’صاحب اپنے پاس رکھو اپنی جمہوریت!- ارشاد بھٹی
صاحب! کیا خوبصورت نظام ہے جمہوریت، امریکہ، برطانیہ، یورپ میں جمہور، جمہوریت دیکھ کر روح تک پھیل جائے تاثیر جمہوریت کی، مگر صاحب ہم پر مسلط کردہ تیری جمہوریت، پہلے تو یہ جمہوریت نہیں، جمہوریت کی نقل بھی نہیں۔
اگر تیرا اصرار یہ جمہوریت تو صاحب، اکتا گیا تیری جمہوریت سے، نکونک آ چکا تیری جمہوریت سے، نہیں چاہیے تیری جلیبی نما جمہوریت، نہیں چاہیے تیری پھپھے کٹنی جمہوریت، صاحب! اپنے پاس رکھو یہ بانجھ جمہوریت، جو تجھے، تیرے ہمنواؤں کو انڈے بچے دے، جو میرے لیے بنجر، سیم و تھور زدہ زمین، کانٹوں بھری جھاڑی، بانجھ زمین، صاحب! کیا تم گھر میں بانجھ بھینس، گائے بھی رکھنا پسند کرو گے، نہیں نا، تو میرے، میرے بچوں کیلئے بانجھ جمہوریت کیوں؟
صاحب! اب تم کہو گے 33سال تو آمریت رہی، جمہوریت نے بانجھ تو ہونا ہی تھا، صاحب تم کس کی پیداوار، تم بھی تو آمریت کی پیداوار، آمریت کی پیداوار اور جمہوریت کے ٹھیکیدار، آمریت بیچ بیچ کر راج کرنے والے، تم تو بانجھ نہ ہوئے، تم نے تو دن دگنی، رات چوگنی ترقیاں کیں، اب آمریت چورن ہی بیچنا بند کر دو، تم تو آمریت قیمت سود سمیت وصول کر چکے۔
صاحب! اب تم کہو گے، لولی لنگڑی جمہوریت بھی آمریت سے بہتر، صاحب! کیا تم دونوں ہاتھوں سے معذور شخص کو اپنا ڈرائیور رکھ لو گے، کیا تم کسی اندھے شخص کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا کر خود پیچھے بیٹھ کر کہہ سکتے ہو، گاڑی چلاؤ، نہیں نا، تو پھر میرے، میرے بچوں کیلئے ایسی اندھی جمہوریت کیوں، جسے ہم کبھی نظر ہی نہ آئے۔
صاحب! اچھا یہ بتاؤ، کیا تم کسی لولے، لنگڑے کو بندوق پکڑا کر اپنے گھر کی سیکورٹی اس کے حوالے کر سکتے ہو، نہیں نا، تو پھر میرے لیے لولی لنگڑی جمہوریت کیوں؟
صاحب تیرے آلو گوشتوں کیلئے 3تین کُک، تیرے کتوں کیلئے تربیت یافتہ چوکس اسٹاف، اور میرے لیے لولی لنگڑی جمہوریت، اپنے پاس رکھو یہ لولی لنگڑی جمہوریت، بند کرو اب لولی لنگڑی جمہوریت کا چورن بیچنا۔
صاحب! اب تم کہو گے، یہ ملک جمہوریت پسندوں نے بنایا، جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیا، مان لیا، مگر صاحب آمروں کی آمری خرابیا ں نکال کر ذرا یہ بھی تو دیکھو اس ملک کو سویلین آمروں نے کس حال تک پہنچا دیا، گدھوں کی طرح نوچ کھایا، کیا من مانی جو نہ کی، اب تم کہو گے، جمہوریت نے اس ملک کو متفقہ آئین دیا، مان لیا مگر آمروں کی آئین شکنیاں نکال کر یہ بھی تو دیکھو، سویلین آمروں نے کیا حال کیا آئین کا، کیا کیا آئین شکنی نہ کی، جو آئین بنایا، اسے خود ہی توڑا، بار بار توڑا، ہمیشہ خود کو آئین سے بالاتر سمجھا۔
صاحب نہیں چاہیے تیری چار سو بیس جمہوریت، تیرے شہر شہر محل، میں چھت کے بغیر، تیری ہر براعظم میں جائیدادیں، میں بال بال مقروض، تیری شہزادوں جیسی زندگیاں گزارتی اولادیں، میرے بچے کبھی نہ پوری ہونے والی خواہشوں بھرے لاشے، صاحب! نہیں چاہیے تیری میسنی جمہوریت، جو تیری ہر برائی، خامی کو چھپائے، جو تیرے گھر کی لونڈی، تیرے حصے میں دودھ ملائیاں، میرے حصے میں انسانی فضلے بھرا پانی، تیرے گھوڑے، بکریاں کھائیں سیبوں، گاجروں کے مربے، میرے بچے روٹی کو ترسیں، تیرے جوتوں کی دمک، میرے چہرے کی چمک سے زیادہ، صاحب نہیں چاہیے، تیری فراڈ، مکار، دھوکا جمہوریت، جمہوریت تو ہو جمہور کیلئے، ریاست تو ماں جیسی، حکمران تو باپ جیسا، کہاں ہے یہ سب، اپنے پاس رکھو یہ بے حس، بے رحم جمہوریت۔
صاحب! نہیں چاہیے تیری چالاک جمہوریت، تیرے لیے قدم قدم پر ریلیف، رعایتیں، سہولتیں اور میرے لیے قدم قدم پر چھتر، میں مرغی چور تو ہائیکورٹ بھی میری ضمانت نہ کرے، تُو نسلوں کی جمع پونجی چرا کر چھوٹ جائے، میں ایک ہزار کا دھنیا چراؤں تو سال جیل کے بعد ضمانت سپریم کورٹ سے، تُو ملکی خزانے کو پہیے لگا کر ولایت لے جائے اور ہر ضمانت کا مستحق ٹھہرے، منصف تیرا فیس دیکھے، میں جیلوں، حوالاتوں میں مر جاؤں، کوئی میرا نہ کیس دیکھے، تیرے گھر کی رانیاں راج کریں، میری بے گناہ رانی 19سال جیل کاٹے، صاحب، نہیں چاہیے تیری ظالم جمہوریت، جسے ماڈل ٹاؤن، ساہیوال میں گولیاں مار کر، بلدیہ فیکٹری میں زندہ جلا کر، کراچی کی سڑکوں پر خون بہا کر بھی مجھ پر ترس نہ آئے، صاحب! نہیں چاہیے تیری چالباز جمہوریت، میں آٹے، چینی، گھی کی لائنوں میں لگوں، میں گولی، ٹیکے، ڈاکٹر کیلئے تڑپوں، میں امدادی کیمپوں میں پیسے پیسے کیلئے رُلوں، تُو، تیری آل اولاد موجیں کرے۔
صاحب! اگر میں لائنوں میں لگا ہوا تو تم کیوں لائنوں میں نہیں، تمہارے بچے میرے بچوں کی طرح یوٹیلیٹی اسٹورز کی دالیں کیوں نہیں کھاتے، صاحب! ایسا کیوں کہ میں سستے بازاروں میں رُلوں، تُو دبئی، لندن شاپنگ کرے، مجھے زکوٰۃ بیت المال سے ملنے والی خیرات تیری ہوٹل کے ویٹر کی بخشش سے تھوڑی۔
صاحب، نہیں چاہیے تمہاری اُسترا جمہوریت، جس میں انصاف صرف تیرا مقدر، جس کا آئین و قانون تیرا محافظ، جس کا ہر ادارہ تیرے وفاداروں کا مسکن، جس کا ہر پھل تیرا نصیب، صاحب نہیں چاہیے تیری کھچڑی جمہوریت، جس میں میرا ماضی، حال نہ مستقبل، جس نے تیرے بعد تیرے بچوں کو بھی حکمرانیوں کیلئے تیار کر دیا۔
صاحب، کبھی تم نے سوچا تمہاری سیلن زدہ، دیمک زدہ جمہوریت کے پلے کیا، قائداعظم خراب ایمبولینس، لیاقت علی خان اندھی گولی کی نذر اور پھر اسکندر مرزا، ایوب کی کوکھ سے نکلا بھٹو، تیرا بھٹو جو فاطمہ جناح کے خلاف الیکشن مہم کا انچارج، جو فاطمہ جناح کو بھارتی ایجنٹ بنانے میں پیش پیش۔
ایوب گیا، ضیاء آیا، دو ظلم، بھٹو کی ناحق پھانسی، نواز شریف کو ناحق مسلط کرنا، خیر تیرا نواز شریف ضیاء کی پیداوار، سوچو، ایوب، ضیاء نہ ہوتے تو تیرے بھٹو، نواز بھی نہ ہوتے، مطلب یہ ڈکٹیٹر نہ ہوتے تو کتنی سونی گود ہوتی تیری جمہوریت کی۔
صاحب! آگے سنو، مشرف آیا، تیرے نواز نے جانے، آنے کی ڈیلیں کیں، تیری بی بی نے این آر او کیا، صاحب یہ بھی یاد رکھنا، ایوب مارشل لا لگا۔
فاطمہ جناح نے خیر مقدم کیا، مشرف مارشل لالگا بینظیر بھٹو نے ویلکم کیا، صاحب! یہ ہے تیری جمہوریت کی اوقات، یہ ہے تیری جمہوریت کی حیثیت،
صاحب! نہیں چاہیے تیری مک مکا، ڈیلوں، ڈھیلوں، پتلی گلیوں، چور دروازوں والی وہ جمہوریت جس میں 22کروڑ 5فیصد کے جانور ہوئے، صاحب! اپنے پاس رکھو اپنی جمہوریت۔
Source: Jung News
Read Urdu column Sahab Apnay Pass Rakho Apni Jamhoriat By Irshad Bhatti