سیانوں سے بچیں! – ارشاد بھٹی
آج بات سیانوں کی، ایک سیانے کا کہنا، بیویاں محبت کرنے کیلئے بنائی گئی ہیں، سمجھنے کیلئے نہیں، اک سیانا کہے، چیونٹی کو لپ اسٹک لگانا، ہاتھی کو گود میں بٹھانا اور مچھر کو کپڑے پہنانا آسان لیکن بیوی کو سمجھانا مشکل، اک سیانا کہے، لفظ عجیب تو بنا ہی بیوی کیلئے، ویسے یہ بات سچ بھی لگے، بیویاں کمال کی عجیب، دوپہر کو پڑوسن سے شوہر کی برائیاں کررہی ہوں۔
شام کو شوہر سے پڑوسن کی، ایک بیوی پچھلے ایک گھنٹے سے لڑ رہی تھی جبکہ خاوند خاموش، اچانک کہنے لگی، میں تو کبھی نہ لڑوں، کیا کروں تمہاری گونگی بدمعاشی مجھے لڑنے پر مجبور کر دے، ایک بیوی نے شوہر سے کہا، میں کب سے پوچھ رہی ہوں تمہاری زندگی کی سب سے بڑی problemکیا ہے اور تم بس مجھے دیکھے جارہے ہو، یہ بیویوں کے دکھ وہی جانے جو بیویاں بھگت رہا۔
ایک بار انور مسعود نے منیر نیازی سے کہا ’’انسانی جسم میں دو چیزیں ایسی جنہیں کاٹیں تو لہو نہیں نکلتا‘‘ منیر نیازی نے پوچھا، کون سی، انور مسعود نے کہا ’’بال اور ناخن‘‘ تھوڑی دیر سوچ کر منیر نیازی نے کہا ’’انور توں ساڈے پنڈ دانائی نئیں ویکھیا‘‘ انور مسعود ہی بتائیں کہ ان کے رشتے داروں میں ایک بزرگ کی حسِ مزاح کمال کی۔
ایک مرتبہ صبح ناشتے کے وقت بہو نے کہا ’’چاچا جی میں تہانوں انڈا بنا دیاں‘‘ یہ بزرگ بولے ’’نئیں پتر توں مینوں بندہ ای رہن دے‘‘ دوستو، شادی کے بعد کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز، سب خاوند ہوئے۔
صاحبو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ کی زندگی میں کوئی سیانا نہ ہو، یہ سیانا آپ کا دوست ہو سکتا ہے، دفتر، جم کا ساتھی ہو سکتا ہے، کوئی رشتہ دار، محلے دار ہو سکتا ہے، یہ ہر بات پر گیان بانٹے گا، بات بات پر نصیحت کرے گا، ہر واقعے، حادثے، سانحے پر لیکچر دے گا۔
اکثر سیانے ایسے، خود بیمار، چلنے سے قاصر، لیکچر دے رہے ہوں گے صحت مند زندگی کیسے گزاری جا سکتی ہے، اپنے سر پر ایک بال نہیں، آپ کو بال گھنے کرنے کی ترکیبیں بتا رہے ہوں گے، خود 15جگہوں سے نکالے جا چکے ہوں گے، آپ کو کامیاب زندگی گزارنے کے طریقے بتا رہے ہوں گے، خود ہر شعبے میں ناکام، آپ کو ترقی کے زینے چڑھا رہے ہوں گے۔
کچھ سیانے تو ایسے جو صرف اس وجہ سے سیانے کہ آپ سے پہلے اس دنیا میں آگئے، ہر سیانا کہانی باز، داستاں گو، اک سیانا ملا، کہنے لگا، تم تو مزے کر گئے، ہمیں دیکھو، اسٹریٹ لائٹ میں پڑھتے تھے، ساری ساری رات موم بتی کی روشنی میں پڑھائی کی، کہا، آپ دن کو کیوں نہیں پڑھتے تھے، راتوں کو اسٹریٹ لائٹوں، موم بتیوں میں دھکے کھانے سے بہتر دن میں پڑھ لیتے، یہ برا مان گئے، ایک سیانا ملا، کہنے لگا، تم تو موجیں کر گئے، ہم سے پوچھو، روز اسکول جانے سے پہلے ندی عبور کرتے تھے۔
سخت سردیوں میں روزانہ ٹھنڈے پانی کی ندی عبور کرنا، کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہوتا، پوچھا، آپ سمیت کتنے بچے روزانہ ندی عبور کر کے اسکول جاتے تھے، بولے، ڈھائی سو بچے، کہا، آپ کے اسکول میں کتنے ٹیچر تھے، بولے، ایک، کہا، آپ ایک استاد کو ندی کے اس طرف بلا لیتے، ڈھائی سو بچوں کی روزانہ سوئمنگ سے تو جان چھوٹ جاتی، یہ سیانا بھی برا منا گیا۔
ایک سیانا ہمارے جم میں بھی، یہ جم میں ورزش کم، ہماری نگرانی زیادہ کرے، جہاں دو لوگ بات کر رہے ہوں، سب چھوڑ چھاڑ کر اگلے ہی لمحے وہاں آپہنچے، عجیب وغریب طبیعت کا مالک، لوگوں کو وٹس ایپ میسجز بھیجے اور ان کے پڑھنے سے پہلے میسج deleteکردے۔
لوگ فون کر کر پوچھتے رہیں، کیا بھیجا تھاجو deleteکر دیا، یہ خوش ہوتا رہے کہ کیسے بےوقوف بنایا، ایک بار ایک دوست نے جب دکھی ہو کر بتایا کہ مجھے میری گرل فرینڈ چھوڑ گئی تو یہ سیانا بولا۔
اس میں دکھی ہونے والی کیا بات، تمہیں تو یہ سوچ کر خوش ہونا چاہئے کہ تمہاری زندگی میں کوئی لڑکی آئی تھی، ایک بار چوتھی منگنی ٹوٹنے پر ایک غم زدہ دوست نے کہا، مجھے تو ایسے لگے میں سنگل ہی مروں گا، تو یہ سیانا بولا، اس میں دکھی ہونے کی کیا بات، سب کو سنگل ہی مرنا ہے، خود یہ ایسا میسنا ایک دن ہم نے اس سے کہا ’’اگر تمہاری شادی دو جڑواں بہنوں میں سے ایک سے ہو جائے تو تم اپنی بیوی کو کیسے پہچانو گے‘‘ یہ بولا ’’میں پاگل تھوڑا ہوں جو پہچانوں گا‘‘۔
دو سیانے ایک تقریب میں عالمِ مدہوشی میں جھومتے جھامتے پانی پینے لگے، گلاس الٹا پڑا تھا، ایک بولا، اس گلاس کا تو منہ ہی نہیں ہے، دوسرا بولا، اور نیچے سے ٹوٹا ہوا بھی ہے، اکثر سیانے فزکس جیسے، کسی کسی کو سمجھ آئیں، ہمارا ایک سیانا دوست کہے، ہر پرانی چیز قیمتی ہوتی ہے، حتیٰ کہ پرانا جھوٹ بھی نئے سچ سے زیادہ قابلِ اعتماد ہوتا ہے۔
یہاں مہاتما بدھ یاد آئیں، جن کا کہنا، انسان کا سب سے بڑا دشمن جھوٹ اور انسانی خواہشات، مہاتما بدھ کا یہ بھی کہنا، اگر دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے مجھ سے پوچھا جاتا یا مجھے چوائس ملتی تو میں بوڑھا پیدا ہوتا اور بچہ ہو کر مرتا۔
یہاں استادوں کے استاد مشتاق یوسفی یاد آگئے، ان کا کہنا، بچہ بنے رہو، بیوی سمیت 99مصیبتوں سے بچے رہو گے، ویسے مشتاق یوسفی کے کیا کہنے، جو ملک جتنا زیادہ غربت زدہ ہوگا، اتنا ہی آلو اور مذہب کا چلن زیادہ ہوگا، ہم نے سوچا تھا کراچی چھوٹا سا جہنم ہے، جہنم تو بڑا سا کراچی نکلا، ہارا ہوا مرغا کھانے سے آدمی اتنا بودا ہو جاتا ہے کہ حکومت کی ہر بات درست لگنے لگتی ہے، آسمان کی چیل، چوکھٹ کی کیل اور کورٹ کے وکیل سے خدا بچائے، ننگا کر کے چھوڑتے ہیں۔
ایسے جملے یوسفی صاحب ہی لکھ، کہہ سکتے ہیں، دیکھئے بات کہاں سے کہاں نکل گئی، ذکر کر رہا تھا سیانوں کا، دوستو جیسے گورکن اگر ہر میت پر آنسو بہانے بیٹھ جائے تو رو رو اندھا ہو جائے ویسے ہی بندہ اگر سیانوں کی ہر بات سننا شروع کر دے تو نیم پاگل ہو جائے۔
لہٰذا پہلی فرصت میں سیانوں سے بچیں اور سیانوں سے بچنے کا بہترین طریقہ، سیانوں کی حوصلہ شکنی کریں، کیونکہ تماشے میں جان تماشائی کی تالی سے پڑتی ہے، مداری کی ڈگڈی سے نہیں۔
سیانوں کو سیانے پن کی ڈگڈی بجانے دیں، بس آپ اپنی تالی پر کنڑول رکھیں، ویسے بھی سیانوں سے کیا متاثر ہونا، عقلیں چھوٹی ہوں تو زبانیں لمبی ہو ہی جاتی ہیں۔
Source: Jung News
Read Urdu column Siyano se bachain By Irshad Bhatti