سب محفوظ تو ہم محفوظ! – علی معین نوازش
پاکستان میں بیڈ گورننس اور نظام کی خرابی کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن ایک وجہ جس پر اتنی زیادہ بحث نہیں ہوتی، وہ ہماری اشرافیہ اور حکمران طبقے کا مخصوص مائنڈ سیٹ ہے۔ یہ مخصوص مائنڈ سیٹ یا تو نظام کی بدحالی کی وجہ بنتا ہے یا پھر نظام کی بہتری میں رکاوٹ۔ سرکاری تعلیمی نظام کا زوال تب شروع ہوا جب اِس طبقے کے بچے پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھنا شروع ہو گئے۔ سرکاری صحت کا نظام اِس لئے بہتر نہیں ہو پایا کیونکہ یہ طبقہ اپنا علاج باہر سے یا بڑے اسپتالوں میں کرآنا شروع ہو گیا۔ بنیادی حقوق جیسے پاسپورٹ یا شناختی کارڈ کے معاملے میں بھی جب دفاتر میں رش ہوا تو اِسی طبقے نے اپنے لئے ایگزیکٹیو سینٹرز بنوا لئے جہاں زیادہ رقم اور فیس کی وجہ سے عام پاکستانی نہیں جا سکتا۔ جہاں کہیںچیزیںبالکل الگ نہیں کی جا سکتیں وہاں پر معاملاتتھوڑے بہت بہتر نظر آتے ہیں۔ تمام پوش علاقوں میں جہاں یہ طبقہ رہتا ہے اور بڑی شاہراہوں جہاں سے اس طبقے کا گزر ہوتا ہے، کی روڈ ٹھیک بھی ہیں اور کھلی بھی۔ اسد عمر صاحب کہا کرتے تھے کہ یہ طبقہ اگر اپنی بڑی گاڑیوں کے لئے الگ روڈ بنا سکتا تو وہ بھی بنا لیتا۔ یہ ایک سوچ ہے جس کی وجہ سے ہمارے بہت سے نظام آج تک خراب ہیں اور آج بھی ہمارا یہ طبقہ سمجھتا ہے کہ وہ اگر اپنے لئے سہولیات پیدا کرتا رہا اور باقی عوام سے اپنے آپ کو الگ رکھتا رہا تو اُس کا کام چلتا رہے گا اور نظام کو صحیح نہ کرکے وہ پاکستان کی بیشتر عوام کو ابھرنے سے روکتا رہے گا اور اپنی جاگیر داری قائم رکھے گا۔ کیونکہ اگر مزدور کا بچہ اچھی تعلیم حاصل کر لے گا تو کل کو اِس طبقے کے لئے سستے داموں مزدوری کون کرے گا؟ یہ ہمارے معاشرے اور نظام کے تلخ حقائق ہیں۔
اب کورونا وائرس کی ویکسین کے معاملے میں بھی یہی سوچ نظر آرہی ہے۔ حکومت نے ابھی تک صرف ایک ویکسین منظور کی ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ پرائیویٹ کمپنیاں اور صوبے اِس کو خود درآمد کریں گے یعنی حکومت اِس بات کی کمٹمنٹ نہیں کر رہی کہ ہر پاکستانی یا چلیں ہر غریب پاکستانی کے لئے یہ ویکسین مفت میں دستیاب ہوگی۔ اگر آکسفورڈ ویکسین کی بات کی جائے تو اُس کی ایک خوراک کی قیمت چار ڈالر ہے اور ہر فرد کو دو خوراکوں کی ضرورت ہوتی ہے تو ایک شخص پر خرچہ آٹھ ڈالر کا ہے جس میں میں درآمد کنندہ کا منافع، سرنج اور اِس کو لگانے کے پیسے شامل نہیں ہیں۔ اگر فی بندہ پندرہ سو روپے بھی خرچہ آتا ہے ہیں توایک مزدور ہے اپنے سب گھر والوں کو یہ ویکسین کیسے لگوا پائے گا؟ ڈبلیو ایچ او کا پروگرام COVAXجو فری میں ویکسین دے گا، اُس کے تحت صرف بیس فیصد آبادی کو ویکسین میسر ہو پائے گی۔ ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ 18سال سے کم عمر کے افراد کو ویکسین نہیں لگے گی جبکہ ویکسین بنانے والی کمپنیاں اب یہی ٹیسٹ کر رہی ہیں کہ 12سے 18سال تک کے لوگوں میں ویکسین کی کارکردگی کیا ہے؟ اور شاید اِس کی ضرورت پڑے کہ ہم بچوں کو بھی یہ ویکسین لگائیں۔
سہیل وڑائچ صاحب نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ پاکستان کے کرتا دھرتا ویکسین لگوا چکے ہیں اور پاکستان میں ویکسین جلد سے جلد لانے کی اُس طرح کوشش نہیں کی جا رہی۔ کورونا وائرس یہ نہیں دیکھتا کہ کون امیر ہے اور کون غریب۔ ماہرین بار بار کہتے ہیں کہ سب کو ویکسین لگانا اِس لئے بھی ضروری ہے کہ اگر سب محفوظ نہ ہوئے اور وائرس پھیلتا رہا اور اپنی شکل بدلتا رہا یعنی میوٹیٹ ہوتا گیا تو ایسا بھی ممکن ہے کہ ویکسین مؤثر نہ رہے اور جن کو ویکسین لگی ہے، وہ بھی دوبارہ بیمار ہو جائیں۔ اگر سب کو ویکسین لگ گئی تو تب ہی اِس خطرے سے ہم بچ سکتے ہیں۔ برطانیہ، ساؤتھ افریقہ اور برازیل میں وائرس کے نئے ویریئنٹ آ چکے ہیں۔ برطانیہ والا ویریئنٹ تیزی سے پھیلتا ہے اور ساؤتھ افریقہ والے ویریئنٹ کے بارے میں یہ خدشہ ہے کہ ویکسین اُس پر اتنی موثر نہ ہو۔ ہمارے پاس وقت کافی کم ہے، یہ نہ ہو کہ پاکستان کے کسی کونے سے اِس کی نئی اور خطرناک شکل نکل آئے۔ حکومت کو اِس پر بھی سوچنا ہوگا کہ اگر ویریئنٹ آتے رہے اور ہر سال یا ہر کچھ سال بعد نئی ویکسین کی ضرورت پڑی تو تب کیا کیا جائے گا؟
ہمیں وائرس کے بارے میں اب بھی بہت کچھ معلوم نہیں ہے لیکن ویکسین ہی اُس کا بہترین حل ہے۔ ویکسین بھی صرف تب ہی موثر ہے اگر وہ سب کو لگےگی۔ اس لئے امیر ممالک کو ماہرین بار بار یہ تاکید کرتے ہیں کہ کوئی محفوظ نہیں جب تک سب محفوظ نہیں ہوں گے۔ ہماری اشرافیہ اور حکمران طبقے کو بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہےکہ وہ تب ہی محفوظ ہوں گے جب معاشرے کے باقی افراد بھی اِس وائرس سے محفوظ ہوں گے۔
Must Read Urdu column SAb Mehfooz tu Hum Mehfooz By Ali Moeen Nawazish
Source: Jang