تنگ جوتے کی تکلیف – جاوید چوہدری

javed.chaudhry

گورنر صاحب نیچے آئے‘ مونچھوں کو تاؤ دیا اور بھاری آواز میں بولے ’’کل مال روڈ پر کوئی طالب علم نظر نہیں آنا چاہیے خواہ آپ کو جلوس روکنے کے لیے گولی ہی کیوں نہ چلانی پڑ جائے‘‘ ایس ایس پی کے ماتھے پر پسینہ آ گیا‘ وہ گھبرا کر جیب میں رومال ٹٹولنے لگا۔
گورنر صاحب اپنے دفتر کی طرف چل پڑے‘ ایس ایس پی لپک کر ان کے پیچھے دوڑا اور سانس سنبھالتے سنبھالتے بولا ’’سر لیکن مجھے اس کے لیے آپ کا تحریری حکم چاہیے ہو گا‘‘ گورنر صاحب غصے سے دھاڑے ’’کیا میرا زبانی حکم کافی نہیں‘‘ ایس ایس پی کی گردن تک پسینے سے بھیگ گئی۔

وہ رک رک کر بولا ’’سر ہم تحریری حکم کے بغیر گولی نہیں چلا سکتے‘‘ گورنر نے غصے سے گردن ہلائی اور زور سے آواز لگائی ’’سیکریٹری کہاں ہے!‘‘ گورنر کی آواز پورے گورنر ہاؤس میں گونجی‘ دھڑا دھڑ دروازے کھلے اور ہر قسم کا سیکریٹری پیش ہو گیا‘ گورنر نے سب کی طرف دیکھا اور اونچی آواز میں کہا ’’میں نے ایس ایس پی کو اسٹوڈنٹس پر گولی چلانے کا حکم دے دیا ہے‘ یہ جو کاغذ‘ جو تحریری حکم مانگیں آپ انھیں دے دیں لیکن مجھے کل مال روڈ پر کوئی طالب علم نظر نہیں آنا چاہیے اور جو آئے اسے زندہ واپس نہیں جانا چاہیے‘‘ کوریڈور میں سراسیمگی‘ خوف اور پریشانی کے ڈھیر لگ گئے اور تمام افسر خوف سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
یہ گورنر نواب آف کالا باغ تھے‘ یہ 1960ء سے 1966ء تک پنجاب کے گورنر رہے‘ پاکستان اس وقت مغربی پاکستان ہوتا تھا اور نواب صاحب اس پورے مغربی پاکستان کے واحد گورنر تھے‘ یہ صرف چھ سال گورنر رہے لیکن پنجاب میں آج بھی ان کی انتظامی گرفت کی مثالیں دی جاتی ہیں‘ لوگ آج بھی کہتے ہیں پنجاب کی تاریخ میں حکمران صرف ایک ہی گزرا ہے اور وہ تھا نواب آف کالاباغ‘ نواب صاحب نڈر شخص تھے‘ ان کا ہر حکم کلیئر اور ڈائریکٹ ہوتا تھا اور وہ بعد ازاں اس کی ساری ذمے داری بھی قبول کرتے تھے۔

یہ بھی مشہور تھا وہ حکم جاری کرنے کے بعد واپس نہیں لیتے تھے خواہ انھیں اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے‘ بیورو کریسی ان کی اس خو سے واقف تھی چنانچہ نواب صاحب نے جب طالب علموں پر گولی چلانے کا حکم دیا تو گورنر ہاؤس سے لے کر سیکریٹریٹ تک سراسیمگی پھیل گئی‘ مال روڈ پر طالب علموں پر گولی چلانا اور پھر لاشیں اٹھانا کوئی آسان کام نہیں تھا‘ یہ سانحہ ملک کی بنیادیں تک ہلا سکتا تھا لیکن نواب صاحب کو سمجھانا ممکن نہیں تھا لہٰذا تمام افسر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔

افسروں نے اس ایشو کا کیا حل نکالا؟ ہم آپ کو یہ بتائیں گے لیکن آپ پہلے اس واقعے کا پس منظر ملاحظہ کیجیے‘ یہ ایوب خان کا دور تھا‘ ملک میں طالب علموں نے حکومت کے خلاف تحریک شروع کر رکھی تھی‘ یہ سڑکوں پر نکلتے تھے‘ ایوب خان کے خلاف نعرے لگاتے تھے اور پولیس روکتی تھی تو یہ پتھراؤ کر کے بھاگ جاتے تھے‘ یہ سلسلہ چلتے چلتے لاہور پہنچ گیا‘ گورنمنٹ کالج کے طالب علموں نے مال روڈ پر جلوس نکالنے کا اعلان کیااور لاہور کے تمام کالجوں کے طالب علم ان کے ساتھ شامل ہو گئے‘ حکومت پریشان ہو گئی‘ گورنر صاحب نے جلوس سے ایک دن پہلے ایس ایس پی کو بلا لیا‘ یہ صبح رہائشی کمرے سے نکلے تو ایس ایس پی سیڑھیوں کے نیچے کھڑا تھا‘ گورنر نے اسے دیکھا اور حکم جاری کر دیا’’جلوس نہیں نکلنا چاہیے خواہ طالب علموں پر گولی ہی کیوں نہ چلانی پڑ جائے‘‘ اور آپ باقی کہانی پڑھ چکے ہیں۔

بیورو کریسی نے گورنر کو نتائج سے آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا‘ نواب صاحب کو ذاتی ملازمین کے ذریعے رام کرنے کی کوشش کی گئی‘ نواب صاحب نے صاف انکار کر دیا‘ چیف سیکریٹری نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا لیکن جھاڑ کھا کر واپس آ گیا اور نواب صاحب کے صاحبزادے نے سمجھانے کی ہمت کی لیکن وہ بھی گالیاں کھا کر باہرآ گیا‘ گورنر صاحب نے شام کے وقت گولی چلانے کا تحریری حکم بھی جاری کر دیا اور یہ حکم اخبارات اور پورے صوبے کی بیورو کریسی تک بھی پہنچ گیا۔

اگلی صبح لاہور کی بیورو کریسی کے لیے مشکل ترین دن تھا‘ پولیس نے مال روڈ گھیر لیا‘ طالب علم کالجوں میں اکٹھے ہوئے‘ نعرے لگانا شروع کیے‘ پولیس نے رائفلیں سیدھی کر لیں اور پھر ایک حیران کن واقعہ پیش آیا‘ طالب علم نعرے لگانے کے بعد اپنی اپنی کلاسز میں واپس چلے گئے‘ ان میں سے کوئی مال روڈ پر نہیں نکلا‘ پولیس شام تک سڑک پر کھڑی رہی‘ صدر ایوب خان راولپنڈی میں بیٹھ کر لاہور کی صورت حال واچ کر رہے تھے۔

وہ طالب علموں کی پسپائی پر حیران رہ گئے اور انھوں نے گورنر صاحب کو ٹیلی فون کر کے پوچھا ’’نواب صاحب میں آپ کو مان گیا لیکن آپ نے یہ کیا کیسے؟‘‘ نواب صاحب مونچھوں کو تاؤ دیا کرتے تھے‘ وہ بائیں مونچھ کو چٹکی میں دبا کر بولے ’’صدر صاحب میں جانتا ہوں لاہور کے تمام بیورو کریٹس کے بچے‘ بھانجے اور بھتیجے کالجوں میں پڑھتے ہیں‘ یہ افسر میری فطرت سے بھی واقف ہیں‘ یہ جانتے ہیں میں نے اگر گولی کا حکم دیا ہے تو پھر گولی ضرور چلے گی چنانچہ میں نے ان کی نفسیات سے کھیلنے کا فیصلہ کیا‘ میں نے حکم دے دیا۔

مجھے یقین تھا یہ لوگ کل اپنے بچوں کو کالج نہیں جانے دیں گے‘ ان کے بچے اپنے دوستوں کوبھی صورت حال کی نزاکت سے آگاہ کر دیں گے اور یوں کوئی طالب علم مال روڈ پر نہیں نکلے گا‘‘ صدر ایوب خاموشی سے سنتے رہے‘ نواب آف کالا باغ نے اس کے بعد یہ تاریخی فقرہ کہا’’صدر صاحب! انسان کی فطرت ہے یہ دوسروں کے لیے سخت اور اپنے لیے نرم فیصلے کرتا ہے اور میں ہمیشہ انسان کی اس خامی کا فائدہ اٹھاتا ہوں‘ میں اپنے فیصلوں میں فیصلہ کرنے والوں کا اسٹیک شامل کر دیتا ہوں چنانچہ رزلٹ فوراً اور نرم آتا ہے‘‘۔

نواب آف کالا باغ کی بات درست تھی‘ ہم انسان اپنی ذات سے متعلق فیصلے ہمیشہ اچھے اور جلدی کرتے ہیں جب کہ دوسروں کے فیصلے دہائیوں تک میز کی درازوں میں پڑے رہتے ہیں‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ پنجاب اسمبلی کا تازہ ترین فیصلہ دیکھ لیجیے‘پنجاب اسمبلی نے 15 اگست2018ء کو حلف اٹھایا‘ 368 ارکان میں سات ماہ میں کسی ایک ایشو پر اتفاق رائے نظر نہیں آیا‘ عوام نے جب بھی دیکھا یہ لوگ ایک دوسرے کے جانی دشمن نظر آئے لیکن 12 مارچ کو اسمبلی کے تمام اراکین میں اتفاق رائے ہو گیا‘اسمبلی میں ایک بل پیش ہوا‘ کوئی بحث ہوئی اور نہ کسی نے اعتراض اٹھایا‘ اسپیکر نے بل قائمہ کمیٹی میں بھجوایا‘ کمیٹی نے ایک دن میں منظوری دے دی۔

یہ تیسرے دن اسمبلی میں پیش ہوا اور اسمبلی نے دس منٹ میں بل پاس کر دیا ‘یہ پنجاب اسمبلی کے ارکان‘ ڈپٹی اسپیکر‘ اسپیکر‘ وزراء اور وزیراعلیٰ کی تنخواہ اور مراعات میں اضافے کا مقدس ترین بل تھا اور اس بل کے ذریعے وزیراعلیٰ چار لاکھ 25 ہزار‘ اسپیکر دو لاکھ60 ہزار‘ ڈپٹی اسپیکردو لاکھ 45 ہزار‘ وزراء دو لاکھ 75 ہزار اوراراکین اسمبلی ایک لاکھ 95 ہزار ماہانہ تنخواہ اور مراعات وصول کریں گے‘ ارکان اسمبلی‘ وزراء اور وزیراعلیٰ کے ڈیلی الاؤنس‘ ہاؤس رینٹ‘ یوٹیلٹی الاؤنس اور مہمانداری الاؤنس میں بھی دو‘ تین اور چار گنا اضافہ کر دیا گیا۔

میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں ارکان‘ وزراء اور وزیراعلیٰ کی تنخواہیں کم تھیں‘ یہ اضافے کے بعد بھی تسلی بخش نہیں ہیں‘ آج کے دور میں اس آمدنی میں اچھا لائف اسٹائل برقرار رکھنا ممکن نہیں لیکن سوال یہ ہے کیا ارکان اسمبلی اور وزراء غریب ہیں؟ کیا یہ صرف تنخواہ پر گزارہ کر رہے ہیں؟ جی نہیں! 99 فیصد ارکان کا روزانہ کا خرچ ان کی ماہانہ تنخواہ سے زیادہ ہے‘ ملک کے غرباء تو رہے دور مڈل کلاس کا کوئی شخص بھی الیکشن کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا لہٰذا یہ تمام لوگ رئیس ہوتے ہیں لیکن آپ ان رئیس لوگوں کی حرص بھی ملاحظہ کیجیے‘ یہ اپنی مراعات اور تنخواہوں کے لیے چند لمحوں میں اپنے تمام اختلافات بھلا کر اکٹھے ہو گئے‘ بل آیا اور دو دن میں تمام مراحل طے کر کے پاس ہو گیا‘ اس پر اس ماہ سے عمل درآمد بھی شروع ہو جائے گا‘ یہ اسپیڈ ثابت کرتی ہے ہمارے ارکان اسمبلی اپنے ذاتی ایشوز پر یک جان ہیں لیکن یہ عوامی ایشوز پر منقسم ہیں‘ یہ لوگ عوام کے ایشوز پر کبھی اکٹھے ہوئے اور نہ ہوں گے۔

کیوں؟کیونکہ عوامی ایشوز میں ان کا کوئی اسٹیک شامل نہیں ہوتا چنانچہ یہ ان ایشوز پر اکٹھے ہوتے ہیں اور نہ ہی اسمبلی آتے ہیں‘ میری وزیراعظم عمران خان سے درخواست ہے یہ چند ماہ کے لیے نواب آف کالاباغ بن جائیں‘ یہ عوامی ایشوز میں ارکان اسمبلی اور بیورو کریسی کو اسٹیک ہولڈر بنا دیں‘ یہ اعلان کر دیں سرکاری افسروں اور ارکان اسمبلی کی تنخواہیں مڈل کلاس کے برابر ہوں گی‘ بچے سرکاری اسکولوں میں پڑھیں گے‘ یہ سرکاری اسپتالوں اور ڈسپنسریوں سے علاج کرائیں گے‘ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کریں گے‘ یہ اپنے ہاتھ سے ٹیکس ریٹرنز سمیت تمام فارم پر کریں گے اور تمام یوٹیلٹی بلز بھی خود دیں گے۔

آپ اس کے بعد کھلی آنکھوں سے تمام فارم آسان‘تمام اسپتال‘ اسکول اور ٹرانسپورٹ ٹھیک اور ساری مہنگائی کنٹرول ہوتے دیکھیں گے‘ہمارے پالیسی سازکیونکہ خود اس پالیسی سے باہر ہوتے ہیں چنانچہ یہ پوری زندگی تنگ جوتے کی تکلیف سے لا علم رہتے ہیں‘ آپ انھیں ایک بار وہ تنگ جوتا پہنا دیں جو عوام روز پہنتے ہیں تو پھرآپ کمال دیکھیے‘یہ پرانا پاکستان نیا پاکستان بنتے دیر نہیں لگائے گا‘آپ انھیںایک بار عوام بنا دیں ‘ یہ پوری عوام کے مسئلے حل کر دیں گے۔

Source

Must Read urdu column Tang jootay ki takleef By Javed Chaudhry

Leave A Reply

Your email address will not be published.