تین ٹانگوں والی جمہوریت– حسن نثار
تین ٹانگوں والی جمہوریت اللہ ان کی مشکلیں آسان کرے’’حکمران خاندان‘‘ دھمکیوں سے دعائوں تک آگیاماضی قریب کی دختر اول مریم نواز کی یہ مختصر سی ٹویٹ انسانی ا قتدار کی تاریخ کا خلاصہ ہےدعا شاکر تو منگی رکھدعا جانے، خدا جانےیہ تو کسی کھاتے میں نہیں، سلاطین عثمانیہ کا تصور کریں جنہوں نے مدتوں تین براعظموں پر حکومت کی اور وہ بھی اس طرح کہ جواں سال محمد فاتح نے ناقابل تسخیر قسطنطنیہ کو استنبول میں تبدیل کردیا۔ سلطان سلمان کو یورپی حکمران ’’سلمان عالیشان‘‘ پکارا کرتے تھے اور ان کے لشکریوں میں یہ محاورہ زبان زد عام تھا کہ اگر ہم پر آسمان بھی آگرے تو ہم اسے اپنے نیزوں پر اٹھا کر پلٹ دیں گے۔ عثمانیوں کے دیو مالائی امیر البحر خیرالدین باربروسہ کا تکیہ کلام تھا کہ……..’’سمندر کی لہریں میری اجازت سے چلتی ہیں۔‘‘ پھر ان پر یہ وقت بھی آیا کہ جلا وطنی کے بعد شہزادے بس کنڈکٹری پر مجبور ہوئے اور ایک شہزادی اپنی ڈائری میں لکھتی ہے’’ کبھی تین براعظموں پر ہماری حکومت تھی لیکن آج نہ ہمارا کوئی ملک ہے نہ شہر نہ گھر۔‘‘ برسوں بعد جب بچے کچے عثمانیوں کو ترکی واپس آنے کی اجازت ملی تو جو چند واپس آئے ان میں شہزادہ ارطغرل بھی تھا جو باقاعدہ ٹکٹ خرید کر اس توپ کپی پیلس میں گھومنے آیا کرتا جو کبھی اس کے بڑوں کے
لاتعداد محلات میں سے ایک تھا۔ تاریخ کی سفاکی ملاحظہ ہو کہ یہ عظیم خاندان آل عثمان کہلاتا تھا جبکہ جدامجد کا نام ارطغرل تھا۔ پہلا ارطغرل بھی خانہ بدوشوں کا گمنام سا سردار تھا اور آخری ارطغرل بھی اک عام گمنام ترک جو دوسرے سیاحوں کی طرح قطار میں کھڑا ہو کر ٹکٹ خریدنے کے بعد وہ محل دیکھنے آتا جو اس کے بزرگوں کی ملکیت تھا۔دعا شاکر تو منگی رکھدعا جانے، خدا جانےبےشک وہ انسانوں کے درمیان دنوں کو پھیرتا رہتا ہے اور میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ رب سے انصاف نہیں، صرف اور صرف رحم مانگا کرو۔ کہاں گئے جو کل تک زمین تنگ کرنے کی دھمکیاں دیتے اور لوہے کے چنے ہوا کرتے تھے۔ ووٹ کے لئے عزت بھی دیکھی جائے گی، فی الحال اپنے لئے اس کی رحمت مانگو جو مچھلی کے پیٹ میں بھی محفوظ رکھتا ہے اور چاہے تو آتش نمرود کو بھی گلزار میں تبدیل کردے۔’’درخواست ضمانت مسترد، نواز شریف جیل منتقل‘‘دور بہت دور کہیں سے اک بھولے بسرے گیت کا مکھڑا سن رہا ہوں؎ٹانگہ آگیا کچہریوں خالیتے سجناں نوں قید بول گئیمجھے تو قانون کی ابجد کا علم نہیں۔ ٹی وی پر ماہرین کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ آئندہ بھی بادل چھائے رہنے اور گرج چمک کے بغیر موسلادھار بارش کا امکان ہے۔کاغذ کے پھول سر پہ سجا کر چلی حیاتنکلی برون شہر تو بارش نے آلیا9صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری، نواز شریف کی طرف سے دائر باقی اپیلوں پر سماعت 9اپریل کو ہوگی۔ 9،9کی اس تکرار سے مجھے 9کے بارے یہ بات یاد آتی ہے کہ 9کا عدد کسی چالاک عدد سے کم نہیں کیونکہ اسے جس سے بھی ضرب دو نتیجہ ہر صورت 9ہی نکلتا ہے۔ 9=1×918=2×9 یعنی9= 1+827= 3×9اور = 2+7پھر9= 3+6—–36=4×9 پھر وہی 99×9تک بھی جائیں تو نتیجہ 9ہی رہے گالیکن چکر99کا ہو یا 9 کا، ’’انقلابیوں‘‘ کو فرق نہیں پڑتا خصوصاً نئے نئے انقلابیوں کو کہ ہر نیا انقلابی بہت پرجوش ہوتا ہے لیکن تشویشناک خبر یہ ہے کہ ن لیگ میں نواز شریف کے ساتھ ساتھ مریم نواز کو بھی مائنس کرنے کے فارمولا پر غور و فکر شروع ہوچکا کہ’’جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں‘‘ہائے سیاست تیری سفاکی اور سنگدلی کہ جو کل تک ’’اثاثہ ‘‘ تھے، آج ’’بوجھ‘‘ قرار دئیے جارہے ہیں۔ ’’دروغ برگردن راوی‘‘ جو کہتا ہے کہ ن لیگ میں قیادت کی تبدیلی پر بات چیت تو بہت پہلے سے شروع ہے لیکن اب درخواست ضمانت مسترد ہونے کے بعد یہ آئٹم ایجنڈا میں پہلے نمبر پر آگیا ہے۔ سیانوں کا کہنا ہے کہ اگر بروقت فیصلہ نہ کیا گیا تو پارٹی میں گروپنگ بڑھ جائے گی جس سے ناقابل تلافی قسم کے سیاسی نقصان کا امکان ہے۔’’ذرائع‘‘ کا کہنا ہے کہ اہم رہنمائوں کے اک غیر رسمی اجلاس میں قیادت کے لئے شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی اور خواجہ آصف وغیرہ کے نام سامنے آئے ہیں اور یہ تجویز بھی زیر غور آئی ہے کہ اگر شہباز شریف قیادت سنبھالتے ہیں تو انہیں باقی دونوں یعنی شاہد خاقان عباسی اور خواجہ آصف میں سے ایک کو نمبر دو کے طور پر ساتھ رکھنا چاہئے۔یہ جانیں اور ان کا کام لیکن میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ ان تینوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس میں کرزمہ نام کی رتی بھی موجود ہو تو ن لیگ کا بنے گا کیا؟ میں متعدد بار یہ لکھ چکا ہوں کہ کسی’’تیسری قوت‘‘ کا خواب دیکھتے دکھاتے وقت بھی میں نے یہ کبھی نہیں سوچا اور چاہا تھا کہ کسی ’’تیسری قوت‘‘ کی اجارہ داری قائم ہوجائے کہ اس طرح تو اس کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ ’’تیسری قوت‘‘ کی تو ضرورت ہی ا س لئے ہے کہ باقی دو جو کوئی بھی ہوں ’’بد سیاسی‘‘ بروزن ’’بدمعاشی‘‘ کرتے ہوئے سو بار سوچیں کہ ٹو پارٹی سسٹم صرف بالغ جمہوریتوں میں ہی جچتا ہے۔جو بھی ہو، پی پی پی اور ن لیگ کو بھی محفوظ اور قائم و دائم رہنا چاہئے۔ میری دعا ہے اللہ ن لیگ کو قیادت کے انتخاب کے حوالہ سے بہتر فیصلے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ یہ تین ٹانگوں والی جمہوریت اپنی منزل کی طرف یونہی رواں دواں رہے۔