی دیوار پھلانگ کر بوڑھے کے سر پر پہنچ گئے۔
بوڑھا امیر المومنین کو سامنے دیکھ کر گھبرا گیا‘ آپؓ نے فرمایا‘’’تم پر حد نافذ ہو گی‘‘ بوڑھے نے چند لمحے سوچا اور پھر بولا ’’ اے امیرالمومنین! میں نے اللہ تعالیٰ کی صرف ایک نافرمانی کی لیکن آپؓ نے تین غلطیاں کیں‘‘حضرت عمرؓ نے فرمایا‘ وہ کون کون سی ہیں ؟اس نے کہا’’ آپ نے تجسس کیا‘ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے‘دوسری غلطی‘ آپؓ گھر کے پیچھے سے کود کراندر داخل ہوئے‘ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے اور تیسری غلطی آپؓ بغیراجازت میرے گھر میں تشریف لائے جب کہ اللہ تعالیٰ نے دوسروں کے گھروں میں بلااجازت داخل ہونے سے روک دیا تھا‘‘۔حضرت عمر ؓ نے فرمایا ‘تم نے سچ کہا‘ کیا تم مجھے معاف کر دوگے؟بوڑھے نے جواب دیا‘ اللہ تعالیٰ آپ کو معاف فرمائے‘حضرت عمرؓ اس کے بعد روتے ہوئے باہر نکلے۔
آپؓ بار بار فرما رہے تھے ہلاکت ہے عمر کے لیے اگر اللہ تعالیٰ نے مغفرت نہ فرمائی۔ آپؓ خود کو مخاطب کرکے فرماتے تھے ’’ تم جانتے ہو آدمی ایسی حالت کو اپنے اہل وعیال سے بھی چھپانا چاہتا ہے اور یہ اب سوچے گا مجھے امیر المومنین نے دیکھ لیا‘‘۔وہ بوڑھا اس واقعے کے بعد شرم کی وجہ سے کافی عرصہ آپؓ کی مجلس میں نہ آیا ‘کافی عرصہ بعد اس نے سوچا امیر المومنین اب یہ واقعہ بھول چکے ہونگے تو وہ ایک دن آپؓ کی مجلس میں حاضر ہوگیا‘حضرت عمر ؓ نے جیسے ہی اسے دیکھا ‘ آپؓ نے اشارے سے اسے پاس بلایا‘ وہ ڈرتا ہوا آپؓ کے قریب آیا تو آپؓ نے اس کے کان میں کہا’’ میں نے اس دن کے واقعے کا ذکر کسی سے نہیں کیا حتیٰ کہ اپنے ساتھی سے بھی نہیں‘‘ بوڑھے نے جواب دیا’’ امیرالمومنین میں بھی قسم کھا کر کہتا ہوں میں نے بھی اس دن سے شراب کو ہاتھ نہیں لگایا‘میں پکی توبہ کرچکا ہوں‘‘۔
ہم یہ تھے اور ہم آج رضائے الٰہی کے انتقال کے بعد کیا ہو چکے ہیں؟۔میں سمجھتا ہوں محمد زبیر سے تحقیقات کی باری بعد میں آئے گی لیکن ہمیں کلپس اور میمز بنانے والوں سے پہلے پوچھنا چاہیے کہ آپ لوگوں کو کس نے اجازت دی آپ دوسرے لوگوں کی پردہ شکنی کرتے رہیں اور پھر اس کو پوری دنیا میں بدنام کرتے رہیں‘ سوشل میڈیا پر ان کلپس پر تبصرہ کرنے والوں کامحاسبہ بھی ہونا چاہیے ورنہ یہ معاشرہ رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔
ہم اگر پچھلے تین برسوں کا تجزیہ کریں تو ہمیں یہ ماننا ہوگا حکومت کے سارے جرم ‘ساری غلطیاں ایک طرف لیکن اس دور میں جتنا قتل سچ اور اخلاقیات کا ہوا اس کا کوئی شمار نہیں‘ آپ کوئی ایشو اٹھا کر دیکھ لیں آپ کے لیے جھوٹ یا سچ کا فیصلہ مشکل ہو جائے گا‘ قرضے 2018 تک لعنت ہوتے تھے‘ پٹرول‘ گیس اور ڈالر کی مالیت میں اضافے کا مطلب ’’وزیراعظم چور ہے‘‘ ہوتا تھا‘ روپے کی مالیت میں ایک روپے کی کمی سے قرضوں میں 100 ارب روپے اضافہ ہو جاتا تھا‘ پی ایس ایل کے غیر ملکی کھلاڑی ریلو کٹے ہوتے تھے۔
سیکیورٹی میں زمبابوے‘ سری لنکا اور ویسٹ انڈیزکے ساتھ میچ کرفیو میں ہوتا تھا اور عمران خان یہ میچ عراق میں بھی کرا سکتے تھے‘ خوراک میں دو تین روپے کا اضافہ بھی ’’لوٹ گئے‘ کھا گئے‘‘ ہوتا تھا‘ ایکسٹینشن اداروں کا زوال اور تباہی ہوتی تھی‘ چیئرمین نیب ذاتی ملازم اور غلام ہوتا تھا‘ آئی ایم ایف خودکشی کے برابر ہوتی تھی‘ بجلی کے ریٹس میں کمی کے لیے بل جلاناجائز ہوتا تھا اور افسروں کے تبادلے بیوروکریسی کے زوال کی وجہ تھے لیکن آج ماضی کے سارے گناہ ثواب بن چکے ہیں۔
آپ زوال دیکھیے پاکستان مسلم لیگ ن نے 27 ستمبر کو برطانیہ کی این سی اے (نیشنل کرائم ایجنسی) کا ایک آرڈر ریلیز کیا اور یہ لوگ دعویٰ کر رہے ہیں این سی اے نے 21 ماہ کی تحقیقات کے بعد میاں شہباز شریف کی فیملی کے 20 سال کے اثاثے کلیئر کر دیے‘ یہ دعویٰ غلط ہو سکتا ہے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے اس فیصلے سے حکومت کے بیانیے کو ٹھیک ٹھاک ٹھیس پہنچی‘ نیب اور ایسٹ ریکوری یونٹ (اے آر یو) کوبھی تاریخی سبکی اٹھانا پڑی لیکن حکومت اپنی چار پائی کے نیچے ڈانگ پھیرنے کی بجائے ’’تمہارا کچھا بھی پھٹا ہوا ہے‘‘ جیسی گردان کر رہی ہے۔
حکومت کو چاہیے تھا یہ اے آر یو سے پوچھتی‘ آپ نے دسمبر 2019 میں این سی اے کو ثبوتوں کے ساتھ بتایا تھا سلیمان شہباز کے اکاؤنٹس میں شہباز شریف نے پاپڑ والوں‘ فالودے والوں اور چینی والوں کے ذریعے پیسے جمع کرائے تھے اور یہ آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم اور پاور پلانٹس کی ’’رشوت‘‘ تھی‘ اے آر یو نے این سی اے کو ثبوت بھی دیے تھے لیکن یہ 21 ماہ میں برطانوی ایجنسی کو مطمئن نہ کر سکی اور یوں سلیمان شہباز اور ذوالفقار احمد کے منجمد اکاؤنٹس بحال ہو گئے۔
حکومت اپنی اصلاح کی بجائے این سی اے کے آرڈر کو فیصلہ ماننے کے لیے تیار نہیں اور وزراء آرگومنٹ دے رہے ہیں یہ فیصلہ نہیں حکم ہے ‘ ن لیگ نے 10 ستمبر کا فیصلہ 27 ستمبر کو کیوں جاری کیا؟ فیصلے میں شہباز شریف کا نام نہیں اور یہ تحقیقات صرف ایک بینک کی ایک ٹرانزیکشن کے بارے میں تھی وغیرہ وغیرہ‘ یہ تمام جواز بالکل ایسے ہیں جیسے لکھنؤ کے کسی بانکے نے گالی کھانے کے بعد پان چباتے ہوئے کہا تھا’’ ہمیں گالی نہیں لگی کیوں کہ گالی دینے والے نے ہمشیرہ کی ہ پر زبر نہیں لگائی تھی‘‘ کوئی ان سے پوچھے‘ جناب فیصلے میں شہباز شریف کا نام ہے یا نہیں‘ ن لیگ اس فیصلے کو خواہ 217 دن دبا کر بیٹھی رہے یا یہ فیصلہ ہے یا حکم آپ یہ چھوڑیں ‘ آپ صرف یہ بتائیں کیا اے آر یو نے 11 دسمبر 2019 کو این سی اے کو خط نہیں لکھا تھا اور کیا اس خط میں حکومت نے یہ ثابت نہیں کیا تھا سلیمان شہباز کے اکاؤنٹس میں شہباز شریف کی کرپشن کے پیسے ہیں اور شریف فیملی ایک کرپٹ سیاسی خاندان ہے۔
یہ منی لانڈرنگ‘ کرپشن اور لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہیں اور اس کے خلاف پاکستان میں مقدمات چل رہے ہیں‘ حکومت صرف یہ بتائے اے آر یو 21 ماہ میں این سی اے میں اپنے الزامات ثابت کیوں نہیں کر سکا‘ یہ ڈی میں پہنچ کرگول کیوں نہیں کر سکا؟حکومت اس کا حساب دے۔
حکومت یہ نہیں کرے گی‘ یہ اپنی غلطی کبھی نہیں مانے گی‘ کیوں؟ کیوں کہ اس ملک میں سچ کا رضائے الٰہی انتقال کر چکا ہے‘ اب یہاں صرف اور صرف جھوٹ کا مقابلہ ہے اور جو زیادہ ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بول لیتا ہے وہ جیت جاتا ہے اور کم زور جھوٹا ہار جاتا ہے لہٰذا آیے اور رضائے الٰہی کو انجوائے کیجیے۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Razaye ilahi By Javed Chaudhry