سوچوں! -ارشاد بھٹی
رات کے 2 بج رہے، کاغذ، پین لئے بیٹھا سوچ رہا، کیا لکھوں، بیمار نواز شریف کی ضمانتیں، ای سی ایل سے نام نکلنے، لندن روانگی پر لکھوں یا 17روپے کلو ٹماٹر، 5روپے کلو مٹر بیچتی حکومت پر لکھوں، پلان اے کی خجل خواری کے بعد پلان بی کا لاشہ اٹھائے سڑکوں پر مولانا پر لکھوں یا مہنگائی، بیروزگاری میں نکو نک ڈوبی گونگی، بہری قوم پر لکھوں، سوچوں، چھوڑو، کیا لکھنا۔
پہلے اتنا لکھا، کیا اکھاڑ لیا، اب لکھنے سے کون سا انقلاب آ جانا، نہ لکھوں، کون سی قیامت آ جانی، سوچوں، خوشی کی بات، بیمار نواز شریف کو بالآخر من مرضی علاج کا آپشن مل گیا، وہ اپنے ڈاکٹر لارنس کے پاس لندن جا رہے، لیکن جہاں بحیثیت پاکستانی پاناما لیکس سے ہفتے کے روز ای سی ایل سے نام نکلنے تک شرمندگی ہی شرمندگی۔
وہاں یہ ڈبل شرمندگی کہ 2 دفعہ وزیراعلیٰ، 3مرتبہ وزیراعظم لیکن پاکستان میں ایک ڈاکٹر نہیں جو علاج کر سکے، ایک اسپتال نہیں جہاں سے علاج ہو سکے، قائداعظم کی کیا مثال دینی، وہ تو لیڈر، بیمار ہوئے، بسترِ مرگ پر، باہر علاج کے مشورے، سب رد کر دیے، اپنے ملک میں علاج کروایا۔
قائداعظم کی کیا مثال دینی، وہ بڑے انسان، ہم سے تو دشمن ملک کی آنجہانی سشما سوراج اچھی نکلیں، گردے فیل ہوئے، مرنے کے قریب، سب کا مشورہ باہر علاج کا، بولیں، اپنے ملک میں علاج کراؤں گی، باہر علاج کروانے چلی گئی تو میرے ملک کے لوگوں کا اسپتالوں، اپنے ڈاکٹروں سے اعتبار اُٹھ جائے گا۔
سوچوں، اپنا کیا بے مثال نظام، کرپشن کے ملزم نے کرپشن کے مجرم کی ضمانت دی اور ضمانت ہوگئی، ون ٹائم ای سی ایل سے نام ہٹا، چار ہفتے کا وقت، جو بڑھ سکتا ہے اورجو بڑھے گا، صورتحال یہ، شریف برادران لندن پہنچیں گے اور دونوں کے مفرور بیٹے حسن، حسین، سلمان ہمراہ مفرور اسحاق ڈار، علی عمران ریسیو کریں گے، عین ممکن نواز شریف لندن سے امریکہ بھی جائیں، عین ممکن اگلے مرحلے میں مریم نواز بھی چلی جائیں۔
سوچوں، لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ، تحریک انصاف، مسلم لیگ دونوں کو فیس سیونگ مل گئی، تحریک انصاف تو بلکہ یہ کہہ سکتی ہے کہ ہم نے تو ڈھیل دی نہ سمجھوتا کیا، انہیں عدالتی ریلیف ملا وہ بھی ایسا کہ ون ٹائم جانے کی اجازت چار ہفتے کی مہلت، بیان حلفی، سارے مطالبات تو ہمارے مانے گئے سوائے شیورٹی بانڈ کے۔
مسلم لیگ والے کہہ سکتے ہیں، نو این آر او، ڈیل، ڈھیل، نو سیکورٹی شورٹی بانڈ، عدالت گئے، ریلیف لیا، جہاں تک بات فیصلے کی، جب سے یہ فیصلہ آیا، ایسے ایسے تبصرے، ایسی ایسی سازشی تھیوریاں، توبہ توبہ، یار لوگ تو کڑی در کڑی ملاتے سول، ملٹری تعلقات تک جا پہنچے، حکومت تبدیلی کیلئے فروری۔
مارچ کی تاریخیں دی جا رہیں، بہنو تے بھراؤ، افواہیں نہ پھیلاؤ، یہاں کچھ بھی ہونا ناممکن نہیں لیکن ابھی تک کچھ ایسا ویسا نہیں، ہاں یہ ضرور احتساب بڑی تیزی سے گالی بنتا جا رہا، آئین، قانون، فیصلوں بارے کچھ پوچھنا ہو تو گلی، محلے، بازار میں نکل جائیں، عوام کی سن کر ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔
سوچوں، دو نظام کی بنیاد رکھی جا چکی، کیس نہیں فیس دیکھے جا رہے، مرحلہ در مرحلہ نظام سے اعتبار اُٹھ رہا، سوچوں، جان ہتھیلی پر رکھ کر 10والیمز پاناما جے آئی ٹی کیا سوچ رہی ہوگی۔
سوچوں اپنے اور خاندان کی جانیں خطرے میں ڈال کر جعلی اکاؤنٹس، منی لانڈرنگ کے 25والیمز ڈھونڈ نکالنے والی جے آئی ٹی کیا سوچتی ہوگی، کہیں سب اپنے یا ایک دوسرے کے بال تو نہیں نوچ رہے، کبھی ہنس کبھی رو تو نہیں رہے، انہیں ان کے جاننے والے یہ تو نہیں کہہ رہے، بھائیو یہ جھک مارنے کی وجہ؟
سوچوں، زندگی میں پہلی بار کسی کی انگلی پکڑے بنا گھر سے نکلے مولانا ابھی تک گھر واپس نہ پہنچ پائے، زہریلے مشیروں، چرب زبان ساتھیوں نے غبارے میں اتنی ہوا بھری کہ مولانا خود کو چی گویرا، مائوزے تنگ سمجھ کر کراچی سے اسلام آباد آئے، آدھ درجن ہوائی بڑھکیں اور پھر پانی کا بلبلہ، اب یار لوگ انہیں یوں گلیمرائز کر رہے، کریڈٹ دے رہے کہ مولانا نہ آتے تو نواز شریف علاج کیلئے نہ جا پاتے۔
مولانا نہ آتے، بارش نہ ہوتی، زہریلی اسموگ میں کمی نہ ہو پاتی، مولانا نہ آتے قوم خراٹے مار نیند میں ہی رہتی، مولانا نہ آتے آئین، جمہوریت کی تشریح ادھوری رہ جاتی، ایسا سماں باندھا جا رہا کہ اب ا گلے چار سالوں میں جو کچھ بھی ہوگا، اس کا کریڈٹ مولانا کو جائے گا، بلکہ ابھی چند دنوں بعد جب ٹماٹر سستے ہوں گے، تب بھی یہ کریڈٹ مولانا کو ہی جائے گا، یہ کوئی نہیں بتا رہا کہ اپنی غلطیوں کی بدولت مولانا ناکام لوٹ چکے۔
غلطیاں کیا، پہلی غلطی خود کو انقلابی سمجھ لینا، دوسری غلطی جھوٹا مذہبی کارڈ اور مذہبی فتوے، تیسری غلطی سولو فلائٹ، چوتھی غلطی وزیراعظم استعفیٰ، نئے الیکشن جیسے ناممکن مطالبے، پانچویں غلطی وزیراعظم گرفتاری، پاکستان کو فارغ کرو، لاشیں گریں گی جیسی بڑھکیں، دعا یہی مولانا چھٹی غلطی نہ کریں۔
سوچوں، 17روپے کلو ٹماٹر، 5روپے کلو مٹر، وزیر یہ کہہ سکتے ہیں، وزیر خزانہ یہ فرما رہا، سبزی منڈی میں 17روپے کلو ٹماٹر مل رہے، جاکر خرید لو، یہ بات تو وہی کر سکے جو ہوش حواس میں نہ ہو، اندازہ کریں اس بھائی نے ہم غریبوں کی غربت دور کرنی، ہمیں ریلیف دینا، لیکن جو زمینی حقائق سے اتنا بے خبر، اس نے سیاہ تے مٹی غریبوں کیلئے کچھ کرنا، کیسے کیسے نمونے بھگتنا پڑ رہے۔
سوچوں، وزیر ہوا بازی غلام سرورجو گیزر کو لگژری آئٹم قرار دے چکے، وہ فرما رہے، کیا مہنگائی، مہنگائی لگا رکھی، 5روپے کلو مٹر مل رہے، یہی نہیں، اوپر سے فردوس عاشق اعوان قوم کو تفصیلاً آگاہ کر چکیں کہ 5روپے کلو مٹر کہاں سے اور کیسے ملتے ہیں، دو چار ماہ پہلے خیبر پختونخوا کے مردِ مجاہد مشتاق غنی فرما چکے کہ حالات ٹھیک ہونے تک دو روٹی کھانے والے ایک روٹی کھائیں۔
سوچوں، نابینا سڑکوں پر بیٹھے، فنکاروں کے وظیفے بند، سرکاری اسپتالوں میں دوائیاں ندارد، سرکاری اسکولوں کا برا حال، سرکار کے سستے یوٹیلٹی اسٹوروں کو تالے لگ رہے، مہنگائی، بیروزگاری نے ستیاناس کر دیا، ٹیکسوں کی بھرمار، انصاف کا جو حال وہ آپ سانحہ ماڈل ٹاؤن اور سانحہ ساہیوال کے نتیجے سے اندازہ لگا لیں، پٹوار، پولیس اصلاحات، باقی سب وعدے، نعرے اور اوپر سے 17روپے کلو ٹماٹر اور 5روپے کلو مٹر۔
سوچوں، یہ ان کی نالائقی کا جمعہ بازار ہی ہوگا، جہاں ٹماٹر 17اور مٹر 5روپے کلو ملتے ہوں گے۔
Source: Jung News
Read Urdu column Sochun By Irshad Bhatti