شکریہ شکیل صاحب! – حامد میر
یہ ایک خوفناک وارننگ ہے۔ امپیریل کالج لندن نے 26؍مارچ کو جاری کردہ اپنی ایک ریسرچ رپورٹ میں کہا ہے کہ کورونا وائرس کا بروقت علاج دریافت نہ کیا گیا تو 2020ء میں چار کروڑ انسانوں کی ہلاکت کا خطرہ ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے تعاون سے تیار کی جانے والی اس ریسرچ رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس سے سات ارب انسان متاثر ہوں گے جن میں سے چار کروڑ مارے جا سکتے ہیں۔ قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ اس وقت دنیا کی آبادی سات ارب 80کروڑ انسانوں پر مشتمل ہے۔
دو سو سال پہلے تک دنیا کی آبادی ایک ارب سے زیادہ نہ تھی لیکن جیسے جیسے انسان کی طاقت میں اضافہ ہوتا گیا دنیا کی آبادی بڑھتی گئی۔ انسانی آبادی میں اضافے نے لالچ اور ظلم میں بھی اضافہ کیا۔ طاقتور لوگوں نے اپنے آپ کو ناقابلِ تسخیر سمجھنا شروع کر دیا اور کوئی اپنے ملک یا ادارے کیلئے ناگزیر قرار پایا لیکن آج وہ سب جو اپنے آپ کو ناگزیر اور ناقابلِ تسخیر سمجھتے تھے کورونا وائرس سے بھاگتے پھر رہے ہیں۔ سب کاروبار بند ہو رہے ہیں۔ صرف ایک کاروبار پھیل رہا ہے۔ یہ مردے دفنانے اور انکی آخری رسومات کے اہتمام کا کاروبار ہے۔
ہم نے کتابوں میں پڑھا تھا کہ اچھے لیڈر کی صلاحیتوں کا پتا بحران میں چلتا ہے اور اچھے حکمران کا پتا اس وقت چلتا ہے جب اُس کے پاس طاقت اور اختیار آ جاتا ہے۔
آپ دیکھئے سپر پاور امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی بیوقوفی سے نیویارک کو کورونا وائرس پھیلانے کا سب سے بڑا مرکز بنا دیا۔ جب کورونا سے لڑنے کا وقت تھا تو ٹرمپ اپنے میڈیا سے لڑ رہا رہا تھا۔ برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن میڈیا سے لڑائی میں دو قدم آگے چلے گئے۔
جب میڈیا نے کورونا وائرس کے خلاف موصوف کے اقدامات کو ناکافی قرار دیا تو بورس جانسن نے میڈیا کو نیچا دکھانے کیلئے ڈاکٹروں کی ہدایات کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا اور لوگوں سے ہاتھ ملانا شروع کر دیا۔ اب موصوف کورونا وائرس کا شکار بن چکے ہیں اور اپنے کمرے میں بند ہیں۔
میڈیا کے خلاف یہ احمقانہ جھگڑالو پن کئی طاقتور لوگوں کو عبرت کا نشان بنا رہا ہے۔ یہ وقت اتحاد قائم کرنے کا ہے لیکن کچھ حکمران اور اُن کے خوشامدی وزیر و مشیر قوم کو تقسیم کرنے میں مصروف ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ اور میں بھی اُن چار کروڑ افراد میں شامل ہوں جنہوں نے اس سال کورونا وائرس کا شکار ہونا ہے۔
ویسے بھی موت کسی بھی لمحے آ سکتی ہے لیکن اس وقت جب پوری دنیا کورونا وائرس کے حملے سے پریشان ہے تو پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اپوزیشن اور میڈیا کو زیر کرنے کے جنون میں مبتلا ہیں۔
یہ کوئی راز نہیں رہا کہ نیب اور ایف آئی اے کے علاوہ ایک سویلین انٹیلی جنس ایجنسی کے ذریعے اپوزیشن اور میڈیا کی اہم شخصیات کو کسی نہ کسی طریقے سے سبق سکھانے کے جواز تلاش کیے جا رہے ہیں۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جا چکے ہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کو بھی نیب نے 31مارچ کو لاہور میں طلب کر لیا ہے۔
نواز شریف کو جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کے خلاف بنائے گئے مقدمے کی انکوائری کے سلسلے میں طلب کیا گیا ہے حالانکہ نیب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ نواز شریف لندن میں ہیں اور پچھلے کئی دنوں سے حکومت پاکستان نے اپنی سرحدیں بند کر رکھی ہیں اور فلائٹ آپریشن معطل کر رکھے ہیں۔ نواز شریف پاکستان واپس نہیں آ سکتے۔
نیب کی طرف سے نواز شریف کی طلبی کا یہ نوٹس چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ اس ساری کارروائی کے پیچھے چیئرمین نیب نہیں کوئی اور ہے۔ چیئرمین نیب سب کچھ کر سکتے ہیں لیکن اتنی کج فہمی کا مظاہرہ نہیں کر سکتے کہ ملک کی سرحدیں بند ہوں اور وہ نواز شریف کو طلب کرتے پھر رہے ہیں۔ یہ کام تو انتقام کی آگ میں جلنے والا کوئی احمق ہی کر سکتا ہے جو میر شکیل الرحمٰن کو سلاخوں کے پیچھے بند کرکے اپنی انا کو تسکین دے رہا ہے اور اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ وہ ہمیشہ اقتدار میں رہے گا۔
اُسے شاید معلوم نہیں کہ اُس نے میر شکیل الرحمٰن کو سلاخوں کے پیچھے پھینک کر اُنکے قد میں بہت اضافہ کر دیا ہے۔ میری بات یاد رکھئے گا۔ ہم ایک اہم تاریخی دور سے گزر رہے ہیں اور کچھ عرصے کے بعد جب آج کا دور ماضی بنے گا تو آئندہ نسلوں کو یہی بتایا جائیگا کہ پاکستان کا ایک وزیراعظم عمران خان ہوا کرتا تھا، جب دنیا کورونا وائرس سے لڑ رہی تھی تو اُس نے پاکستان کے سب سے بڑے اخبار کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو ایک جھوٹے مقدمے میں گرفتار کرا دیا۔
کوئی اس گرفتاری کا الزام چیئرمین نیب پر نہیں ڈالے گا کیونکہ نیب اور اسکا چیئرمین کسی کو یاد نہیں رہیں گے۔ تاریخ میں صرف اُن لوگوں کو یاد رکھا جائیگا جنکے حکم سے ظلم ہوا اور وہ یاد رکھے جائینگے جنہوں نے ظلم کے سامنے سر جھکانے سے انکار کیا، تاریخ میں اُن منصفوں کو یاد رکھا جائیگا جنہوں نے مظلوموں کو انصاف دیا اور وہ سب بھی یاد رکھے جائینگے جو ایک عہد ستم میں کلمۂ حق بلند کرتے رہے۔
میر شکیل الرحمٰن اُس باپ کا بیٹا ہے جس نے تحریک پاکستان کے دوران قائداعظمؒ کی جنگ کو روزنامہ جنگ کا مشن بنایا۔ 1990ء میں روزنامہ جنگ کے پچاس سال پورے ہوئے تو اس اخبار کے بانی میر خلیل الرحمٰن نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ انہوں نے تحریکِ پاکستان کے زمانے میں اپنے اخبار میں لکھ دیا کہ مسلمانوں کو انگریزوں کی فوج میں بھرتی نہیں ہونا چاہئے تو انگریز سرکار نے انہیں ڈیفنس آف انڈیا رولز میں گرفتار کر لیا اور 23دن جیل میں رکھا۔
میر خلیل الرحمٰن انگریز سرکار کے عتاب کا نشانہ بنے اور میر شکیل الرحمٰن اُن حکمرانوں کے عتاب کا نشانہ بنے جو دیسی انگریزوں کی کرپشن ختم کرنے کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے اور آج کرپٹ لوگوں کے جھرمٹ میں بیٹھ کر انتقام کی سیاست کر رہے ہیں۔
کل میں عمران خان کی سوانح عمری دوبارہ پڑھ رہا تھا جو کچھ سال پہلے اُنہوں نے آٹو گراف کے ساتھ مجھے دی تھی۔ اس کتاب میں اُنہوں نے بار بار کیپٹل ٹاک میں اپنی حق گوئی کا ذکر کیا ہے۔ یہ کیپٹل ٹاک کہاں نشر ہوتا تھا؟
جیو نیوز پر۔ عمران خان اس شو پر اپنی باتیں کہہ کر چلے جایا کرتے تھے اور بعد میں میر شکیل الرحمٰن اور مجھے اُنکی حق گوئی کا خمیازہ بھگتنا پڑتا تھا لیکن شکیل صاحب نے مجھے کبھی نہیں کہا کہ بس کرو! بہت ہو گیا، اب عمران کو نہ بلایا کرو۔
جب عمران خان نے 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کو بےنقاب کرنے کیلئے مجھے سپریم کورٹ میں بلایا تو میں نے وہاں جاکر گواہی دے دی کہ ہاں دھاندلی ہوئی لیکن شکیل صاحب نے مجھے نہیں روکا۔ آج وہی میر شکیل الرحمٰن سلاخوں کے پیچھے ہے۔
اُنہیں اپنے بیمار بھائی میر جاوید رحمٰن کے پاس ہونا چاہئے تھا جو کینسر کا شکار ہیں لیکن وہ سلاخوں کے پیچھے ہیں کیونکہ اُنہوں نے سودے بازی سے انکار کیا اور تاریخ کی رائٹ سائڈ پر کھڑے ہو کر نئی تاریخ بنا رہے ہیں جس پر ہم فخر کرینگے۔ شکریہ میر شکیل الرحمٰن!
Source: Jung News
Read Urdu column Shukeriya Shakeel Sb By Hamid Mir