رحم! عالیجاہ! رحم – اوریا مقبول جان
۔۔۔۔۔۔۔ایک تھا بادشاہ ہم سب کا اللہ بادشاہ۔ درباری دم بخود اپنی کرسیوں پر براجمان ہیں ۔ سپہ سالار کی نشست بادشاہ کے پہلو میں ہے۔ دربار کا جاہ و جلال اور کروفر ایسا ہے کہ ہر کوئی اس کی خوبصورتی سے مسحور بھی ہوتا ہے اور اس کے رعب سے خوفزدہ بھی۔ بادشاہ کی آمد آمد ہے۔ نقارے بجتے ہیں۔ پکارنے والے پکارتے ہیں۔ سانس روک لئے جاتے ہیں۔ ادب میں سرجھکا لئے جاتے ہیں۔ دست بستہ غلاموں کی طرح وزراء اور حکام کھڑے ہیں۔ بادشاہ اپنے تخت پر جلوہ افروز ہوتا ہے۔ درباری اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ کاروبار سلطنت شروع ہوتا ہے۔ خزانے کی چوری کا مجرم بادشاہ کے روبرو پیش ہے۔ نقاہت و بیماری سے جاں کنی کی حالت طاری ہے۔ منہ سے ایک لفظ نہیں نکل رہا‘ دم بخود ہے کہ شاید آج اس کا فیصلہ ہو جائے۔ چاروں جانب نظر دوڑاتا ہے۔ کرسیوں پر بیٹھے کتنے ایسے درباری
ہیں جو اس کے سامنے کورنش بجا لایا کرتے تھے۔ کیسے کیسے سفیران کرام اور سربراہان مملکت اسی دربار میں اس سے ملتے تھے‘ تحائف کے تبادلے ہوا کرتے تھے مغنیوںکے نغمے‘ سروں کی لے‘ رقص کا عالم‘ کیا کچھ نہیں کہ جو اس دربار میں اس کے روبرو تھا۔ مجرم نے چاروں جانب نظر دوڑائی‘ حسرت و یاس کے آنسو ٹپکے اور طبیب خاص نے روک دیا‘ پریشانی‘ پژمردگی ‘ ناامیدی یہ سب مل کر ایک مرض بنتے ہیں‘ جسے آج کے طبیب ڈیپریشن کہتے ہیں۔ یہ آپ کے لئے خطرناک ہے۔ یہ آدمی کو موت سے پہلے ہی قبر میں اتار دیتا ہے۔ بادشاہ آج خاموش ہے‘ الجھا ہوا لگتا ہے‘ اسے فیصلہ کرنے میں دشواری ہو رہی ہے۔ یہ مجرم کئی بار یہاں لایا گیا لیکن آج تو اس کے درباریوں کا لہجہ بھی بدلا ہوا ہے۔ پہلے مجرم کے اہل خانہ رحم کی درخواست کرتے تھے‘ آج وزراء اور درباری بھی اس میں شریک ہو گئے۔ اس نے وزیر اور سپہ سالار کی جانب دیکھا‘ سب نے جلاوطنی کی رائے دی۔ آب و ہوا تبدیل ہو گئی تو صحت بھی بہتر ہو جائے گی۔ بادشاہ نے بڑے بوڑھوں سے سن رکھا تھا کہ یہاں ہمایوں نام کا بادشاہ بھی ہو گزرا‘ جلاوطن کر دیا گیا‘ لیکن پڑوسی ملک کی مدد سے واپس آیا اور ایسی حکومت قائم کی کہ پھر چار صدیاں اور کئی نسلیں حکمرانی کرتی رہیں۔ لیکن کیا یہ درباری نہیں جانتے۔ سب جانتے ہیں‘ لیکن سب اس مجرم کو ایسے بدترین انجام سے بچانا چاہتے ہیں۔
اس لئے کہ وہ بھی کبھی ایسے جرائم کے حصہ دار تھے۔ کل ان میں سے بھی کوئی ایسے ہی بیمار و پژمردہ دربار میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ آج اگر رحم کی فریاد سنی جائے گی تو کل ان پر بھی رحم کیا جائے گا۔ محل کے باہر کتنے دنوں سے ایک ہجوم بادشاہ کو قابل گردن زدنی قرار دے رہا تھا۔ مذہبی پیشوا جس کی کبھی راج دربار میں عزت تھی یک بینی و دوگوش نکالا جا چکا تھا۔ انتقام کی آگ میں جلتا ہوا یہ شخص عذاب و ثواب کی داستانیں سناتا ‘ لوگوں کو دشمنان دین کے خلاف صف آرا کرکے یہاں تک لے آیا تھا۔ بادشاہ کو اس بات کا خوف دلایا گیا تھا۔ اسے یورپ کے تاریک دور کی کہانیاں یاد تھیں۔ جب روم کے ویٹیکن سٹی سے حکم نامہ جاری ہوتا کہ فلاں بادشاہ ‘ شہزادہ یا ملکہ مذہب سے ہٹ گئی ہے‘ اس پر شیطانی قوتوں کا غلبہ ہو گیاہے‘ بلکہ اب تو وہ بالکل شیطان کا ساتھی بن چکا ہے تو پادریوں اور ان پر اعتماد کرنے والوں کی ٹیم وہاں پہنچتی‘ محل کے باہر عدالت لگاتی‘ بادشاہ کو مذہب دشمن اور اخلاق باختہ ثابت کرتی‘ مذہب کے دیوانوں کا ہجوم فیصلے پر تالیاں بجاتا اور پھر کبھی بادشاہ کی گردن تیز دھار لہراتے ہوئے چھرے سے کاٹ دی جاتی یا پھر اسے شہر کے بیچوں بیچ جلتے ہوئے الائو میں پھینک کر اس کی شیطانی روح سے زمین کے باسیوں کو نجات دلائی جاتی۔ محل کے باہر مذہبی پروہت کا نعرہ زن ہجوم‘ محل کے اندر اس کے اپنے درباریوں کے
بدلے ہوئے تیور۔ ایک جانب کھڑے شاہی مخبر اور جاسوس نے خبر دی کہ حالات اچھے نہیں ہیں‘ رعایا بددل اور بدگمان ہوتی جا رہی ہے۔ کسی دن اٹھ کھڑی ہوئی تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ بادشاہ کے اتالیق اور دوست چونکہ سارے غیر ملکی تھے۔ اس لئے اسے وہاں کی مثالیں دے کر سمجھانا آسان تھا۔ شاہی مخبر نے نمک مرچ لگا کر ایک ایسی رپورٹ تیار کی تھی کہ بادشاہ کی نظروں میں پیرس کا بیٹائل کا جیل خانہ گھوم گیا جسے ہجوم نے توڑ کر اپنے قیدی رہا کروا لئے تھے اور پھر کئی کلو میٹر دور ورسائی محل میں بادشاہ اور اس کی ملکہ کو گرفتار کر کے لائے تھے اور ناچتے گاتے‘ جھومتے ہوئے ہجوم کے سامنے انہیں ذبح کر دیا گیا۔ اس دن پورے پیرس میں کوئی سوگ نہیں منایا گیا تھا۔ بادشاہ نے شاہی مخبر کی طویل رپورٹ دیکھی‘ سپہ سالار کی جانب نظر دوڑائی جو اس دوران بادشاہ ہی کو دیکھے جا رہا تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ بادشاہ اس رپورٹ کے بعد اب اتنا پراعتماد نہیں رہا۔ اس نے آنکھوں سے ایسا اشارہ دیا جیسے وہ اسے دیکھ چکا ہے‘ بلکہ
بغور پڑھ چکا ہے۔ بادشاہ تخلیے میں چلا گیا۔ یہ تخلیہ ان لوگوں کے لئے نعمت ثابت ہوا جو اسے کچھ سمجھانا چاہتے تھے۔ محل کے باہر مذہبی پروہتوں کا ہجوم کیسے واپس ہو۔ آج پرامن نظر آنے والوں کی آنکھوںمیں کسی بھی وقت خون آسکتا ہے۔ ایسا خون جس میں مرنے مارنے پر جنت کی بشارتیں موجود ہوں۔ کارکردگی کی رپورٹیں‘ عوام کا عدم اطمینان‘ اس سب کو اس کا اعتماد ختم کرنے کے لئے شاندار جواز کے طور پر پیش کیا گیا۔ بادشاہ خاندانی روایات والا تو تھا نہیں کہ اسے علم ہوتا کہ کیسے لوگوں کے منہ موتیوں سے بھرے جاتے ہیں اس کو بتایا گیا کہ اگر اس نے رحم کی درخواست نہ مانی تو وہ سرکاری ادیب‘ شاعر‘ بھانڈ ‘مراثی جو بادشاہ کی ہوا باندھتے ہیں اور اس کے بدلے انعام و اکرام سے نوازے جاتے ہیں۔ بادشاہ کی ایسی بھد اڑائیں گے کہ بادشاہ ایک تمسخر بن کر رہ جائے گا۔ بادشاہ یقین سے بے یقینی‘ اعتماد سے بداعتمادی اور بے خوفی سے خوف کے دلدل میں ایسا گرا کہ تخلیے میں بیٹھے بیٹھے سر دیوار سے لگایا‘ آنکھیں بند کیں، ٹانگیں لمبی کیں‘ چند لمحوں کے لئے سانس روکا اور بولا‘ جو جی میں آئے کرو لیکن حالات خراب نہ ہوں۔ ایک تھا بادشاہ‘ ہم سب کا اللہ بادشاہ۔ دربار میں بیٹھے عمر رسیدہ دانشور نے اپنی کتاب کھولی اور تحریر کیا ۔ پہلے بادشاہ اسے معاف کیا کرتے تھے جس کا اس دنیا میں کوئی نہ ہوتا۔ جو دل کی گہرائیوں سے معافی طلب کرتا‘ جس کے پاس رحم کے سوا کوئی راستہ نہ ہوتا اور پکار اٹھتا رحم عالی جاہ رحم۔ لیکن اب بادشاہ اس پر رحم کرتا ہے جس کی جیب میں ووٹ کی دولت ہوتی ہے اور دربار میں اس کے خیر خواہ موجود ہوتے ہیں۔ ایسے میں بادشاہ رحم نہیں خوف کے جذبے میں معاف کرتا ہے۔
Source: 92 news
Must Read Urdu column Reham aalijah reham By Orya Maqbool jan