سہما سہما اوبامہ – حامد میر
سابق امریکی صدر بارک اوبامہ اپنی نئی کتاب میں ایک ڈرا ڈرا اور سہما سہما سا شخص نظر آتا ہے۔ اوبامہ کی کتاب امریکہ کے حالیہ صدارتی الیکشن کے بعد مارکیٹ میں آئی ہے۔
کتاب کا نامA PROMISED LAND ہے یعنی وہ سرزمین جس کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اُس سرزمین کا سابق صدر، اپنی کتاب میں اخلاقی جرأت کے فقدان کا شکار نظر آتا ہے اور کئی جگہ پر اوبامہ نے فکری بددیانتی کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔
ہمارے پاکستانی دوستوں کو اِس کتاب کے اُن حصوں میں زیادہ دلچسپی ہے جہاں آصف علی زرداری یا پھر بھارت کا ذکر ہے لیکن اِس کتاب کا مکمل مطالعہ کریں تو صاف پتا چلتا ہے کہ اوبامہ کو ٹرمپ کی شکست کا مکمل یقین نہیں تھا لہٰذا اُنہوں نے کتاب میں ٹرمپ کا ذکر بڑی احتیاط سے کیا ہے اور یہ احتیاط کہیں کہیں منافقت بھی لگتی ہے۔
مثلاً اوبامہ نے بھارت کے وزیراعظم من موہن سنگھ کے ساتھ اپنی ملاقات کی کہانی تو لکھ ڈالی لیکن نریندر مودی کے ساتھ ملاقات کی تفصیل بیان کرنے سے گریز کیا۔ اوبامہ نے لکھا ہے کہ 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد من موہن سنگھ پر پاکستان کے خلاف کارروائی کیلئے بہت دبائو تھا لیکن اُنہوں نے گریز کیا اور اِس گریز کا اُنہیں بہت سیاسی نقصان ہوا۔
من موہن سنگھ نے اوبامہ کو بتایا کہ مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت سے بی جے پی کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ کتاب کے صفحہ 601 پر اوبامہ نے بھارت کو گاندھی کا امن پسند معاشرہ قرار دیا ہے اور اگلے ہی پیرا گراف میں لکھا ہے کہ بھارت کی سیاست آج بھی مذہب، ذات اور برادری کے گرد گھومتی ہے۔
کتاب کے اِس حصے میں یہ تاثر ملتا ہے کہ ممبئی حملوں میں لشکرِ طیبہ ملوث تھی اور بی جے پی کو ممبئی حملوں سے بہت فائدہ پہنچا۔ صفحہ 679 پر اوبامہ نے ایبٹ آباد آپریشن کی تیاریوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس کی ساکھ اب دوبارہ بحال ہو رہی تھی کیونکہ اُس نے دعویٰ کیا تھا کہ صدام حسین کے پاس تباہی پھیلانے والے ہتھیار تھے۔
ایک سپر پاور کا سابق صدر کھل کر یہ نہیں کہہ پاتا کہ امریکی انٹیلی جنس کی طرف سے صدام حسین کے بارے میں کئے جانے والے دعوے غلط تھے اور امریکہ کی طرف سے عراق پر کیا جانے والا حملہ بھی غلط تھا۔ یہاں اوبامہ اپنی ہی انٹیلی جنس سے سہما سہما نظر آتا ہے۔
اِس صفحے پر آگے چل کر اوبامہ نے لکھا ہے کہ پاکستان کی حکومت نے دہشتگردی کے خلاف ہم سے بہت تعاون کیا لیکن یہ بھی ایک کھلا راز تھا کہ اُس ملک کی فوج اور خاص طور پر انٹیلی جنس سروس میں کچھ عناصر کے طالبان اور شاید القاعدہ کے ساتھ بھی روابط تھے۔
سپر پاور کا سابق صدر ایک لفظ ’’شاید‘‘ کا سہارا لے کر پاکستان انٹیلی جنس کا القاعدہ کے ساتھ تعلق جوڑ دیتا ہے حالانکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن کے دوران امریکی کمانڈوز نے بلال ٹاؤن میں اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ سے جو دستاویزات برآمد کی تھیں، اُن میں پاکستانی انٹیلی جنس کے ساتھ القاعدہ کے روابط کا کوئی ثبوت موجود نہ تھا۔
صفحہ 696 پر مائیک مولن اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کے درمیان اور اوبامہ کی آصف علی زرداری کے ساتھ ہونے والی گفتگو کا ذکر ہے۔ بقول اوبامہ نہ تو کیانی نے ایبٹ آباد آپریشن پر احتجاج کیا اور نہ ہی آصف علی زرداری نے اوبامہ سے کوئی شکوہ کیا۔
اوبامہ کے بقول زرداری نے اُنہیں ایبٹ آباد آپریشن پر مبارکباد دی تاہم زرداری صاحب نے اوبامہ کے اِس دعوے کی تردید کی ہے۔ آگے چل کر اوبامہ نے لکھا ہے کہ جب اسامہ بن لادن کے جسدِ خاکی کی شناخت مکمل ہو گئی تو فیصلہ کیا گیا کہ جسدِ خاکی کی کوئی تصویر جاری نہ کی جائے تاکہ انتہا پسندوں کو کوئی فائدہ نہ ہو۔
اوبامہ نے یہ نہیں بتایا کہ اسامہ بن لادن کے جسدِ خاکی کے ساتھ کیا ہوا؟ اِس معاملے پر خاموشی اختیار کی گئی کیونکہ اگر سابق امریکی صدر یہ تصدیق کر دیتے کہ اسامہ کے جسدِ خاکی کو ایک سفید کفن میں لپیٹ کر بحیرہ عرب میں پھینک دیا گیا تو یہ سوال اٹھایا جاتا کہ اسامہ بن لادن کو زمین میں دفن کیوں نہ کیا گیا؟ کیا سپر پاور اُن کے جنازے اور قبر سے بھی خوفزدہ تھی؟
حقیقت یہ ہے کہ امریکیوں نے اسامہ بن لادن کے جسدِ خاکی کے ساتھ جو کیا، وہ اُن کی خواہش کے عین مطابق تھا۔
1997میں جب میری اسامہ بن لادن کے ساتھ جلال آباد کے قریب تورا بورا میں پہلی ملاقات ہوئی تو گفتگو میں اُن کے ایک پرانے ساتھی شفیق المدنی کا ذکر آیا جو 1989میں جلال آباد کی لڑائی میں شہید ہوئے تھے۔
شفیق المدنی ’’ٹینک تباہ کرنے کے‘‘ ماہر تھے اور وہ دعا کیا کرتے تھے کہ یا ﷲ میں زمین میں دفن نہیں ہونا چاہتا، میری قبر پرندوں اور جانوروں کے پیٹ میں بنانا تاکہ روزِ حشر وہ گواہی دیں کہ یہ بندہ ﷲ کے دشمنوں سے لڑتا لڑتا اِتنے ٹکڑوں میں بٹ گیا کہ ہمارے پیٹ اُس کی قبر بن گئے۔
1998میں قندھار میں اسامہ بن لادن نے شفیق المدنی کا ذکر کیا اور گیارہ ستمبر 2001 کے حملوں کے دو ماہ بعد نومبر 2001 میں کابل میں اسامہ بن لادن کا انٹرویو کیا تو اُن کے ساتھی شفیق المدنی کو نہیں بھولے تھے۔
اُس آخری ملاقات میں برطانوی صحافی برابرٹ فسک کو بھی شامل ہونا تھا لیکن رابرٹ فسک چمن کے راستے افغانستان میں داخل نہ ہو سکے۔ 2006 میں رابرٹ فسک مجھے بیروت میں ملے تو اُنہیں افسوس تھا کہ وہ کابل نہ پہنچ سکے اور اسامہ بن لادن سے ملاقات نہ کر سکے۔
پچھلے دنوں اُن کا برطانیہ میں انتقال ہو گیا۔ اگر زندہ ہوتے تو اوبامہ کے بارے میں میری اِس رائے سے اتفاق کرتے کہ سابق امریکی صدر نے اسامہ بن لادن کے جسدِ خاکی کے بارے میں خاموشی اختیار کر کے بددیانتی کا مظاہرہ کیا۔
زیادہ افسوس اِس بات کا ہے کہ اسامہ بن لادن اور اُن کے کئی ساتھیوں کے خلاف آپریشن آپ پاکستان میں کریں اور بغیر ثبوت پاکستان پر الزام بھی لگا دیں کہ القاعدہ اور پاکستانی انٹیلی جنس کے آپس میں روابط تھے لیکن نریندر مودی سے آپ اتنے محتاط ہیں کہ اُس نے 2015 میں آپ کو خود چائے بنا کر پلائی لیکن آپ نے اُس کی چائے کا ذکر گول کر دیا کیونکہ آپ چائے کی تعریف کرتے تو مودی کی بھی تعریف کرنی پڑتی لیکن آپ اُس کی تعریف، نہ ہی اُس پر تنقید کی کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ بی جے پی والے دہلی میں امریکی سفارتخانے کو گھیر لیں گے۔
اوبامہ کی کتاب میں پاکستانیوں کیلئے ایک سبق ہے کہ آپ امریکیوں کیلئے کچھ بھی کر لیں جب تک پاکستان کا ایٹمی پروگرام قائم و دائم ہے، امریکی حکومت کبھی پاکستان سے مطمئن نہیں ہو گی۔
Source: Jung News
Read Urdu column Sehma Sehma Obama By Hamid Mir