رحم یا خدا رحم- عطا ء الحق قاسمی
جب انسان آسائشوں کا عادی ہو جاتا ہے، اسے یاد ہی نہیں رہتا کہ ان کے لاکھوں ہم وطن آسائشوں کیا، زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔ ایک روز بازار سے گزرتے ہوئےمیرا ایک ضرورت سے زیادہ خوشحال دوست کہنے لگا’’یار عطا، ہم لوگ بلاوجہ غربت غربت کی دہائی دیتے رہتے ہیں، یہ دیکھو جگہ جگہ موسم کے تازہ پھل ،دکانوں اور ریڑھیوں پر سجے پڑے ہیں۔آخر لوگ یہ پھل کھاتے ہی ہوں گے مگر ہم ہمہ وقت غربت کی گردان کرتے رہتے ہیں ‘‘یہ سن کر میں دل میں ہنسا اور میں نے اپنی گاڑی پھلوں کی ایک دکان کے قریب کھڑی کر دی اور اس دوست سے کہا’’ذرا دیکھنا یہ پھل کھانے والے کون لوگ ہیں‘‘ مجھ سے پہلے ہی وہاں تین چار گاہک اپنی کاروں میں بیٹھے تھے اور ان کے ڈرائیورپھلوں کے بھرے ہوئے شاپر انہیں تھماتے ، مالک بل پوچھتا ، تین ہزار ، چار ہزار وہ اسے دیتے۔ اس دوران جتنے بھی گاہک آئے سب گاڑیوں پر آئے۔ اگر کوئی موٹر سائیکل پر آیا بھی ہے تو وہ سب سے سستا پھل تھوڑی سی مقدار میں خرید کر چلتا بنا۔ میں روزانہ جو مناظر دیکھتا ہوں وہ مجھے دکھ دینے والے ہیں میں حالات کے بدلنے کی صرف دعا ہی کرتاہوں آئیں آج آپ بھی میرے ساتھ دعا میں شامل ہو جائیں۔ میں ہر روز ایک نیا نظارہ دیکھتا ہو اور آنکھیں نم کر بیٹھتا ہوں۔
میں صبح جب گھر سے نکلا تو میں نے
دیکھا کہ پانچ پانچ ، چھ چھ سال کے بچے ہاتھوں میں کھانے کی پوٹلیاں لئے کام کاج پر روانہ ہو رہے تھے ۔ میں نے سوچا یہ بچے اپنے ننھے منے ہاتھوں سے سارا دن کام کریں گے اور اپنے استاد سے گالیاں بھی سنیں گے اور مار بھی کھائیں گے۔ میں نے سوچا کہ ان کی مائیں (اگر ان کی مائیں ہیں) اپنے جگر گوشوں کو روزانہ خود سے کس طرح علیحدہ کرتی ہوں گی ۔ میں نے دعا کی کہ اے خدا ان بچوں کے دن پھیر ان کے ہاتھوں میں اوزاروں کے بجائے کھلونے اور کتابیں دے اور ان کے نصیب میں بھی وہ خوشیاں لکھ جو خوشیاں ان کی عمر کے دوسرے بچوں کے نصیب میں لکھی ہیں۔
میں صبح جب گھر سے نکلا تو میں نے دیکھا کہ خوش نصیب بچے جن کے گلے میں بستے اور بڑے جن کے چہروں پر پریشانیاں کھدی ہوئی ہیں بس ا سٹاپ پر کھڑے ہیں ۔ مسافروں سے بھری ہوئی بس اسٹاپ پر آ کر رکتی ہے جس کے گیٹ سے لوگ چمگاڈروں کی طرح لٹکے ہوئے ہیں۔ا سٹاپ پر کھڑے بچے جوان بوڑھے اور عورتیں ایک دوسرے کو دھکیلتے ہوئے گیٹ میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیںکچھ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں کچھ گیٹ کے ساتھ مکھیوں کی طرح چمٹ جاتے ہیں اور باقی بارش یا دھوپ میں گلنے سڑنے کے لئے دوبارہ اپنی جگہ پر آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں میں نے دعا کی کہ اے خدا ان کی مشکلیں دور کر ۔
میں صبح جب گھر سے نکلا تو میں نے دیکھا کہ بس اسٹاپوں پر کھڑے لوگوں کے علاوہ کچھ خوش نصیب ایسے بھی ہیں جن کے پاس اپنے موٹر سائیکل اور اسکوٹر ہیں میں نے دیکھا کہ ایک موٹر سائیکل پر پورا خاندان سوار تھا۔ دو بچے موٹر سائیکل کی ٹینکی پر بیٹھے تھے اور ایک بچہ اور اس کی ماں موٹر سائیکل کی سیٹ کےپچھلے حصے پر بیٹھے تھے اور خاندان کا سربراہ درمیان میں پھنسا بیٹھا موٹر سائیکل چلا رہا تھا۔ میں نے سوچا اس خاندان کی تنگ دستی کی وجہ سے پانچ
جانیں خطرے میں ہیں میں نے دعا کی خدا ان کی حفاظت کرے انہیں رزق میں وسعت دے تاکہ یہ اپنی جانیں اس طرح خطرے میں نہ ڈالیں۔
میں صبح جب گھر سے نکلا تو میں نے دیکھا کہ پیدل چلنے والوں بسوں کے انتظار میں کھڑے ہونے والوں اور موٹر سائیکل پر جانے والوں کے علاوہ کچھ خوش نصیب ایسے بھی ہیں جو اپنی چھوٹی چھوٹی کاروں میں اپنے اپنے دفتروں کی طرف جا رہے ہیں مگر یہ چھوٹی کاریں ناہموار سڑکوں کی وجہ سے پھدکتی ہوئی جا رہی تھیں اور بڑی بڑی کاروں کے ہجوم میں یہ کاریں کاریں نہیں ہانگ کانگ کی ڈنکیاں لگ رہی تھیں ۔ ان کے مالکوں کے چہروں پر ناخوشگوار قسم کے تاثرات تھے ۔ میں نے دعا کی کہ اے خدا انہیں قناعت کی نعمت عطا فرماتاکہ ان کے چہروں کا کھچائو دور ہو اور یہ تیرا شکر ادا کر سکیں۔
میں صبح جب گھر سے نکلا میں نے دیکھا کہ پیدل چلنے والوں بسوں کے انتظار میں کھڑے ہونے والوں، موٹر سائیکل سواروں اور چھوٹی کاروں والوں کے علاوہ کچھ سرکاری افسران ایسے بھی ہیں جو نئے ماڈل کی عمدہ کاروں میں تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں یہ انہیں دفتر چھوڑ کر گھر واپس آتی ہے اور بچوں کوا سکول چھوڑنے جاتی ہیں۔ پھر یہی کارا سکول سے فراغت کے بعد بیگم صاحبہ کو بازار شاپنگ وغیرہ کیلئے لے جاتی ہے بعد ازاں یہی کار صاحب کو دفتر سے لینے کیلئے جاتی ہے اور سرکاری پٹرول بے دریغ خرچ ہوتا ہے میں نے دعا کی کہ یا خدا ان کے دلوں میں ملک وملت کے لئے ترس ڈال دے۔
میں صبح جب گھر سے نکلا تو میں نے دیکھا کہ پیدل چلنے والوں ، بسوں کے انتظار میں کھڑے ہونے والوں ، موٹر سائیکل سواروں ، چھوٹی کاروں اور ایک ایک بڑی کار کے مالکوں کے علاوہ کچھ خوش نصیب خاندان ایسے بھی ہیں جن کے کنبے کا ہر فرد اپنی اپنی کار پر کالج ، دفتر اور شاپنگ سنٹر جا رہا ہے مگر ان کے چہرے احساس محرومی کی وجہ سے کھنچے ہوئے ہیں ۔ دراصل اس ملک نے ان لوگوں کی قدر نہیں کی کیونکہ امریکہ میں ایسے ایسے گھرانے بھی موجود ہیں جن کے ہر فرد کے پاس اپنا اپنا جہاز ہے مگر یہاں ان بیچاروں کو کاروں پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔میں نے دعا کی اے خدا، انہیں بھی جہازوں کا فلیٹ دے تاکہ تیرے یہ ’’مفلس بندے تیرا شکر ادا کریں‘‘۔
میں صبح گھر سے نکلا تو میں نے ایک جنازہ دیکھا جسے بہت کم لوگ کندھا دے رہے تھے مرحوم کے عزیز و اقرباء اپنی اپنی کاروں میں قبرستان پہنچ کر جنازے کا انتظار کر رہے تھے۔ میں اس جنازے کے ساتھ قبرستان پہنچا مرحوم کو دو فٹ چوڑی لحد میں اتارا اور قبر پر ایک مٹھی مٹی کی ڈال کر دعا کی اے خدا ہم سب اس دنیا میں تیرے مہمان ہیں اپنے مہمانوں میں سے کسی کو بھوکا نہ رکھ کہ تو تو اس لحد میں پلنے والے کیڑوں مکوڑوں کی میزبانی بھی بڑے بڑے ذی شان انسانوں کی سالم رانوں سے کرتا ہے ۔ ہم اگر اشرف المخلوقات ہیں تو ہماری اشرف المخلوقاتی کا بھرم رکھ ہم میں سے جو سچ مچ بھوکے ہیں انہیں روٹی دے جو ضرورت مند ہیں ان کی ضروریات پوری کر اور وہ جنہیں تو نے رزق میں کشادگی دی ہے انہیں قناعت بھی دے تاکہ تیرا شکر ادا کر سکیں۔۔
Source: Jung News
Read Urdu column Chor he chor By Ata ul Haq Qasmi