تماشا دکھا کر مداری گیا – اوریا مقبول جان
سو سال پہلے بسایا گیا شہر برباد ہونے جا رہا ہے۔ جدید سرمایہ دارانہ سودی نظام کا خوشنما، خوبصورت اور جاذب نظر چہرہ،شہری زندگی ہے۔ اس کی چکا چوند نے پوری دنیا کی آنکھوں کو ایک سو سال سے چندھیا ہوا تھا۔ وہ شہری زندگی جس کے بارے میں اللہ نے قرآن پاک میں خبردار کرتے ہوئے فرمایا تھا، ” دنیا کے شہروں میں خدا کے نافرمان لوگوں کی خوشحالی سے چلت پھرت تمہیں کسی دھوکے میں نہ ڈال دے۔ یہ محض چند روزہ زندگی کا تھوڑا سا لطف ہے، پھر یہ سب جہنم میں جائیں گے جو بدترین ٹھکانہ ہے” (آل عمران:197/196)۔ جدید سماجی علوم اور تہذیب و ثقافت کا سب سے بڑا موضوع ہی شہری زندگی (Urbanization) ہے۔ دنیا کے ماہرین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ اس کرہ ارض کے چہرے پر بڑے بڑے شہر، دراصل چیچک کے وہ داغ ہیں جنہیں رنگوں اور روشنیوں سے خوش نما، پر کشش اور مسحورکن بنایا گیا ہے۔ بڑے بڑے شہروں کی یہ زندگی اردگرد کے پرسکون علاقوں میں رہنے والوں کو کسی طلسم ہوشربا کے دروازے کے باہر کھڑی اپسراء کی طرح دکھائی دیتی ہے جس کے سحر میں گرفتار ہو کر وہ شہر کی زندگی کے اسیر ہو جاتے ہیں۔ جدید زندگی کا سب کچھ ہی تو شہر میں اکٹھا کر دیا گیا ہے۔ صحت، تعلیم، تفریح، تعیش، تماشہ، فن، یہاں تک کہ مذہبی مراکز بھی بڑے بڑے شہروں کی زینت بنا دیے گئے ہیں۔ ہر کسی کو اس کے ذوق کا سامان یہاں میسر آتا ہے۔ لیکن یہ شہری زندگی انسان سے اس کا بے ساختہ پن چھین لیتی ہے۔
اسے ایک مصنوعی زندگی کا اسیر کر دیتی ہے۔ سرمایہ کمانا، اور اس سے شہر کو مزید خوبصورت، جاذب نظر اور مسحورکن بنانا ہی شہری زندگی کا اصل مقصد ہوتا ہے۔ دنیا کا ہر بڑا جائز کاروبار یہیں ہوتا اور ہر ناجائز اور جرائم پیشہ دھندے کا مرکز بھی شہر ہی ہوتا ہے۔ منشیات فروشی سے لے کر جوئے کے اڈوں تک اور جسم فروشی سے لے کر انڈر ورلڈ قتل و غارت تک سب شہری زندگی کے تحفے ہیں۔ شہر اور تہذیبی مراکز کے آثار ہزاروں سالوں سے زمین پر موجود ہیں۔ یہی شہر جب زمین پر اللہ کی بادشاہی وحکمرانی کے منکر ہوئے اور ان کی آبادیاں متکبر ہو کر خود کو مالک حقیقی اور فرماروائے کل سمجھنے لگیں تو اللہ نے تیز آندھیوں، زلزلوں، چنگھاڑوں اور طوفانوں سے انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا اور آج یہ شہر عبرت سرائے دہر ہیں۔ پانچ ہزار پانچ سو سال قبل مسیح میسو پو ٹمیا آباد ہونا شروع ہوا، تو ایک ہزار سال بعد مصر منظرعام پر آیااور اس کے ڈیڑھ ہزار سال بعد ہڑپہ و موہنجوڈارو۔ایک شہر برباد ہوتااور دوسرا آباد ہو جاتا۔ وقت گذرا، دنیا آگے بڑھی تو زمین پر ایک سے زیادہ مراکز بنتے چلے گئے۔ رومی، ایرانی، چینی، ہندوستانی، یہ سب شہری زندگیاں رکھتے تھے۔ یہ سب مراکزِ اقتدار و تہذیب بھی تھے لیکن تہذیبی طور پر ایک دوسروں سے مختلف اور فاصلوں پر تھے۔ مگر گذشتہ سو سال سے دنیا میں جو جدید تہذیب و تمدن پروان چڑھائی گئی ہے اس نے پوری دنیا کو ایک بہت بڑے شہر میں تبدیل کر دیا ہے۔ کھانے پینے، ملبوسات، تفریح، تعلیم، علاج، رہائش، کاروبار، معیشت و معاشرت، سب کی سب یکساں اور ایک ہی سانچے میں ڈھال دی گئی ہیں۔ بنک کی عمارتوں سے کریڈٹ کارڈ تک، ذرائع آمدورفت سے خوراک اور تفریح تک، سب کچھ ایک جیسا ہے۔ یہ دنیا دراصل ایک بڑا گائوں نہیں بلکہ بڑا شہر ہے۔ گاؤں کی صدیوں پرانی زندگی مختلف ہوتی ہے اور وہ ویسے ہی چلی آرہی ہے، پرسکون، پراطمینان اور فکر و فاقے سے آزاد۔گاؤں کی دنیا جو محنت کرتی ہے، خود بھی اپنے لئے رزق اگاتی ہے اور دنیا پر بسنے والے شہری انسانوں کے رزق کا بھی بندوبست کرتی ہے۔ گذشتہ ایک ماہ سے، سو سال سے آباد اس شہری زندگی کا پر رونق بازار مکمل طور پر بند ہو چکا ہے۔ یہ بازار پہلے بھی کبھی کبھار کچھ دیر کیلئے بند ہوتا تھا لیکن اسے بند کرنے والی طاقتوں کو علم ہوتا تھا کہ وہ اسے کتنی دیر بعد کھولیں گے۔ یہ جنگوں میں اجڑتا، بند ہوتا ،اور تباہ بھی ہوتا،لیکن جنگ روکنا انسان کے بس میں تھا۔ بلکہ وہ تو جنگ کوبھی اکثر آمدن کا ذریعہ کاروبار کی وسعت کے طور پر استعمال کرتا رہا۔ لیکن اس دفعہ جو یہ بازار بند ہوا ہے،حیرت سے ہر کوئی گنگ ہے۔ ماہر معاشیات ہو یا سیاسیات، میڈیکل سائنس کا جاننے والا ہو یا تحقیق کے میدان کا مسافر، کوئی بھی یہ تجزیہ کرنے یا آئندہ آنے والے دنوں کے بارے میں پیشگوئی کرنے کے قابل نہیں ہے کہ کب تک یہ شہری زندگی دوبارہ بحال ہوسکے گی۔
سودی معاشی نظام کی شہری بساط اجڑ چکی ہے۔ شاید یہ سب کچھ اگلے کئی مہینوں یا سالوں تک واپس نہ لوٹ سکے۔یہ شہری زندگی جس سرمائے کی بنیاد پر استوار کی گئی تھی وہ جعلی کاغذی کرنسی تھی۔اس کرنسی کے تحت 1945ء میں ڈالر کو مرکزی حیثیت دے کر سٹینڈرڈ بنایا گیا تھا۔قانون بنا کہ ہر کرنسی کے نوٹ چھاپنے کے لیے حکومتوں کے پاس اسکے مطابق سونا ہونا لازمی ہوگا۔ لیکن پھر اس سونے کے معیار اور سٹینڈرڈ کو 1973 ء میں بدل دیا گیا اور یہ طے پایا کہ ہم بتائیں گے کہ فلاں ملک کی معاشی صلاحیت (Goodwill) کتنی ہے اور یوں اس کی کرنسی کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں طے کی جائے گی۔ لیکن ڈالر کو مستحکم کرنے کے لیے اسے جدید شہری دنیا کی سب سے بڑی حقیقت، ’’پیٹرول‘‘کے ساتھ وابستہ کر دیاگیا۔ پیٹرول سے ڈالر کی وابستگی کو قائم رکھنے کیلئے مسلم دنیا کی سلطنتوں کو اجاڑاگیا، برباد کیا گیا، اور ظالموں، آمروں کو ان کی رعایا پر مسلط کیاگیا۔ لیبیا سے لے کر عراق تک ہر جگہ خون بہایا گیا تاکہ پیٹرول ڈالر سے وابستہ رہے اور ڈالر عالمی مالیاتی نظام کی مرکزی اینٹ کے طور پر قائم رہے۔ آج یہ مرکزی اینٹ دھڑام سے گر رہی ہے۔ جس پٹرول نے کرنسی کو بلندی پر لاکر کھڑا کیا تھا، وہ گرا ہے تو اس کے ساتھ ہی ڈالر اور ہر کاغذی کرنسی کا زوال بھی شروع ہوگیا۔ آج اس نظام کو قائم کرنے والے یہ سب کے سب بے بس ہیں۔ امریکی تیل صفر سے کم قیمت پر آیا ہے اور باقی زوال کے راستے پر گامزن ہیں۔ یہ زوال صرف اور صرف کورونا کے ہاتھ میں ہے۔ کورونا کا نادیدہ ہاتھ جس نے اسے آسمان سے زمین پر گرا دیا ہے۔ دنیا کا کوئی ماہر معاشیات و اقتصادیات، سائنسدان اور محقق یہ نہیں بتا سکتا کہ تیل کب مہنگا ہو گا اور اس کے ساتھ وابستہ ڈالر اور مالیاتی نظام کب دوبارہ زندہ ہوگا۔ اس لیے کہ پوری دنیا میں سو سال سے آباد شہری زندگی پر موت کا سناٹا طاری ہو چکا ہے۔
جب تک بازار دوبارہ رنگ و روشنی سے آباد نہیں ہوتا، پورا مالیاتی نظام دھڑام سے گرتا چلا جائے گا۔ روزانہ آسمانوں پر بلند ہونے والے ہزاروں جہاز، ٹرینیں، بسیں اور کاریں خاموش ہو چکی ہیں۔ دنیا کے سمندروں کا سینہ چیر کر تفریحی بحری سفر (Cruise) کی 150 ارب ڈالر کی انڈسٹری بند ہے۔ ریسٹورنٹ، بار، کلب، فوڈ کورٹ بے آباد ہیں، میوزیکل کنسرٹ، فیشن شوز، سپورٹس ناممکن ہو چکے، ورزشوں کے جم، مساج پارلر، جوئے کے کیسینو، سینماگھر، تھیٹر، اوپیرا اجڑ چکے۔ وہ جو کبھی شہر کا وسط (City center) کہلایا کرتا تھا اب قبرستان کا منظر پیش کر رہا ہے۔ یہ سب اس سودی مالیاتی نظام کا خوبصورت چکاچوند چہرہ تھا،جس کا بیمار جسم اب قرنطینہ ہی نہیں کوما میں پڑا ہے اور اس کے بارے میں کسی کو کچھ اندازہ نہیں کہ کب اس کا قرنطینہ ختم ہوگا، اور کب یہ کوما سے نکلے گا۔ جب تک یہ مریض سودی نظام، کورونا کے بستر پر لیٹا ہوا ہے، جعلی کاغذی کرنسی کا زوال جاری رہے گا اور یقیناً وہ دن قریب ہے جب سید الانبیاء ﷺ کی بات سچ ہو کر رہے گی، ایک وقت بنی آدم پر آئے گا جب کوئی چیز سوائے درہم (چاندی)، دینار (سونے) کے کام نہ آئے گی (مسند احمد)۔ ایک سو سال بعد سودی سرمایہ دارانہ نظام اپنی موت کی جانب بڑھ رہا ہے، جس کی کوکھ سے ایک انقلاب جنم لینے والا ہے۔
Source: 92 news
Must Read Urdu column Tamasha dekha kr Madari gaya By Orya Maqbool jan