تقرر اور تبادلوں کا حل – جاوید چودھری
میرے ایک دوست ہیں احمد مبارک‘ میں پچھلے بیس برسوں سے انھیں جانتا ہوں‘یہ ڈی آئی جی پولیس تھے‘ یہ دوران سروس مجھے جب بھی فون کرتے تھے‘ میں ان سے پوچھتا تھا ’’آپ آج کل کہاں تعینات ہیں ‘‘اور یہ ہر بار کسی نہ کسی نئی جگہ‘ کسی نہ کسی نئے عہدے کا حوالہ دے دیتے تھے۔
یہ مجھے افسر کم اور فٹ بال زیادہ محسوس ہوتے تھے کیونکہ یہ سال چھ ماہ سے زیادہ کسی جگہ ٹک کر سروس نہیں کر سکے‘ یہ پوسٹ ہوتے تھے‘ کسی نہ کسی معاملے پر ان کا سینئرز‘ مقامی ایم این اے‘ ایم پی اے یا پھر کسی وزیر یا وزراء اعلیٰ سے پھڈا ہوتا تھا اور یہ اگلے ہی دن ٹرانسفر ہو جاتے تھے۔
آپ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچئے‘ کیا کوئی شخص ہر سال اپنے پورے خاندان کے ساتھ نئی جگہ ایڈجسٹ ہوسکتا ہے‘ کیا یہ اس خانہ بدوشی کے عالم میں اپنے بچوں کو تعلیم دلا سکتے تھے‘ کیا یہ اپنے خاندان کو پال سکتے تھے‘ کیا یہ بار بار کی ٹرانسفرز سے اپنی نفسیات کو بگڑنے سے بچا سکتے تھے اور کیا یہ ایک سال میں کسی ڈسٹرکٹ یا ڈویژن کو پوری طرح سمجھ سکتے تھے؟
اور اگر یہ سمجھ جاتے تو کیا یہ زیادتی نہیں آپ اس شخص کو اس عہدے سے ہٹا رہے ہیں جس نے سال بھر کی محنت کے بعد علاقے کے مزاج اور جرائم کی وجوہات کو سمجھ لیا اور یہ جب ڈیلیور کرنے کی پوزیشن میں آیا تو آپ نے اسے ہٹا کر اس کی جگہ پر ایک ایسا شخص لگا دیا جس کو اب اس علاقے کو سمجھنے کے لیے سال بھر کا عرصہ چاہیے اور آپ اس کو بھی سال چھ مہینے بعد فارغ کر دیں گے‘ کیا یہ گورننس ہے؟ کیا اسے اچھی ایڈمنسٹریشن کہا جائے گا؟
یہ ایس ایس پی اور ڈی آئی جی رینک کے آفیسرز کی حالت ہے‘ آپ اگر ایس ایچ اوز کا ڈیٹا نکالیں تو آپ کو لاہور جیسے شہرکا ڈیٹا حیران کر دے گا‘ لاہور میں ایس ایچ او کی او سطاً پوسٹنگ ایک ماہ ہے‘ ایس ایچ او بمشکل کسی تھانے کا چارج لیتا ہے اور اگلے دن اس کی معطلی یا پوسٹنگ کا حکم آ جاتا ہے‘ آپ خود سوچئے جس افسر کو یہ اعتماد نہیں ہو گا کہ میں اس علاقے یا اس عہدے پر اتنے سال کے لیے آیا ہوں اور کوئی ایم پی اے‘ ایم این اے یا وزیر میرا تبادلہ نہیں کر سکتا وہ اطمینان کے ساتھ کیسے کام کرے گا؟
ملک کی حالت یہ ہے جب بھی کوئی ایم پی اے یا ایم این اے سیاسی جماعت تبدیل کرتا ہے تو وہ ’’خریدار جماعت‘‘ سے اپنے حلقے کے ایس ایچ اوز‘ ڈی ایس پی‘ پٹواری اور نائب تحصیلدار اور تحصیلدار تبدیل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے اور اس سیاسی قلابازی کا نتیجہ سرکاری افسروں کے تبادلے اور تعیناتی کی شکل میں نکلتا ہے۔
آپ جب پولیس اور محکمہ مال کی تعیناتیاں ان لوگوں کے ہاتھ میں دے دیں گے جو اس سے براہ راست فائدہ اٹھا سکتے ہیں تو آپ اس علاقے کی لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کا اندازہ خود لگا سکتے ہیں اور ہمارے ملک میں یہ کھیل روزانہ ہوتا ہے اور اس کھیل کے نتیجے میں مظلوم لوگ ایف آئی آر کٹوانے‘ ملزم کو گرفتار کرانے‘ اپنے بے گناہ عزیز کو چھڑوانے‘ زمین کی فرد لینے اور اپنی زمین کا قبضہ لینے کے لیے تھانے یا کچہری نہیں جاتے‘ یہ ایم پی اے یا ایم این اے کے ڈیرے پر جاتے ہیں اور وہاں سے جس شخص کے بارے میں فون آ جاتا ہے پولیس اس کے لیے تھانے کے دروازے کھول دیتی ہے جب کہ باقی مظلوم تھانے کے باہر بیٹھے رہتے ہیں۔
آپ اس صورتحال پر غور کیجیے اور اب فیصلہ کیجیے ہمارے سرکاری ملازمین بالخصوص پولیس اور ڈی ایم جی کے پاس اب کیا آ پشن بچتا ہے؟ کیا یہ سسٹم انھیں یہ پیغام نہیں دے رہا‘ آپ اگر او ایس ڈی نہیں بننا چاہتے‘ آپ اگر اپنی پوسٹنگ بچانا چاہتے ہیں اور آپ اگر ملک کے دور دراز علاقوں میں تبادلے سے بچنا چاہتے ہیں تو آپ کے پاس ایک ہی راستہ ہے آپ ملک اور عوام کی بجائے اپنے سینئرز‘ سیاستدانوں‘ حکمران جماعت اور طاقتور اداروں کی غلامی میں چلے جائیں اور آپ کا سینئر‘ آپ کی حکمران جماعت اور آپ کا ایم پی اے یا ایم این اے آپ کو جو حکم دے آپ اچھے غلام کی طرح اس پر چپ چاپ عمل کریں۔
ہماری بیورو کریسی نے یہ پیغام نہ صرف سن لیا ہے بلکہ یہ اس کو سمجھ بھی گئی ہے اور یہ اس پر عمل بھی کر رہی ہے اور ’’یس سر‘‘ کے اس سسٹم کی سزا اب عام شخص کے ساتھ ساتھ اقتدار سے بے دخل حکمرانوں کو بھی ملتی ہے‘ حکومتی پارٹی جب قانون کے رکھوالوں کو حکم دیتی ہے تو یہ میاں نواز شریف کے والد کو دفتر سے کرسی سمیت اٹھا لیتے ہیں۔
یہ فاروق لغاری کو سر عام تھپڑ ماردیتے ہیں‘ یہ نصرت بھٹو پر لاٹھیاں برسا دیتے ہیں‘ یہ بینظیر بھٹو کو سڑکوں پر گھسیٹتے ہیں‘ یہ شریف فیملی کو اٹک قلعے میں پھینک دیتے ہیں‘ یہ آصف علی زرداری کی زبان کاٹ دیتے ہیں‘ یہ میاں نواز شریف کو دھکے دے کر اسلام آباد ائیر پورٹ سے جدہ پہنچا دیتے ہیں‘ یہ بینظیر بھٹو کی جائے شہادت دھو دیتے ہیں‘ یہ چیف جسٹس کو بھی بالوں سے پکڑ لیتے ہیں۔
اب حکم ہوا تو نیب نے شہباز شریف کو بھی حراست میں لے لیا‘ آپ نواز شریف کا سارا کیس اٹھا کر دیکھ لیجیے آپ کو یہ حقائق اس میں بھی نظر آئیں گے اوریہ اس غلامانہ سوچ کا نتیجہ ہے جس کے ذریعے ہمارے حکمرانوں نے پولیس کو ذہن نشین کرا دیا تم نے قانون کی بجائے اپنے آقا کی پیروی کرنی ہے چنانچہ یہ پوسٹنگ بچانے اور تبادلے سے بچنے کے لیے اپنی ساری توانائیاں آقا کے حکم کی بجا آوری میں لگا دیتے ہیں اور اس کا خمیازہ عام شخص کے ساتھ ساتھ حکمران طبقہ بھی بھگتتا ہے۔
مجھے یقین ہے آج اگر ملک میں مارشل لاء لگ جائے اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر پولیس کو آصف علی زرداری‘ میاں نواز شریف‘ میاں شہباز شریف‘ عمران خان اور سپریم کورٹ کے ججوں کو ڈنڈے مارنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کا حکم دے دے توپولیس چند لمحوں میں یہ کر گزرے گی کیونکہ ان کا آقا بدل چکا ہو گا اور انھوں نے اس آقا سے بھی اپنی پوسٹنگ بچانی ہے۔
ہم آتے ہیں اب اس کے حل کی طرف‘ اس کے تین حل ہیں‘ پاکستان کی تمام فیلڈ پوسٹنگز تین سال کے لیے کر دی جائیں‘ یہ قانون اگر پہلے سے موجود ہے تو اس پر سختی سے عمل کیا جائے‘ ان تین برسوں میں کوئی سینئر یا کوئی سیاستدان کسی افسر کو اس کی جگہ سے نہ ہٹا سکے‘ اگر کوئی افسر مس کنڈکٹ کا مرتکب ہویا قانون کی خلاف ورزی کرے‘ یہ کسی کو فیور دے یا کسی کو بلاجواز نقصان پہنچائے تو محکمہ اس کا کیس اسپیشل باڈی کو بھیج دے۔
ملک کے تمام صوبوں اور وفاق میں سرکاری افسروں کے لیے اسپیشل باڈیز بنائی جائیں‘ ان باڈیز میں ریٹائر سینئر بیورو کریٹس‘ ریٹائر ججز حضرات‘ سینئر پروفیسرز اور سینئر بزنس مین شامل ہوں‘ یہ کیس کا جائزہ لیں اور ایک ہفتے کے اندر اندر فیصلہ دے دیں‘ محکمے کا سینئر اگر اسپیشل باڈی کے سامنے کسی جونیئر پر لگائے جانے والے الزام ثابت نہ کر سکے تو یہ اسپیشل باڈی اس کی اے سی آر میں نیگٹو پوائنٹ دے دے اور یہ افسر پانچ چھ نیگٹو پوائنٹس کے بعد ترقی کی فہرست سے باہر ہو جائے‘ کابینہ‘ وزیراعلیٰ‘ وزیراعظم اور صدر کا پوسٹنگز اور تبادلوں کا صوابدیدی اختیار فوری طور پر ختم کر دیا جائے۔
ملک کے تمام محکموں کے رولز دیکھے جائیں‘ ان رولز کے مطابق میرٹ بنے اور تمام سرکاری ملازم اس میرٹ لسٹ اور رولز کے مطابق ترقی پائیں اور ان کی پوسٹنگز اور تبادلے ہوں‘ کوئی افسر اس لسٹ میں اچانک شامل نہ ہو سکے اور کسی کو خاص پروسیجر کے بغیر فہرست سے خارج نہ کیا جا سکے‘ انیس سے بائیسویں گریڈ کی تمام تقرریوں کا فیصلہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کرے‘ حکومت کسی کو ہٹا سکے اور نہ ہی لگا سکے اور سپریم کورٹ ایڈہاک‘ ایکٹنگ چارج اور ایکسٹینشن پر قطعی پابندی لگا دے۔
ہماری حکومتیں ایکسٹینشن‘ ایکٹنگ چارج اور ایڈہاک سے بھی جی بھر کر فائدہ اٹھا رہی ہیں‘ یہ مرضی کے ملازموں کو ایکٹنگ چارج دے دیتے ہیں‘ ان کی مدت ملازمت میں اضافہ کر دیتے ہیں یا پھر انھیں ایڈہاک پر اہم عہدوں پر لے آتے ہیں‘ سپریم کورٹ پابندی لگا دے گی تو یہ راستہ بند ہو جائے گا‘ سپریم کورٹ حکم جاری کر دے تمام محکمے کسی تبادلے یا ریٹائرمنٹ سے پہلے اس پوزیشن پر نیا عہدیدار تعینات کریں گے تاکہ وہ عہدہ خالی نہ رہ سکے‘ کوئی افسر چھٹی پر جائے تو اس کے اختیارات جونیئر افسر کو منتقل ہو جائیں لیکن وہ صرف محدود پیمانے پر عارضی احکامات جاری کر سکے۔
ان کی حتمی توثیق وہ افسر واپس آ کر کرے اور اگر وہ حکم واپس لینا چاہے تو وہ پرانا فیصلہ معطل بھی کر سکے گا۔ بیوروکریسی کو ریاست کا ماتحت ہونا چاہیے حکومت کا نہیں‘آپ نے پچھلے دنوں تین چار بڑے واقعات پڑھے ہوں گے‘ پہلا واقعہ آئی جی پنجاب کا تبادلہ تھا‘ آئی جی پنجاب طاہرخان کا تبادلہ ایک ماہ دو دن بعد کر دیا گیا تھا ‘اس متنازعہ فیصلے کی وجہ سے پنجاب پولیس ریفارمز کمیشن کے چیئرپرسن ناصر درانی اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے‘ ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کا ایشو بھی ساری دنیا کے سامنے ہے۔
آج آپ صرف یہ معلوم کرلیجیے رضوان گوندل کہاں ہیں اور ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے تو آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی‘ ڈی سی راجن پوراللہ دتہ وڑائچ نے پی ٹی آئی کے ایم این اے نصراللہ دریشک اور صوبائی وزیر سردار حسنین بہادر دریشک کی جانب سے انتظامی امور میں مداخلت پر کمشنر ڈی جی خان کو مراسلہ لکھا تھا اور ڈی سی چکوال غلام صغیر شاہد نے چیف سیکریٹری پنجاب کو خط لکھ کر پی ٹی آئی کے ایم این اے ذوالفقارعلی خان پر سرکاری کاموں میں مداخلت کا الزام لگایا تھا‘ یہ دونوں ڈی سی آج کس حال میں ہیں؟ آپ ان کا بھی پتہ کرا لیجیے۔
سپریم کورٹ کو ان ایشوز کا بھی نوٹس لینا چاہیے ورنہ ہماری غلام بیورو کریسی مزید غلام ہو جائے گی اور یہ کسی دن کسی بھی طاقتور شخص کے حکم پر صدر‘ وزیراعظم اور چیف جسٹس کو گرفتار کر لے گی اور ان پر بھینس چوری کا مقدمہ بنا دے گی کیونکہ بیورو کریسی جب قانون کے طاق سے اتر کر حکمرانوں کی انا کی غلام بنتی ہے تو پھر کسی عزت دار شخص کی عزت محفوظ نہیں رہتی‘ پھر ہر چڑھتا سورج سجدہ گاہ بن جاتا ہے اور ہر گزرا حکمران کچرہ گھر۔
نوٹ: کالمز کی یہ سیریز میں نے اپنے 80 ممالک کے وزٹس‘مطالعے اور مشاہدے کی روشنی میں لکھی ہے‘ان پر مزید بات ہو سکتی ہے‘ میراخیال ہے حکومت کو ان پوائنٹس کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے‘ اس سے سسٹم بہتر ہو سکتا ہے اور پاکستان واقعی پاکستان بن سکتا ہے۔
Must Read urdu column Taqerar aur tabadlon ka Hul By Javed Chaudhry