سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے – حامد میر
سوال اور الزام میں بہت فرق ہوتا ہے۔ سوال کا مقصد علم کا حصول ہوتا ہے اور الزام کا مقصد کسی کی کردار کشی ہوتا ہے۔ جب الزام کو سوال بنا دیا جائے تو پھر علم کے نہیں بلکہ نفرت کے دروازے کھلتے ہیں۔
سوال کا جواب مشکل اور الزام کا جواب آسان ہوتا ہے۔ سال 2021ء میں مجھے بہت سے الزامات کا سامنا تھا۔ یہ الزامات گزشتہ بیس پچیس برسوں میں لگائے جانے والے الزامات کا تسلسل تھے، جنہوں نے دس سال قبل جان سے مار دینے کی دھمکیوں اور پھر قاتلانہ حملوں کی شکل بھی اختیار کر لی تھی۔
یہ دھمکیاں اور قاتلانہ حملے دراصل الزامات لگانے والوں کی اخلاقی کمزوری کا ثبوت تھے۔ مئی 2021ء میں اسلام آباد کے نوجوان صحافی اسد علی طور پر ان کے گھر میں گھس کر تشدد کیا گیا۔ اس تشدد کے خلاف نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر صحافیوں نے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس مظاہرے سے میرے سمیت کئی صحافیوں نے خطاب کیا۔
میرا خطاب کسی ٹی وی چینل پر نشر ہوا نہ کسی اخبار میں شائع ہوا۔ میرے لہجے کی تلخی کسی کی طبیعت پر بہت ناگراں گزری اور پھر جیو نیوز نے مجھ پر پابندی لگا دی۔ اسی پر بس نہیں کیا بلکہ روزنامہ جنگ میں اس ناچیز کا کالم بھی بند کر دیا گیا۔ میں نے جیو نیوز کی انتظامیہ کو پیش کش کی کہ میں ملازمت سے استعفیٰ دے دیتا ہوں لیکن مجھے کہا گیا کہ صرف چند دنوں کی بات ہے پھر معاملہ ٹھیک ہو جائے گا۔
پھر کچھ صحافتی تنظیمیں بھی اس معاملے میں ثالث بن گئیں۔ ان تنظیموں کا کردار ثالث کا تھا یا کسی کے سہولت کار کا؟ یہ ایک لمبی کہانی ہے، جسے ایک نہ ایک دن منظرعام پر آنا ہے۔ فی الحال صرف یہ عرض کرنا ہے کہ ایک طرف تو مجھ سے وعدہ کیا گیا کہ آپ بے فکر ہو جائیں، اسد علی طور پر حملے کے ملزم جلد گرفتار ہو جائیں گے لیکن دوسری طرف مجھ پر الزامات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔
کچھ زرخرید یوٹیوبرز نے الزامات کو سوال کا رنگ دیا اور ان کے سوال مجھے منیر نیازی کا یہ شعر یاد دلاتے رہے:
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
سوال صحیح ہو تو جواب مشکل ہو جاتا ہے لیکن اگر الزام کو سوال بنا دیا جائے تو جواب بہت آسان ہو جاتا ہے۔ مئی 2021ء میں مجھ پر عائد کی جانے والی پابندی کے بعد صرف میری ذات پر ہی نہیں بلکہ میرے خاندان پر بھی الزامات لگائے گئے۔ میرے بھائی عامر میر کو ایف آئی اے نے لاہور میں بغیر کسی مقدمے کے گرفتار کر لیا۔
عامر میر کے ساتھ ایک اور صحافی عمران شفقت کو بھی ان کے گھر سے اٹھایا گیا۔ دونوں کو گرفتار کرنے کے بعد ان پر ایک بے بنیاد مقدمہ بنایا گیا۔ یہ مقدمہ طاقت ور ریاستی اداروں کے اخلاقی دیوالیہ پن کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کا ذریعہ بنا۔ اس واقعے کے بعد بی بی سی کے معروف پروگرام ہارڈ ٹاک میں مجھے واضح کرنا پڑا کہ میرے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اس کے پیچھے عمران خان نہیں بلکہ پاورفل اسٹیبلشمنٹ ہے۔
میرا قصور صرف اتنا تھا کہ ایک صحافی کو اس کے گھر میں گھس کر مارا گیا، میں نے اس واقعے پر احتجاج کیا۔ مجھے غلط ثابت کرنے کا بہترین طریقہ یہ تھا کہ ریاستی ادارے اسد علی طور پر حملے کے ملزمان کو گرفتار کر کے دنیا کے سامنے پیش کرتے۔ افسوس کہ نہ ملزم گرفتار ہوئے اور نہ مجھے غلط ثابت کیا گیا۔ لہٰذا اپنی خفت مٹانے کے لیے مجھ پر پابندی کا سلسلہ دراز کر دیا گیا۔
عام خیال یہ تھا کہ اس پابندی کے پیچھے آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ فیض حمید تھے۔ 20 نومبر کو لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے ایک سیشن میں مجھ سے سوال کیا گیا کہ اب تو فیض حمید آئی ایس آئی کے سربراہ نہیں رہیں گے، تو کیا آپ پر پابندی ختم ہو جائے گی؟
یہ ایک مشکل سوال تھا۔ میں نے جواب میں کہا کہ 2007ء میں فیض حمید آئی ایس آئی کے سربراہ نہیں تھے لیکن مجھ پر پابندی لگ گئی، 2014ء میں وہ آئی ایس آئی کے سربراہ نہیں تھے لیکن مجھ پر کراچی میں قاتلانہ حملہ ہو گیا۔ لہٰذا پابندی کا تعلق کسی فرد سے نہیں بلکہ ایک سوچ سے ہے، جو ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کی بات کرنے والوں کو ریاست کا دشمن قرار دے کر اپنے جرائم چھپانے کی کوشش کرتی ہے۔
فیض حمید نومبر میں چلے گئے لیکن مجھ پر پابندی برقرار رہی۔ پھر دسمبر آ گیا، دسمبر کے آخری دو ہفتوں میں مختلف عالمی نشریاتی اداروں نے مجھ سے پوچھنا شروع کیا کہ سال 2021ء پاکستان میں میڈیا کے لیے کیسا رہا؟ میں سب کو ایک ہی جواب دیتا رہا کہ اس سال کے بارہ میں سے سات مہینوں تک مجھ پر پابندی رہی۔ پھر ایک ایسا سوال پوچھا گیا، جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔
سوال یہ تھا کہ جب 2014ء میں آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا اور آپ زخمی تھے، تو آپ سے پوچھا گیا کہ آپ پاکستان چھوڑیں گے؟ آپ نے جواب میں کہا تھا کہ آپ پاکستان نہیں چھوڑیں گے کیوں کہ پاکستان کے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ سات سال کے بعد آپ سات ماہ سے پابندی کا شکار ہیں۔ یہ بتائیے کہ پاکستان کے حالات میں کیا بہتری آئی ہے؟
میں نہ تو فواد چوہدری ہوں اور نہ ہی شہباز گل ہوں کہ دن کو رات اور رات کو دن کہوں۔ میں تو خود سینسرشپ کی ایک چلتی پھرتی مثال بنا دیا گیا تھا۔ میں نے سات سال پہلے جو دعویٰ کیا تھا، وہ غلط ثابت ہو چکا تھا۔ لہٰذا میں نے اعتراف کیا کہ میڈیا کے لیے حالات بہتر نہیں ہوئے بلکہ پہلے سے بھی خراب ہو گئے ہیں لیکن اس کا حل یہ نہیں ہے کہ میں پاکستان چھوڑ کر کہیں اور چلا جاؤں۔
میں نے اپنی قوت ارادی کو مجتمع کیا اور یہ کہہ کر اپنا جواب ختم کیا، ”پابندی کے مقابلے کا یہ کوئی طریقہ نہیں کہ میں پاکستان چھوڑ دوں، پابندی لگانے والے میری صحافت ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن میری صحافت واشنگٹن پوسٹ اور ڈی ڈبلیو اردو کے ذریعے جاری ہے۔‘‘
انٹرویو لینے والے نے مجھے تھینک یو کہا۔ میں نے ایک لمبا سانس لیا، جیسے کسی بڑی مصیبت سے جان چھوٹ گئی ہو۔ کافی دیر تک یہ سوچتا رہا کہ 2021ء تو گزر گیا، کیا 2022ء میں بھی وہی کچھ ہوتا رہے گا، جو پچھلے کئی سال سے ہو رہا ہے۔ ابن انشا کا یہ شعر یاد آ رہا ہے:
اک سال گیا اک سال نیا ہے آنے کو
پر وقت کا اب بھی ہوش نہیں دیوانے کو
اقتدار و اختیار کے نشے میں مدہوش دیوانے کو گزرتے وقت کا واقعی خیال نہیں ہے۔ افسوس اس وقت ہوا، جب ایک زیرعتاب سینئر صحافی عمران شفقت نے اپنے وی لاگ میں میڈیا پر نافذ غیراعلانیہ سینسرشپ کا ماتم کرتے ہوئے مجھے مشورہ دیا کہ بس بہت ہو گئی، اب آپ پاکستان چھوڑ دیں، آپ نے ہمیں بھی خراب کیا۔ عمران شفقت نے اپنے وی لاگ کا اختتام مایوسی کے ساتھ کیا۔ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا، یہ اس کا ردعمل تھا۔ میں اپنے صحافی دوستوں اور ساتھیوں کو زبردستی کوئی امید نہیں دلانا چاہتا۔ لیکن ہمارے آس پاس امید کے کچھ چراغ ابھی تک روشن ہیں۔
کچھ دن پہلے نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز (نمل) اسلام آباد کے طلبہ کا ایک وفد مجھے ملا۔ یہ طلبہ مجھ سے میرے مستقبل کے بارے میں سوالات کر رہے تھے اور جوابات میں اپنا مستقبل تلاش کر رہے تھے۔ ایک طالب علم انصار احمد نے اپنا ماسٹرز کا تھیسز میرے بارے میں کیا تھا۔ ان طلبہ میں سے کوئی مطیع اللہ جان سے متاثر تھا اور کوئی عاصمہ شیرازی کی تعریف کر رہا تھا۔ یہ بھاگنے والوں میں نہیں بلکہ الزامات اور دھمکیوں کی یلغار میں مزاحمت کرنے والوں کے کردار میں اپنا مستقبل تلاش کر رہے تھے۔
گیلپ پاکستان کے ایک حالیہ سروے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ناامیدی بڑھ رہی ہے۔ میں اس سروے کو غلط نہیں کہتا لیکن مجھے یقین ہے کہ اس ملک کی نوجوان نسل مایوسی کے سامنے ہتھیار نہیں پھینکے گی۔ وہ جھوٹ بولنے والوں سے واقعی مایوس ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ سچائی کی تلاش میں بھی ہے۔
نوجوانوں کو سوال اور الزام کا فرق معلوم ہے۔ انہیں الزامات کے ذریعے بےوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ انہیں ان کے سوالات کے صحیح جواب دے کر پاکستان کو صحیح راستے پر ڈالا جا سکتا ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے
Source: DW Urdu
Must Read Urdu Column Sawal Saree Galt thay Jawab kia detay by Hamid Mir