سپیس! – علی معین نوازش
اپوزیشن کی گوجرانوالہ اور کراچی کی ریلیاں صرف کامیاب نہیں تھیں بلکہ یہ پی ڈی ایم کے لئے ایک بہترین آغاز ثابت ہوں گی۔ حکومت میں بیٹھے لوگ تو یہی کہیں گے کہ یہ شو فلاپ ہو گیا۔ جو پچھلی حکومت کے کرسیاں گننے پر اُس کا مذاق اُڑایا کرتے تھے اب وہ خود کرسیاں گن کے ثابت کر رہے ہیں کہ اِن ریلیوں میں لوگوں کی اصل تعداد کتنی تھی لیکن اگر اپوزیشن اور حکومت دونوں کی بیان بازی سے بالاتر ہو کر حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ نظر آرہا ہے کہ حکومت کے خلاف ایک منفی احساس عوام میں موجود ہے۔
حکومت یہ بیانیہ پیش کرتی ہے کہ سارے ’’چور‘‘ اکٹھے ہوکر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہم اُنہیں ’’این آر او‘‘ نہیں دیں گے، دوسری طرف اپوزیشن کا بیانیہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ ہے، اُن کا موقف ہے کہ یہ سلیکٹڈ وزیراعظم ہے، ہمارا مینڈیٹ چوری کرکے اُسے اقتدار دیا گیا ہے لیکن دراصل عوام میں دونوں بیانیے ہی مقبول نہیں ہیں۔ عوام کو اِس وقت صرف اپنی معاشی حالت سے غرض ہے جو روز بروز مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔
معاشی طور پر پچھلے دو سال عوام کے لئے بہت مشکل رہے ہیں۔ آٹے اور چینی کی قیمت، بجلی اور گیس کے بل، روزگار کے مواقع میں کمی اور روپے کی گرتی ہوئی قدر نے لوگوں کا جینا مشکل بنا دیا ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے مشکلات مزید بڑھ گئیں ہیں۔ اب حکومت اور اُس کے نمائندے یہ سارا ملبہ پچھلی حکومتوں پر ڈالتے ہوئے جواب دیں گے کہ جب ہمیں اقتدار ملا تو ملک کا دیوالیہ نکل چکا تھا، ہر جگہ کرپشن اور بدعنوانی تھی۔ پہلی بات کہ عوام یہ تو ضرور سوچیں گے کہ گزشتہ دو سال سے زائد عرصے میں، جب سے پی ٹی آئی برسر اقتدار آئی ہے، کچھ نہ کچھ تو اُن کے لئے اچھا ہوا ہوتا اور اگر اچھا نہیں ہوا تو مزید خراب کیوں ہوا ہے؟ دوسری بات یہ کہ عوام اِس طرح نہیں سوچتے کہ ماضی میں کون حکمران تھا اور اُس نے کیا کیا، وہ دیکھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کس کی ہے اور اُن کے حالات کیسے ہیں؟
کرپشن اور چوروں والا حکومت کا بیانیہ اب صرف اُس کے قریب ترین حامیوں کے علاوہ کہیں اور مقبول نہیں ہو سکتا کیونکہ اب تو ماضی کے حکمران اور اُن کی حکومتیں قصۂ پارینہ ہوچکی ہیں، وہ لوگ حکومت میں نہیں ہیں اور اُن کے جیل میں ہونے یا نہ ہونے سے بھی عوام کی موجودہ معاشی حالت پر فرق نہیں پڑے گا۔ ہو سکتا ہے عوام یہ بھی کہیں کہ جتنی توانائی حکومت اُدھر لگا رہی ہے، اگر ہمارے مسائل حل کرنے میں لگائے تو شاید ہماری زندگیاں آسان ہو سکیں۔دوسری طرف ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا معاملہ بھی کوئی عوام کی ترجیحات میں اتنا اہم نہیں ہے لیکن چونکہ اُن کے مسائل اور اُن کی معاشی بدحالی کے خلاف آواز اُٹھانے کا پلیٹ فارم ابھی تک صرف اپوزیشن نے فراہم کیا ہے اور بار بار مہنگائی اور گورننس کے مسائل کی بات کرتی ہے تو اِس وقت لوگ اپنے خیالات کو اُن کے زیادہ قریب سمجھتے ہیں۔
اگر پی ٹی آئی نے عوام کی نظر میں ڈیلیور کیا ہوتا اور ڈیلیور کا مطلب وہ کتابی باتیں نہیں جو زیادہ تر عوام کی سمجھ میں ہی نہیں آتیں، جیسا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ وغیرہ بلکہ ڈیلیور کرنے کا مطلب یہ ہے کہ عوام کو خوشحالی ملتی، اُن کی معاشی حالت بہت مشکل ہونے کے بجائے آسان ہوتی تو اپوزیشن کی بات کسی نے بھی نہیں سننا تھی اور اُن کو سپیس ہی نہ ملتی۔ اگر حکومت نے اپوزیشن کی سیاست ختم کرنی تھی تو اِس کا واحد حل گورننس اور ڈیلیوری تھا لیکن اب تو عوام کے کچھ حلقے یہ بھی سوچتے اور کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت پچھلی حکومتوں سے بھی برا پرفارم کر رہی ہے کیونکہ پی ٹی آئی نے الیکشن سے پہلے ہی اپنے لئے معیار بہت اونچا سیٹ کر لیا تھا، اِسی لئے اُن کے لئے خراب پرفارمنس زیادہ نقصان دے ثابت ہو رہی ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ کرپشن کے الزامات، مقدمات اور جیلوں سے کسی کی سیاست ختم نہیں ہوئی، اگر عمران خان نے نواز شریف اور آصف زرداری کی سیاست ختم کرنا تھی تو ایسی ڈیلیوری کرنا چاہئے تھی کہ لوگ کسی متبادل کے بارے میں سوچتےہی نہ، جیسے ملائیشیا میں مہاتیر محمد نے کیا۔ پاکستان کی تاریخ یہ ضرور رہی ہے کہ مہنگائی اور عوام کی زندگیوں میں مشکلات سے حکومتوں کے لئے اقتدار میں رہنا اور دوبارہ برسر اقتدار آنا بہت مشکل ہو گیا۔
اپوزیشن کو سپیس ملنے میں پی ٹی آئی کی حکومت کا خود بڑا ہاتھ ہے اور اِس بات کا احساس ابھی تک پی ٹی آئی کو نہیں ہو رہا۔ اگر پی ٹی آئی کو لگتا ہے کہ یہ سپیس اپوزیشن کو احتساب کا نشانہ بنا کر واپس لی جا سکتی ہے تو یہ اُسکی بھول ہے۔ عوام اُس کو سپیس دے گی جو اُسکے ارمانوں کی عکاسی کرے گا۔ اِس وقت حکومت کی پرفارمنس بہتر نظر نہیں آرہی اور اپوزیشن ہی عوام کو اپنے معاشی مسائل کے حل کا واحد راستہ نظر آ رہی ہے۔ کسی بھی متبادل کی عدم موجودگی میں حکومت اب سپیس دے یا نہ دے، عوام اپوزیشن کو مزید سپیس دیتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن ڈر یہ لگتا ہے کہ اگر حکومت اور اپوزیشن دونوں نے ہی عوام کو سخت مایوس کر دیا تو پھر کیا ہوگا؟
Must Read Urdu column Space By Ali Moeen Nawazish
Source: Jang