اسپیشل ٹیلنٹ یونٹ- جاوید چوہدری

Javed Chaudhry

نیویارک کے مہنگے اور پوش علاقے مین ہیٹن میں پارسنز (Parsons) کے نام سے فیشن اسکول ہے‘ یہ 1896میں بنا تھا اور یہ فیشن اینڈ ڈیزائن میں دنیا میں پہلے نمبر پر آتا ہے‘ آپ اسے فیشن کی دنیا کا ہارورڈ یا آکسفورڈ کہہ سکتے ہیں‘ مجھے کل اس اسکول کا ’’اورینٹیشن فنکشن‘‘ اٹینڈ کرنے کا موقع ملا‘ فیشن کی اس ماسٹر کلاس میں دنیا بھر سے 21اسٹوڈنٹس ہیں‘ یہ صرف 21 کیوں ہیں؟ اس کی دو وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ اس کا میرٹ ہائی ہوتا ہے‘ صرف وہ طالب علم کوالی فائی کرتے ہیں جن کا سی جی پی اے چار میں سے چار ہوتا ہے اور یہ وہ طالب علم ہوتے ہیں جو گریجوایشن میں ڈیزائن اور فیشن میں مسلسل پہلی پوزیشن حاصل کرتے ہیں۔

آپ اس کی مثال یوں لے لیں‘ پاکستان کا سب سے بڑا اور پرانا آرٹس کالج این سی اے (نیشنل کالج آف آرٹس) ہے‘ ہر سال ہزاروں طالب علم پورے ملک سے اس میں اپلائی کرتے ہیں‘ کالج ان طالب علموں کا تحریری اور عملی ٹیسٹ لیتا ہے مثلاً ایک بچہ فائن آرٹ میں داخلہ لینا چاہتا ہے‘ اسے تحریری ٹیسٹ کے ساتھ ساتھ کوئی ایسا آرٹ پیس بھی بنا کر دینا پڑے گا جس سے ثابت ہو سکے اس میں واقعی آرٹ کی سینس موجود ہے۔

یوں کالج سیکڑوں ہزاروں اسٹوڈنٹس میں سے دس پندرہ طالب علموں کو سلیکٹ کرتا ہے اور اس کے بعد جو بچے مسلسل چار سال ہر سمسٹر میں ٹاپ کرتے ہیں، ان کا سی جی پی اے چار میں سے چار ہو گا‘ فیشن ڈیزائننگ کا معیار بھی یہی ہے لہٰذا پارسنز کی پہلی شرط گریجوایشن میں ہائی رینکنگ ہے اور یہ مشکل ہوتی ہے‘ دوسری وجہ یہ پرائیویٹ یونیورسٹی ہے اور اس کی فیس‘ رہائش اور نیویارک شہر کے اخراجات بہت زیادہ ہیں‘ فیشن ڈیزائننگ کا مٹیریل اور مشینری بھی بہت مہنگی ہوتی ہے چناں چہ 95 فیصد طالب علم صلاحیت‘ پوزیشن اور ہائی رینکس کے باوجود پارسنز کی تعلیم افورڈ نہیں کر پاتے اور اس وجہ سے ان کی ماسٹر کلاس میں پوری دنیا سے 20 سے 25 طالب علم آتے ہیں۔

میں کل جب اورینٹیشن کے لیے کلاس میں گیا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا اس کلاس میں بھارت کے نو طالبعلم تھے‘ ان میں 8 بچیاں اور ایک بچہ تھا اور ان میں سے 7 کا تعلق مڈل اور لوئر مڈل کلاس سے تھا اور یہ پہلی مرتبہ امریکا آئے تھے‘ چار بچیوں نے زندگی میں پہلی بار بھارت سے باہر قدم رکھا تھا‘ صرف ایک بچی کا تعلق بھارت کی ایلیٹ کلاس سے تھا‘ اس کا والد صنعت کار تھا جب کہ باقی تمام ان گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جو نسلوں سے چھپڑ پھٹنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

یہ بات میرے لیے حیران کن تھی‘ میں نے جب ان طالب علموں سے اپنی حیرت کا اظہار کیا تو میں مزید حیران ہو گیا‘ ان طالب علموں نے بتایا‘ بھارت میں حکومت نے پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ مل کر ایک انڈومنٹ فنڈ بنا رکھا ہے‘ اس میں اربوں ڈالرز پارک ہیں‘ غیرمعمولی صلاحیت کے حامل طالبعلم اگر اپنے شعبے کے ٹاپ فائیو انٹرنیشنل کالجز یا یونیورسٹیز میں داخلہ لینے میں کام یاب ہو جاتے ہیں تو انھیں اس فنڈ سے اسکالرشپ مل جاتا ہے‘ فیشن ڈیزائننگ اور پارسنز بھی اس فہرست میں شامل ہے‘ ہم سب نے جب پارسنز میں داخلہ لے لیا تو حکومت نے ہمیں دو سال کے لیے اسکالر شپ دے دیا‘ اب ہماری فیس‘ رہائش‘ خوراک اور اسٹڈی کا مٹیریل حکومت کی ذمے داری ہے‘ حکومت نے یہ فنڈ براہ راست یونیورسٹی میں جمع کرا دیا ہے اور یونیورسٹی اب ہماری پراگریس بھی براہ راست حکومت کو دے گی۔

مجھے یہ بھی بتایا انڈین حکومت نے فارن اسٹوڈنٹس کے لیے الگ ہائیر ایجوکیشن کمیشن بنا رکھا ہے‘ ہمارے جیسے طالب علموں کو یہ کمیشن ڈیل کرتا ہے‘ ہم بھارتی یونیورسٹیوں میں پوزیشن لینے کے بعد خود کو کمیشن میں ’’انرول‘‘ کرتے ہیں‘ کمیشن ہمیں دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کے بارے میں معلومات دیتا ہے اور ٹیسٹ اور انٹرویوز میں ہماری مدد کرتا ہے اور ہم اگر داخلہ لے لیں تو پھر یہ ہمیں امریکا‘ یورپ اور جاپان میں رہنے کی ٹریننگ بھی دیتا ہے‘ مجھے چنائے کی ایک بچی نے بتایا‘ ہمارا کارپوریٹ سیکٹر بھی ہماری مدد کرتا ہے‘ میں نے جب پارسنز میں داخلہ لیا تو مجھے چنائے کے ایک برینڈ نے جاب دے دی‘ میں اب ان کی دو ہزار ڈالر کی ملازم ہوں‘ یہ مجھے ہر ماہ نیویارک میں ہزار ڈالر دیں گے اور میرا ہزار ڈالر امانتاً اپنے پاس رکھ لیں گے‘ میں دو سال بعد ڈگری مکمل کر کے واپس جاؤں گی تو میں پانچ سال اس کمپنی میں ملازمت کی پابند ہوں گی‘ مجھے اپنے 24 ہزار ڈالرز بھی مل جائیں گے اور ساتھ ہی میری تنخواہ بھی شروع ہو جائے گی۔

یہ سن کر مجھے خوشی بھی ہوئی اور افسوس بھی‘ خوشی اس لیے ہوئی کہ بھارت کس طرح اپنی نئی نسل کو پروان چڑھا رہا ہے‘ آپ اگر امریکا‘ یورپ‘ آسٹریلیا‘جاپان حتیٰ کہ مڈل ایسٹ جائیں تو آپ کو تمام چھوٹے بڑے دفتروں میں بھارتی نظر آتے ہیں‘ یہ لوگ یہاں بھاری تنخواہوں پر کام کرتے ہیں‘ اس سے بھارت کو ’’فارن ریزروز‘‘ بھی ملتے ہیں اور بیرون ملک اس کے اثرورسوخ میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

بھارتی شہری اب امریکا کی سیاست‘ بینکاری اور کارپوریٹ سیکٹر کی پہلی صف میں شامل ہو چکے ہیں‘ بھارت مڈل ایسٹ کے شاہی خاندان کے قریب بھی پہنچ چکا ہے اور یہ کام اس کے طالب علموں نے کیا‘ بھارتی طالب علم مختلف شعبوں میں ٹاپ کرتے ہیں‘ حکومت انھیں اسکالر شپ دیتی ہے‘ یہ بیرون ملک پہنچتے ہیں‘ اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔’’فرسٹ ورلڈ‘‘ میں نوکریاں کرتے ہیں‘ پیسہ کماتے ہیں اور پھر ان ملکوں میں بھارت کی سفارت کاری کرتے ہیں جب کہ ہم پوری دنیا میں ان پڑھ مزدور بھجواتے ہیں اور یہ وہاں ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریبان ہوتے ہیں‘ چوری چکاری کرتے ہیں ‘ فراڈ کرتے ہیں اور ملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔

آج دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی کشتی یا جہاز ڈوبتا ہے یا دہشت گردی کی کوئی واردات ہوتی ہے تو اس میں سے کوئی نہ کوئی پاکستانی ضرور نکل آتا ہے‘ سعودی عرب اور یو اے ای نے بھی ہمارے لیے ویزے مشکل بلکہ ناممکن کر دیے ہیں‘ اس کی وجہ بہت افسوس ناک ہے‘ پاکستان سے ہر ماہ سیکڑوں بھکاری سعودی عرب اور یو اے ای جاتے ہیں‘ ان کی سڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں‘ لاکھوں روپے جمع کر کے واپس آتے ہیں‘ خوب عیش کرتے ہیں اور پھردوبارہ بھیک کا سیزن لگانے کے لیے جہاز پر بیٹھ جاتے ہیں‘ ہم نے یہ مکروہ دھندہ اب ایران میں بھی شروع کر دیا ہے۔

چنانچہ دنیا بھارت پر کھلتی جا رہی ہے جب کہ اس کے دروازے ہم پر بند ہوتے جا رہے ہیں‘ آج بھارت نے ’’ایجوکیشن ڈپلومیسی‘‘ کے ذریعے فرسٹ ورلڈ میں اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں‘ برطانیہ میں ان کا وزیراعظم تک بن گیا اور امریکا میں اب اگر کملا ہیرس صدر بن جاتی ہیں تو بھارت سپر پاور کا پرزہ بن جائے گا لیکن افسوس ہم ان چھوٹی چھوٹی اور عام فہم سی حقیقتوں سے بھی واقف نہیں ہیں‘ ہم اگر صرف دنیا کی ٹاپ یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے والے طالب علموں کو ہی سپورٹ کرنا شروع کر دیں تو خود سوچیں ملک کا امیج بھی کہاں سے کہاں پہنچ جائے گا اور ملک کے اندر بھی کتنی بہتری آ جائے گی؟۔

میں یہاں ارشد ندیم کی مثال بھی دوں گا‘ ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں جیولین تھرو میں گولڈ میڈل حاصل کر لیا‘ ہم نے اس کے بعد اس پر نوازشات کی بارش کر دی‘ اسے وزیراعظم کے خصوصی طیارے پر اسلام آباد لایا گیا‘ اسٹیٹ پروٹوکول دیا گیا‘ وزیراعظم نے اس کے ساتھ 14 اگست کو جھنڈا بھی لہرایا‘ اسے چاروں صوبوں میں پھرایا گیا‘ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اس کے گاؤں اورگھر گئیں اور اسے اب تک ایک ارب روپے کے قریب انعامات بھی دیے جا چکے ہیں‘ یہ ان سب کا حق دار تھا اور یہ اسے ملنی چاہیے تھیں لیکن سوال یہ ہے پیرس اولمپکس سے پہلے ہمارا اس کے ساتھ کیا رویہ تھا؟

حکومت نے اسے پروفیشنل جیولین تک لے کر نہیں دیا تھا‘آپ ارشد ندیم کا گھر اور نیرج چوپڑا کا گھر دیکھیں‘ ارشد ندیم کی پریکٹس اور سہولیات دیکھیں اور نیرج چوپڑا کی سہولتیں اور پریکٹس کا معیار دیکھیں ‘آپ کو دونوں قوموں میں فرق سمجھ آ جائے گا‘ بھارتی حکومت کسی بھی فیلڈ میں (وہ خواہ سائنس ہو‘ فیشن ہو‘ اداکاری ہو‘ بزنس ہویا پھر اسپورٹس ہو) خاص حدکو ٹچ کرنے والے تمام لوگوں کو ’’اون‘‘ کر لیتی ہے اور پھر اسے پالش کر کے سپراسٹار بنا دیتی ہے۔

جب کہ ہم ارشد ندیم کو عزت اور پیسہ دینے کے لیے اس کے گولڈ میڈل کا انتظار کرتے ہیں اور اس کا یہ نتیجہ نکلتا ہے ہم چالیس سال بعد ایک گولڈ میڈل لے پاتے ہیں اور اس پر بھی 21 توپیں چلاتے ہیں جب کہ یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے‘ ہم نے اب ارشد ندیم کو ایک ارب روپے دے دیے ‘کاش ہم اگر اس شعبے پر پانچ سال پہلے دس کروڑ روپے خرچ کر دیتے تو آج ہمارے پاس ارشد ندیم جیسے دس بارہ کھلاڑی ہوتے لہٰذا میری درخواست ہے حکومت ایک دو اسپیشل ٹیلنٹ یونٹ بنائے‘ ان کے لیے انڈومنٹ فنڈ بنائے اور اس کے بعد اسپورٹس میں ارشد ندیم جیسے نوجوانوں اور تعلیم میں ارفع کریم (مرحومہ) جیسے بچوں کو سپورٹ دے‘ ملک اس سے ترقی کرے گا اور دوسری درخواست ارشد ندیم کو جہازوں پر گھما کر اس کا کیریئر تباہ نہ کریں‘ اسے جیولین کی اکیڈمی بنا کر دے دیں تاکہ یہ اپنے جیسے مزید دس بیس نوجوان تیار کر سکے‘ ہم اسے پہلے محروم رکھ کر مار رہے تھے اور اب اسے سلیوٹ مار مار کر قتل کر رہے ہیں‘ ہم کل بھی غلط تھے اور ہم آج بھی غلطی کر رہے ہیں۔

Source: Express News

Must Read Urdu column Special Talent Unit By Javed Chaudhry

Comments are closed.