سیرت رحمت ِعالمؐ – ڈاکٹر عبد القدیر

dr-abdul-qadeer-khan

رمضان کا مُبارک مہینہ ہے اور ﷲ پاک اور اس کے پیارے پیغمبر محمدﷺ نے ہمیں سخت نصیحت، ہدایت اور حکم دیا ہے کہ ہم روزے رکھیں، نماز پڑھیں، زکوٰۃ دیں، بُرے کاموں سے پرہیز کریں اور غرباء اور مسکینوں کی مدد کریں۔ اسی لحاظ سے میں اس ماہ مذہبی عنوانات پر کالم لکھتا رہا ہوں۔

آج ایک نئی کتاب ’’سیرت رحمت عالم ؐ ‘‘ پر تبصرہ آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔ اس کتاب کے مصنف پروفیسر عبدالقیومؒ ہیں اور اس کی تحقیق و تخریج جناب حافظ محمد فیاض الیاس صاحب نے کی ہے۔ یہ کتاب مارچ 2021میں شائع ہوئی تھی۔حسب توقع اس کتاب میں قدیم تہذیبوں کا تعارف، جزیرہ عرب، سیرت النبیؐ (ابتدائی حالات)،، مدینہ میں ورودِ مسعود، غزوات النبیؐ، ہم عصر حکمرانوں کو تبلیغِ اسلام، فتح مکہ سے وفات تک، عقائد اسلام، عبادات، اخلاق نبویؐ، عہدنبویؐ میں نظام سلطنت، ازواج النبیؐ، اولادِ نبیؐ، معجزات نبیؐ، مصادر و مراجع جیسے موضوعات شامل ہیں۔

پروفیسر عبدالقیومؒ عربی اور اسلامی علوم کے بڑے عالم، محقق اور استاذ تھے۔ انھوں نے یہ کتاب اسکول اور کالج کے طلباء اور اساتذہ کے لئے مرتب کی تھی۔ بقول پروفیسر عبدالقیومؒ مرحوم ’’یہ کتاب تاریخ اسلام کے طالب علموں کے لئے مرتب کی گئی ہے۔ مستند تاریخی معلومات درج کی گئی ہیں۔ کتاب کی تیاری میں تمام قدیم و جدید کتب سے استفادہ کیا گیا ہے۔ چند ضروری نقشہ جات بھی شامل کردیئے گئے ہیں تاکہ واقعات کے سمجھنے میں طلباء کو آسانی ہو۔‘‘ اس کتاب میں صفحہ 165 پرخطبۂ حج بیان کیا گیا ہے۔یہ ایک ہفتہ میں دوسری کتاب ہے جس میں حجتہ الوداع کے موقع پر دیا گیا آخری بیان، ’’میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد اب کوئی اور نبی نہیں آئے گا اور نہ ہی کوئی اور اُمت اب آئے گی‘‘ شامل ہے۔ یہ بہت اہم بیان تھا اور بچپن سے اب تک میں نے جتنی، لاتعداد، دینی کتب پڑھی ہیں اور جن میں بھی خطبہ حجۃ الوداع بیان کیا گیا ہے ان میں یہ آخری نبی ؐاور آخری اُمت شامل ہے۔ میری تمام علماء اور مٔولفین سے درخواست ہے کہ اس اہم بیان کو خطبے میں ضرور شامل کیا کریں، یہ ہمارے مذہب اور ایمان کا اہم رُکن ہے۔

دیکھئے میں بھی سیرت طیبہؐ اور حالات حاضرہ پر چند باتیں آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔

(1)سیرت طیبہؐ کا پیغام برائے عوام موجودہ حالت میں یہ ہےکہ انسان کو سمجھ لینا چاہئے کہ اس کی یہ زندگی بالکل عارضی ہے اور آخرت مستقبل کا پیش خیمہ ہے۔ (2) یہ دنیا اور اس کے کثیر ذخیرہ جات و وسائل ﷲ تعالیٰ کی نعمت ہیں اور ﷲ پاک نے انسان کو ان ذخیروں کا نگراں بنا یا ہے، ان کو اس کے استعمال میں ﷲ تعالیٰ کے احکامات اور رسولؐ کی ہدایت پر عمل کرنا لازمی ہے۔ اور ان ذخائر کو عوام کے لئے منصفانہ طور پر استعمال کرنا چاہئے۔ (3) انسان کی تمام مشکلات، تکالیف اس وجہ سے ہیں کہ اس نے ﷲ تعالیٰ اور اس کے آخری نبیؐ کے احکامات کو نا صرف نظر انداز کردیا ہے بلکہ ان پر عمل کرنا ہی بالکل چھوڑ دیا ہے اور خودغرضی اور مفاد پرستی نے اس کو ایک جال میں پھنسا لیا ہے اور وہ انسان دوستی، ہمدردی اور باہمی مدد کے تقدس کو بالکل نظرانداز کررہا ہے بلکہ کر چکا ہے اور اس کے خلاف اعمال کو اپنا وتیرہ بنا لیا ہے اس میں خاص طور پر ﷲ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کی نافرمانی ہے کہ یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بنائو بلکہ ان سے دور رہو کیونکہ وہ تمھارے دوست نہیں ہیں اور آپس میں دوست ہیں۔سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 51اور 57 میں اس حوالے سے تفصیلی احکامات موجود ہیں۔ سورۃ المائدہ، آیت 105میں ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’اے ایمان والو! اپنی فکر کرو، کسی کی گمراہی سے تمہارا کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خود راہ راست پر ہو۔ ﷲ کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے اس وقت وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو‘‘۔ تفہیم القرآن میں مولانا مودودی نے اس کی تشریح یوں کی ہے۔ ’’انسان کو بجائے اس کے کہ ہر وقت یہ دیکھتا رہے کہ فلاں کیا کررہا ہے اور فلاں کے عقیدے میں کیا خرابی ہے اور فلاں کے اعمال میں کیا بُرائی ہے اسے یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ خود کیا کررہا ہے۔فکر اسے اپنے خیالات، اپنے اخلاق اور اعمال کی ہونی چاہئے کہ وہ کہیں خراب نہ ہوں اگر آدمی خود ﷲ کی اطاعت اور ﷲ اور اس کے بندوں کے جو حقوق اس پر عائد ہوتے ہیں انہیں ادا کررہا ہے اور راست روی و راست بازی کے تقاضے پورے کررہا ہے جن میں لازماً امربالمعروف و نہی عن المنکر بھی شامل ہے تو یقیناً کسی شخص کی گمراہی و کج روی اس کے لئے نقصان دہ نہیں ہوسکتی‘‘۔

اس آیت کا یہ منشا ہرگز نہیں ہے کہ آدمی بس اپنی نجات کی فکر کرے، دوسروں کی اصلاح کی فکر نہ کرے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اس غلط فہمی کی تردید کرتے ہوئے اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں: ’’لوگو! تم اس آیت کو پڑھتے ہو اور اس کی غلط تاویل کرتے ہو۔ میں نے رسول ﷲﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جب لوگوں کا حال یہ ہوجائے کہ وہ بُرائی کو دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں‘ ظالم کو ظلم کرتے ہوئے پائیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں، تو بعید نہیں کہ ﷲ اپنے عذاب میں سب کو لپیٹ لے۔ خدا کی قسم تم پر لازم ہے کہ بھلائی کا حکم دو اور بُرائی سے روکو، ورنہ ﷲ تم پر ایسے لوگوں کو مسلّط کردے گا جو تم میں سب سے بدتر ہوں گے اور وہ تم کو سخت تکلیفیں پہنچائیں گے، پھر تمہارے نیک لوگ خدا سے دُعائیں مانگیں گے مگر وہ قبول نہ ہوں گی۔

source

Read Urdu column Seerat Rehmat e Alam SAW by Dr Abdul Qadeer khan

Leave A Reply

Your email address will not be published.