تیسرا موسم – جاوید چودھری
میں پچاس سال کا ہو گیا ہوں‘ میرے خاندان نے مجھے مبارک دی‘ میں ان کی خوشی میں خوش ہو گیالیکن جب یہ لوگ چلے گئے تو میں پچاس سال کا حساب جوڑنے بیٹھ گیا‘ میں نے زندگی کہاں سے شروع کی‘ میں زندگی کی دوڑ میں کہاں کہاں گیا اور میں کیا کیا کرتا رہا؟ اللہ تعالیٰ نے کس طرح نازک اوقات میں میرا ہاتھ پکڑا‘ میں غلط راہ پر مڑا۔
اللہ تعالیٰ نے کس طرح اس غلط کو صحیح میں بدل دیا‘ میں کب اور کہاں چند انچ کے فاصلے سے تباہی سے بچا‘ میں نے کس طرح مذاق ہی مذاق میں آدھی دنیا دیکھ لی اور اللہ کی ذات نے مجھے کس طرح گناہ‘ جرم اور غلطیوں سے بچائے رکھا‘ میں سوچتا رہا اور آنسو پونچھتا رہا‘ میں نے حساب کتاب کے آخر میں فیصلہ کیا‘ میری زندگی کا تیسرا موسم شروع ہو چکا ہے‘ میں اب اگر آگے کا سفر آسان بنانا چاہتا ہوں تو پھر مجھے اپنی زندگی کو تیسرے موسم کے مطابق ڈھالنا ہوگا لیکن یہ تیسرا موسم ہے کیا؟
اللہ تعالیٰ نے زمین کو چار موسموں سے نواز رکھا ہے‘ بہار‘ گرمی‘ خزاں اور سردی‘ ہم اگر انسان کی زندگی کو بھی چار حصوں میں تقسیم کر لیں تو اس کا پہلا حصہ بہار ہوگا‘ یہ اس حصے میں پرورش پاتا ہے‘ اس کی جڑیں‘ تنے‘ شاخیں‘ پتے اور پھول نکلتے ہیں‘ یہ مہکتا ہے‘ یہ لہکتا ہے اور یہ پھل پھول دیتا ہے‘ انسان کی زندگی کا دوسرا حصہ گرم ہوتا ہے۔
یہ چیلنج کا دور ہوتا ہے‘ یہ وسائل جمع کرتا ہے‘ ان کی راشننگ سیکھتا ہے‘ یہ اپنے جیسے نئے پودے پیدا کرتا ہے‘ ان کی حفاظت کرتا ہے اوریہ خود کو لکڑہاروں‘ سنڈیوں‘ بیماریوں اور قدرتی آفتوں سے بچاتاہے‘ زندگی کا تیسرا موسم خزاں ہوتا ہے‘ تیسرے موسم میں درخت کی طرح انسان کے پھول‘ پتے اور چھال الگ ہو جاتے ہیں‘ یہ بیمار‘ اداس اور ٹنڈ منڈ ہو جاتا ہے‘ اس کا رنگ روپ اور خوشبو اڑ جاتی ہے۔
یہ تنہا اور زوال پذیر بھی ہو جاتا ہے اور انسانی زندگی کا آخری موسم سرد ہوتا ہے‘ یہ اس کی سروائیول کا زمانہ ہوتا ہے‘ یہ اس دور کے آخر میں مٹی میں مل کر مٹی ہو جاتا ہے‘ یہ چاروں ادوار 1990ء کی دہائی تک بیس بیس سال پر محیط تھے‘ انسان پہلے بیس برسوں میں پرورش پاتا تھا‘ تعلیم اور ہنر سیکھتا تھا‘ دوسرے بیس برسوں میں پروفیشنل لائف میں آتا تھا‘ شادی کرتا تھا‘ بچے پیدا کرتا تھا اور معاشی اور سماجی ترقی کرتا تھا‘ یہ تیسرے بیس برسوں میں بیمار ہونا شروع ہوتا تھا۔
معاشی مسائل کا سامنا کرتا تھا‘ جسمانی‘ ذہنی اور سماجی طور پر کمزور ہوتا تھااور یہ ریٹائر ہو جاتا تھا اور اس کے آخری بیس سال سردیوں کے موسم کی طرح اکیلے پن‘ بیماری اور یاسیت میں گزرتے تھے اور یہ اپنے آپ کو بچاتے بچاتے فوت ہو جاتا تھا لیکن 1990ء کی دہائی کے بعد یہ موسم پچیس پچیس کے چار حصوں میں تقسیم ہو گئے۔
پہلے 25 سال بچپن‘ تعلیم اور جوانی‘ دوسرے 25 سال پروفیشن‘ فیملی‘ سٹرگل اور کامیابی‘ تیسرے 25 سال زوال‘ مسائل‘ بیماری اور ریٹائرمنٹ اور چوتھے 25 سال بری خبروں‘ دوستوں کی اموات‘ جائیدادوں پر قبضے‘ ڈاکٹر‘ دوائیں اور اسپتال‘ بچوں کی دوری‘ اکیلا پن‘ یادداشت‘ نظر اور سماعت کی کمی‘ جسم میں دردیں‘ اٹھنے‘ چلنے اور پھرنے کی معذوری اور پھر قبر۔ یہ ہے انسان کی زندگی کا سائیکل۔
میں اکثر اپنے دوستوں سے عرض کرتا ہوں‘ ہم انسان اگر اپنی زندگی میں ہر پانچ سال بعد درمیانی اور ہر 25 سال بعد بڑی تبدیلی نہیں لاتے تو ہم شدید بحران کا شکار ہو جاتے ہیں‘ ہمیں ہر پانچ سال بعد اپنی زندگی کا آڈٹ کرنا چاہیے‘ اپنی کمزوریوں کو تسلیم کرنا چاہیے‘ اپنا طرز زندگی بدلنا چاہیے اور اپنی زندگی میں کوئی ایک اچھی عادت شامل کرنی چاہیے اور ہمیں ہر 25 سال بعد اپنی زندگی کو لائف کے اگلے فیز کے مطابق مکمل طور پر تبدیل کر لینا چاہیے‘ وہ لوگ جو یہ نہیں کرتے وہ بری طرح بحرانوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
میں نے پچاس سال میں قدم رکھا تو محسوس ہوا میں خزاں کے موسم میں داخل ہو گیا ہوں‘ مجھے اب تیسرے موسم کی ضروریات کا بندوبست کرنا ہوگا‘ میں نے ریسرچ کی‘ پتہ چلا‘ دنیا میں پچاس سے پچہتر سال کے فیز کے لیے بے شمار پیکیجز موجود ہیں‘ میں نے ان تمام پیکیجز میں سے چند چیزیں الگ کیں اور اپنے لیے ایک دیسی پیکیج بنالیا‘ ماشاء اللہ میرے والدین حیات ہیں‘ یہ دونوں زندگی کے چوتھے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔
میں نے ان کی چند عادات اور چند مشکلات کو بھی اس پیکیج میں شامل کر لیا‘میرے اس دیسی پیکیج کا پہلا حصہ جسمانی صحت پر مشتمل ہے‘ میں 15 سال سے چوبیس گھنٹے میں صرف ایک روٹی کھا رہا تھا‘ مجھے چینی‘ پراٹھا‘ پوری‘ حلوہ اور سری پائے چھوڑے دو دہائیاںہو چکی ہیں‘ میں نے اب روٹی اور چاول مکمل طور پر چھوڑ دیئے ہیں‘ اگر مجبوری میں کھانی پڑ جائے تو میں آدھی روٹی اور چاول کے تین چمچ لیتا ہوں تاہم میں نے گرِل فش‘ گوشت‘ مرغی کا قیمہ‘ دالیں‘ تازہ سالاد اور فروٹس بڑھا دیئے ہیں۔
میں لنچ نہیں کرتا‘ ڈنر شام ساڑھے چھ بجے کر لیتا ہوں‘ سارا دن پانی پیتا رہتا ہوں اور یہ پانی بھی جب پیتا ہوں دو گلاس پیتا ہوں‘ پورا دن دار چینی‘ الائچی‘ پودینہ‘ میتھی اور ادرک کا قہوہ پیتا رہتا ہوں‘ دودھ کا ایک گلاس اور ضرورت پڑے تو ایک فریش جوس لے لیتا ہوں‘ مجھے کافی بہت پسند ہے لیکن میں ہفتے میں صرف دو دن کافی پیتا ہوں‘ ہفتے میں چار دن ایکسرسائز کرتا ہوں‘ دو دن واک یا پہاڑوں میں ٹریکنگ کرتا ہوں۔
میں نے بچپن میں تبت کی ایک کہاوت پڑھی تھی‘ آپ اچھی زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو کھانا آدھا کر دیں‘ واک ڈبل کر دیں‘ ہنسنا تین گنا کر دیں اور لوگوں سے محبت چار گنا بڑھا دیں آپ آئیڈیل زندگی گزاریں گے‘ میں نے یہ چاروں اصول زندگی میں شامل کر لیے ہیں‘ پاکستان میں نوے فیصد لوگوں کو پچاس سال میں بلڈ پریشر اور کولیسٹرول ہو جاتا ہے‘ میں ماشاء اللہ بلڈپریشر سے بچا ہوا ہوں تاہم احتیاطاً کولیسٹرول کی دوا شروع کر دی ہے‘ کتابیں‘ میوزک اور فلمیں بھی اینٹی ڈپریشن ہیں‘ یہ تینوں میری زندگی کا حصہ ہیں۔
اولاد انسان کا سب سے بڑا انرجی سورس ہوتا ہے‘ ہم آٹھ بہن بھائی ہیں‘ ماشاء اللہ ہم تمام اپنے والدین کے پاس ہیں‘ ہمارے قرب نے ہمارے والدین کی طویل عمری میں بڑا حصہ ڈالا‘ میرے بچے بھی ماشاء اللہ میرے ساتھ ہیں‘ ہم نے کسی کو اعلیٰ تعلیم یا روزگار کے دھوکے میں دور نہیں ہونے دیا‘ یہ دو ہفتوں سے زیادہ ملک سے باہر نہیں رہ سکتے‘ مجھے سفر توانائی دیتا ہے‘ میں سفر بڑھاتا چلا جا رہا ہوں۔
میں سوموار سے جمعرات تک لائیو شو کرتا ہوں‘ مہینے کی آخری جمعرات شو کر کے باہر چلا جاتا ہوں اور سوموار کو واپس آ جاتا ہوں‘ میرا شوق بھی پورا ہو جاتا ہے اور کام کا حرج بھی نہیں ہوتا‘ میں سمجھتا ہوں میں اپنا یہ شوق زندگی کے چوتھے حصے میں پورا نہیں کر سکوں گا‘ میں نے جو آج کر لیا وہ ہو گیا‘ میں وہ کل نہیں کر سکوں گا۔
میں سمجھتا ہوں پچاس سال کے بعد خاندان کے علاوہ آپ کا کوئی دوست نہیں ہوتا‘ آپ خاندان کو جتنا وقت دیں گے آپ کا رشتہ اس سے اتنا مضبوط ہو گا‘ ہمیں تیسرے موسم میں نئے دوستوں کی ضرورت بھی ہوتی ہے‘ آپ نئے دوست بنائیں لیکن یہ لوگ آپ کے ہم عمر اور تجربہ کار ہونے چاہئیں‘ یہ آپ جیسے مسائل سے گزر رہے ہوں گے چنانچہ یہ آپ کی روزانہ مدد کریں گے۔
ہماری سوسائٹی کا ایک بڑا المیہ سکھانے کی کمی ہے‘ ہم اپنی زندگی کے تجربات ساتھ لے کر چلے جاتے ہیں‘ آپ پچاس سال میں دوسروں کو سکھانا شروع کر دیں‘ آپ یونیورسٹی‘ کالج اور اسکول میں ہفتے میں ایک کلاس لے لیں یا پھر محلے کے بچوں کو پڑھانا اور سکھانا شروع کر دیں‘ آپ اگر مرنے سے پہلے کسی ایک نوجوان کو اپنا ہنر اور زندگی کے تجربات سکھا گئے تو آپ کی زندگی رائیگاں نہیں جائے گی۔
آپ پچاس سال کے بعد منی چینجرز‘ ڈبل شاہ اور پراپرٹی ڈیلرز سے بھی پرہیز کریں‘ یہ لوگ لالچ دینے کے ماہر ہوتے ہیں‘ آپ لالچ میں آ جائیں گے اور یوں آپ نے پچھلے پچیس سال میں جو کچھ کمایا آپ وہ ضایع کر بیٹھیں گے تاہم یہ بھی حقیقت ہے زمین دنیا کی واحد چیز ہے جس پر سرمایہ کاری میں کسی کو گھاٹا نہیں پڑتا‘ آپ اپنی فالتو رقم سے زمین خریدیں لیکن وہ زمین کلیئر ہونی چاہیے۔
آپ کو ادائیگی سے پہلے قبضہ ملنا چاہیے اور آپ کو کسی کے ساتھ حصہ دار نہیں ہونا چاہیے‘ وہ خواہ آپ کا بھائی ہی کیوں نہ ہو‘ پچاس سال کے بعد ایک سٹریس فری آرام دہ دن اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے‘ آپ جتنا ممکن ہو یہ انعام حاصل کریں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں‘ پچاس سال کے بعد آپ کو کورٹ کچہری میں نہیں جانا چاہیے چنانچہ آپ پر اگر کوئی مقدمہ ہے یا آپ نے کوئی مقدمہ کر رکھا ہے تو آپ اسے دوچار سال میں سیٹل کر لیں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو آپ مقدمے کا بیگ اپنے کسی بچے کے حوالے کر دیں‘ وہ جانے اور اس کا کام جانے اور میں پچاس سال کی عمر تک پہنچ کر اس نتیجے پر پہنچا ہوں۔
انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کسی سہارے‘ کسی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی‘ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہے‘ آپ اگر محنتی ہیں اور آپ اگر اپنے کام کے ماہر ہیں تو پھر دنیا میں کوئی شخص آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘ آپ کی قبر مرنے کے بعد بھی روشن رہے گی اور آخری بات‘ زندگی میں ہر تکلیف برداشت کر جائیں لیکن ذلت برداشت نہ کریں کیونکہ انسان کو تکلیفیں نہیں مارتیں ذلت مارتی ہے۔
Source
Must Read urdu column teesra Mousam by Javed Chaudhry