سینیٹ کا الیکشن – ڈاکٹر عبد القدیر
پچھلے دنوں سینیٹ کے الیکشن ہوئے،پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی صاحب نے کمال کردیا انہوں نے سب کو راضی کرلیا جس پارٹی کا جتنا حق بنتا تھا اس کو اتنی ہی سیٹیں مل گئیں۔ لیکن سب سے بڑا معرکہ اسلام آباد میں ہوا۔ یہاں حکومتی اُمیدوار ڈاکٹر حفیظ شیخ کے مقابلے میں PDM نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو کھڑا کیا اور اس مرتبہ یہ ثابت ہوگیا کہ ایک زرداری سب پر بھاری۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو 164اور یوسف رضا گیلانی صاحب کو 169 ووٹ ملے اور اس طرح وہ کامیاب قرارپائے۔
اس کامیابی نے حکومت کی جڑیں ہلادیںاوراس کو احساس ہوا کہ ان کی پارٹی کے 9 ممبران نے ضمیر کی آواز پر یا قائد اعظم کی تصویر پر ووٹ دیا۔ ان کو ضرورت پیش آگئی کہ اعتماد کا ووٹ لیں۔ چونکہ اپوزیشن میں کوئی بھی اس میں دلچسپی نہیں لے رہا تھا تو مجبوراً اِن کی پارٹی کے لوگوں نے ان کو ہی ووٹ دے کر اپنی وفاداری دکھا دی۔ مگروہ اب بھی اسی گمان میں ہیں کہ اپوزیشن شکست کھا گئی ہے۔ زرداری صاحب اس وقت وار کرتے ہیں جب لوہا سرخ ہوتا ہے یعنی جب انھیں سوفیصد یہ یقین ہوتا ہے کہ ان کا وار خالی نہیں جائے گا۔ اور حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ وقت کوئی نہ کوئی پلاننگ اور اسٹریٹجی بنا رہے ہیں۔
نہایت افسوس کا مقام ہے تقریباً 3 سال حکومت کرنے اور ملک کو تباہ کرنے کے بعد بھی وزیر اعظم اور ان کے رفقاء ناکامیوں کا تمام ملبہ پچھلے حکمرانوں پر ڈالتے ہیں اور اب اس میں یہ بھی شامل کرلیا گیاہے کہ چونکہ روپیہ کی قیمت کم ہوگئی ہے اس لئے مہنگائی میں اضافہ ہوا۔پارلیمنٹ میں اپنی تقریر میں وزیر اعظم نے وہی اپنی روایتی بہتان طرازی جاری رکھی۔ پوری تقریر میں اپنی کارکردگی نہیں بتائی بلکہ پچھلے حکمرانوں کے کامو ں پر ماتم کرتے رہے۔ انہوں نے یوسف رضا گیلانی پر طنز کیا کہ اپنے ماضی پر غور کرو اور شرم کرو۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت اس ملک کا نظام چلانے کی اہل نہیںہےاس نے اس خوبصورت ملک کا ستیاناس کردیا ہے اور اگریہ دو سال اوررہی تو ہم کمزور ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہوجائیں گے۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی کمر توڑ دی ہے اور ملک کی بیخ اُکھاڑ دی ہے۔ اگر آپ معاونین خصوصی کو فارغ کرکے وہ رقم یوٹیلیٹی اسٹورز میں اشیاء کی قیمتیں کم کرنے کے لئے سبسڈی دیدیں تو یقیناً آپ کو بہت فائدہ ہوگا۔ ملک کا کوئی ادارہ ٹھیک نہیں ہے اور پہلے کے مقابلے میں بدتر ہوگیا ہے۔
اگر نواز شریف اورشہباز شریف عقل و فہم اور دماغ سے کام لیں تو ان کے لئے سب سے بہتر پالیسی یہ ہوگی کہ زرداری صاحب سے نیک نیتی سے وعدہ کریں کہ وہ ان کا ساتھ دینگے اور زرداری صاحب کے وزیراعظم کے اُمیدوار کی پوری طرح مدد کریں گے، اس میں بدنیتی اور دھوکہ دہی کا شائبہ بھی نہیں ہونا چاہئے۔ میں نے کئی برس پہلے ایک مرتبہ جنگ میں ہی اپنے کالم میں لکھا تھا کہ سیاست کے فن میں زرداری صاحب کو جو مہارت حاصل ہے (جس کا ثبوت انہوں نے ابھی یوسف رضا گیلانی کو جتا کر پیش کیا) اس کے لئے وہ ہارورڈ میں پروفیسر آف پولیٹکل سائنس کے عہدے کےمستحق ہیں اور ہمارے مشہور صحافی نے آپس کی بات میںیہ بات کہی بھی تھی۔
دیکھئے اس وقت زرداری صاحب خاموش بیٹھے آنکھیں بند کئے سیاست کی موشگافیوں کو شطرنج کے کھیل کے ہنر سے حل کرنے میں مصروف ہیں جس دن اُنھوں نے موقع دیکھا تو وزیر تو کیا پیادے سے مخالف بادشاہ کو چت کر دینگے اور وہ وقت دور نہیں اس میں صرف ن۔لیگ کی طرف سے ایک ناقابلِتبدیل وعدے اور حمایت کی ضرورت ہے۔ جس دن ان کو یقین ہوگیا کہ ن۔لیگ ان کی پالیسی کو قبول کرے اور اس پر عمل کرےگئی تو زیادہ سے زیادہ دو ہفتوں میں وہ کامیاب ہوجائیں گے اورحکومت ناکام ہوجائے گی ۔ اس وقت میاں صاحب کا ایک سیاست دان کی حیثیت سے خاموش بیٹھنا مناسب ہوگا، وہ پارٹی کے سربراہ رہیں، اسکی میٹنگز کی سربراہی کریں، مشورے دیں (مگر قابلِ قبول، قابلِ عمل) اور کھانوں کے مزوں اور اقسام پر زیادہ دھیان دیںبلکہ لاہور میں ایک اعلیٰ ریسٹورنٹ ا و ر کھلو ا د یں ۔
(نوٹ) پچھلے دنوں HEC نے یہ حیران کن اعلان کیا ہے کہ چارسال کے B.Sc کے بعد اسٹوڈنٹ Ph.D میں داخلہ لے سکتا ہے۔ میں پندرہ برس یورپ میں رہا ہوں اور تمام وقت تعلیمی سرگرمیوں سے تعلق رہا۔ دیکھئے جرمنی میں A لیول ہوتا ہے، یہ بارہ برس کا کورس ہے جس کے بعد پھریونیورسٹی میں ماسٹرز(Dipl.Ingenieur) کم از کم پانچ برس اور عموماً چھ یا ساڑھے چھ سال کا ہوتا ہے۔ ہالینڈ، بلجیم، فرانس، اٹلی میں بھی یہی رواج ہے وہاں Arbitur کے بجائے Lyceum ہوتا ہے اور ماسٹرز میں پانچ، چھ سال لگتے ہیں اس کے بعد ڈاکٹریٹ کے کم از کم تین مگر عموماًچار، پانچ سال لگتے ہیں۔ اب وہاں کا Ph.D کیا ہمارےPh.D کے برابر ہوگا؟ انگلینڈ میں A لیول کے بعد تین چاربرس میں B.Sc Honrs ہوتا ہے اور پی ایچ ڈی میں تین سے چارسال لگتے ہیں۔ اگر اسٹوڈنٹ ذہین نہ ہوتو اس کو سال، ڈیڑھ سال بعد M.Sc کی ڈگری دے کر گھر بھیج دیتے ہیں۔اس حقیقت سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی اعلیٰ تعلیم کے بغیر ممکن نہیں اور اس کا ثبوت ترقی یافتہ ممالک ہیں جہاں دنیا کی بہترین یونیورسٹیاں پائی جاتی ہیں اور تعلیم کے ساتھ وہ مذاق نہیں ہوتا جو ہمارے ہاں عرصہ دراز سے جاری ہے۔قابل توجہ اور باعث ِ تشویش بات یہ ہے کہ نہیں معلوم کہ تعلیم کے ساتھ یہ مذاق کب تک جاری رہے گا اور ہم کب اپنے عوام کو تعلیمی سہولتیں فراہم کریں گے۔
دیکھئے ایک بات یاد رکھیں کہ توبہ کی توفیق اللہ مقدر والوں کو دیتا ہے ورنہ آنکھوں پر لوہے کے پردے اور کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیتا ہے۔ اور پھر سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں سلب کرلیتا ہے۔ اگر اللہ کے احکام کی خلاف ورزی یا نفی کرو گے تو نہ توبہ قبول ہوگی اور نہ معافی ملے گی۔ یاد رکھو جہنم کا عذاب بہت سخت اور بہت دکھ دینے والا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
Read Urdu column Senate ka Election by Dr Abdul Qadeer khan