سوشل میڈیا عفریت اور عوام – حسن نثار
بظاہر بہت معمولی، بے ضرر اور سادہ سی باتیں بہت کچھ ایکسپوژ کر دیتی ہیں۔ مثلاً اچھا اصا ڈیسنٹ معقول گھر ہو گا لیکن گھر کے ٹیرس پر ہر قسم کے کپڑے بھونڈے، بیہودہ انداز میں سکھانے کے لئے پھیلا رکھے ہوں گے اور اہل خانہ کے وہم و گمان تک میں نہ ہو گا کہ یہ ’’حرکت‘‘ آنے جانے والوں کو کیا پیغام دے رہی ہے۔
اسی طرح کبھی غور فرمائیں۔ ڈرائیور گھر کے عین سامنے گاڑی دھونے کے بعد اسے خشک کر رہا ہے جبکہ پانی کا پائپ اس نے انتہائی بے نیازی سے سڑک پر پھینکا ہوا ہے جس سے پانی جیسی قیمتی اور کم ہوتی ہوئی متاع ہی ضائع نہیں ہو رہی بلکہ سڑک کا بھی ستیاناس ہو رہا ہے کیونکہ کھڑا پانی سڑک کے لئے زہر قاتل سے کم نہیں ہوتا۔
بارہ چودہ برس کے بچوں کو موٹر سائیکل لے دینے کے بعد ڈفر قسم کا ڈیڈی کم سن برخوردار کو موٹر سائیکل چلاتا دیکھ کر خوشی سے پھولا نہیں سما رہا ہوتا تو بندہ یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ ﷲ پاک! یہ کس قسم کا باپ ہے جسے نہ اپنے بیٹے کی پروا ہے نہ دوسروں کی اولاد سے کوئی دلچسپی۔
اک اور لعنت ’’ہوم ڈلیوری‘‘ اور آن لائن خریداری وغیرہ ہے۔ ڈلیوری بوائز کو ان کی کمپنیاں اتنی تمیز بھی نہیں سکھاتیں کہ موٹر سائیکل سڑک کے درمیان کھڑا کر کے ادائیگی کا انتظار بدتمیزی ہے، ٹریفک کے لئے نامناسب ہے۔ میں سٹڈی روم میں ہوں تو سکرینیں سامنے ہوتی ہیں جس سے باہر کا منظر پوری طرح دکھائی دیتا ہے۔ شروع شروع میں فون کر کے ملازموں کو کہنا پڑتا تھا کہ اس جانور کو سمجھائو، سائیڈ پر موٹر سائیکل پارک کرے۔ پھر اپنے لوگوں کو سمجھایا کہ ڈلیوری بوائز کو سڑک کے کنارے لگائیں تاکہ ٹریفک میں خلل نہ پڑے۔
ایسے ذمہ دار باپوں کی بھی کمی نہیں جو بارہ چودہ سال کے بچے کو گود میں بٹھائے، سٹیرنگ اس کو تھمائے ’’صورتحال‘‘ سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔ پارکس میں واک کے لئے آنے والی کچھ بیبیوں نے لٹرز کے حساب سے پرفیوم اپنے اوپر انڈیل رکھا ہوتا ہے۔ جاگنگ ٹریک پر بہت کم لوگ اس بات کو اہمیت دیتے ہیں کہ دائیں یا بائیں رہیں تاکہ جاگنگ کرنے والوں کو کسی قسم کا تردد نہ ہو۔ یہ اور ایسی لاتعداد دیگر بدصورتیاں دیکھ کر سیانوں کا وہ قول یاد آتا ہے کہ تعلیم اور تمول تقریباً چوتھی نسل میں اپنا آپ دکھانا شروع کرتی ہیں اور اگر یہ سچ ہے تو پھر یہ حقیقت بہت ہی تکلیف دہ ہے کہ ہمارا پینڈا بہت ہی لمبا ہے۔ نہ کبھی نومن تیل پورا ہو گا نہ رادھا ناچے گی بلکہ پورے معاشرے کو تگنی کا ایسا ناچ نچائے گی کہ دنیا بھر کے رقاص اس ’’رقص بسمل‘‘ کو دیکھتے رہ جائیں گے۔
بڑا حوصلہ ہے ان لوگوں کا جو یہ سب کچھ جانتے ہیں اور اس کے باوجود لچھے دار تقریریں کرنے کے بعد بے حسی کے بستر پر خراٹوں کا آکسٹرا بجانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ان بدبختوں کو اپنی اننگ کے سوا اور کسی بات سے قطعاً کوئی سروکار نہیں۔ انہیں اس بات سے قطعاً کوئی تعلق نہیں کہ آج سے 75,70,60سال بعد کی دنیا کہاں پہنچ چکی ہو گی؟ کیسی ہو گی اور تب ’’پاکستانی معاشرہ‘‘ کس حال میں ہو گا؟
کیا اپنے گزشتہ 73سال دیکھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا خاصا آسان نہیں، نوشتۂ دیوار نہیں کہ آئندہ 73سال بعد ہم کہاں ہوں گے؟ اقوام عالم میں ہمارا مقام کیا ہو گا…خاص طور پر ان حالات میں جب چین جیسا ہمسایہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہو گا تو کیا اس وقت بھی ہمارا کوئی ٹٹ پونجیا زور زور سے یہی ورد کر رہا ہو گا کہ ’’چین کے ساتھ ہماری دوستی شہد سے میٹھی، سمندروں سے گہری، پہاڑوں سے اونچی اور فولاد سے مضبوط ہے‘‘۔ ملک نہ ہوئے لیلیٰ مجنوں ہو گئے۔ اور تو چھوڑیں میں 75 سال بعد اقبال کے شاہینوں کی تعداد پر غور کرتا ہوں تو آسمان دکھائی دینا بند ہو جاتا ہے۔
قارئین!
ایک مختصر سی رپورٹ کی جھلکیاں پڑھنے پر یہ سارے رونے یاد آ گئے کہ جنہیں اپنے بنیادی ترین تضادات، سانحات، مشکلات کی اے بی سی کا علم نہیں، انہیں اس بات سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے کہ سوشل میڈیا جیسا عفریت عوام کے ساتھ کیا کر رہا ہے؟ مسئلہ ’’مقامی‘‘ نہیں کثیر القوی ہے لیکن سچ مچ زندہ قومیں تو زندگی کا ثبوت دیتی اور بروقت ری ایکٹ بھی کرتی ہیں جبکہ ہم جیسے ’’آوے ای آوے جاوے ای جاوے‘‘ ٹائپ لوگ تو سانپوں کے نکل جانے بعد بھی لکیریں نہیں پیٹتے بلکہ نئے ناگوں، ناگنوں اور اژدھوں کی تلاش میں روانہ ہو جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا ایک بھیانک نشے کی مانند بچوں سے لے کر بوڑھوں تک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ گھر کے ملازم بھی حیرت انگیز طور پر اس کے سحر میں جکڑے آدھی آدھی رات تک جاگتے ہیں سوشل میڈیا انتہائی خطرناک قسم کی ناقابل بیان ’’تنہائی‘‘ کو جنم دیتے ہوئے بیشمار صلاحیتوں کے لئے زنگ کا سا کام کر رہا ہے۔ احساس کمتری سے لے کر خیالی دنیا میں خیالی پلائو بنانے میں مصروف ان معذوروں کا مستقبل کیا ہے؟
لیکن جنہیں ’’حال‘‘ کی پروا نہیں…..ان سے ’’مستقبل‘‘ بارے پوچھنا تو خود جہالت کی معراج ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
Source: Jung News
Read Urdu column Social Media Afriat aur Awaam By Hassan Nisar