ٹرائی کرنے میں کوئی حرج نہیں- جاوید چوہدری
آپ یقین کریں میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وزیراعظم عمران خان کا فین ہوتا چلا جا رہا ہوں‘ اللہ تعالیٰ نے انھیں فیصلے کرنے اور پھر فیصلے واپس لینے کی جو حیران کن صلاحیت ودیعت کر رکھی ہے وہ پاکستان تو کیا پورے ایشیا کے کسی دوسرے لیڈر میں موجود نہیں‘ یہ ڈنکے کی چوٹ پر بڑے بڑے فیصلے کرتے ہیں اور انھیں کوئی روک سکتا ہے اور نہ ہی یہ کسی مخالف رائے سے گھبراتے ہیں‘ آپ بے شک ان کے سامنے ماضی کے کلپس‘ تقریروں اور وعدوں کا انبار لگا دیں۔
یہ گھبرائیں گے‘ شرمائیں گے اور نہ اپنے تازہ ترین موقف سے پیچھے ہٹیں گے‘ مجھے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ یقین بھی ہوتا جا رہا ہے یہ کسی نہ کسی دن ریاست مدینہ بھی بنا دیں گے‘ پاکستان امارات اسلامی ہو جائے گا‘ یہ امیرالمومنین ہوں گے اور ہم سب باقی زندگی اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں گزاریں گے۔
آپ کپتان کے ویژن کی ساخت‘ وزن اور حجم ملاحظہ کیجیے‘ پنجاب میں تین برسوں میں ساتواں آئی جی اور پانچواں چیف سیکریٹری آ گیا لیکن ان میں سے کوئی شخص وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے ویژن میں فٹ نہیں ہو سکا‘ بیورو کریسی اور عوام تھک گئے لیکن عثمان بزدار اور عمران خان دونوں مایوس نہیں ہوئے‘ یہ آج بھی یہ سمجھتے ہیں‘ یہ دنیا کو کسی نہ کسی دن پانی سے گاڑی چلا کر دکھائیں گے‘ یہ پنجاب کو اڑتا پنجاب بنا کر رہیں گے‘ کیا یہ کمال نہیں؟ اگر یہ بھی کمال نہیں تو پھر کمال کیا ہوتا ہے؟
پنجاب کے اس وقت تین بڑے المیے ہیں‘ پنجاب کا پہلا المیہ اہلیت ہے‘ یہ درست ہے آپ اگر پنجاب کی اہلیت کو عالمی یا ایشیائی سطح پر رکھ کر دیکھیں گے تو ہم انڈیکس میں بہت نیچے ہوں گے لیکن آپ اگر پنجاب کو دوسرے صوبوں کے معیار پر پرکھیں تو آپ کو یہ صوبہ بہت آگے محسوس ہو گا‘ آپ آج بھی دوسرے صوبوں سے ہوتے ہوئے پنجاب میں داخل ہوں‘ آپ کو ہر شعبے میں واضح فرق محسوس ہو گا‘ ہم پنجاب پولیس کو روز گالی دیتے ہیں لیکن ہمیں بہرحال یہ ماننا ہوگا یہ پولیس باقی صوبوں کی پولیس سے بہت آگے ہے‘ 23 جون2021کو حافظ سعید صاحب کی رہائش گاہ کے قریب کار دھماکا ہوا‘ پولیس نے 24 گھنٹے میں پاکستان‘ دوبئی اور بھارت تک پھیلا نیٹ ورک پکڑ لیا۔
9 ستمبر 2020 کو موٹروے پر ریپ کیس ہوا‘ پولیس نے پہلا ملزم چھ دن اور دوسرا 33 دن میں پکڑ لیا اور یہ بھوسے میں سے سوئی تلاش کرنے کے برابر تھا اور 14 اگست کو مینار پاکستان کا واقعہ پیش آیا اور پولیس نے10دنوں میں پورے پنجاب سے 130 ملزم پکڑ لیے‘ آج بھی فارنزک لیب ہو یا پھر ملزموں کا ڈی این اے ریکارڈ ہو یہ صرف پنجاب کے پاس ہے۔
پنجاب کے پاس چلیں کم از کم بدلنے کے لیے ہی سہی پانچ سات آئی جی تو ہیں جب کہ دوسرے صوبوں کو آئی جی اور چیف سیکریٹری دونوں امپورٹ کرنا پڑتے ہیں‘ ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا پنجاب میں جب کسی نااہل شخص کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا دیا جاتا ہے تو وہ زیادہ عرصہ نہیں چل پاتا مثلاً آپ سابق آئی جی انعام غنی کو لے لیجیے‘ انھوں نے ایک غلط فیصلہ کیا اور پنجاب میں جرائم کی تعداد دگنی ہو گئی‘ انعام غنی نے اعلان کیا ہم اس انسپکٹر کو ایس ایچ او نہیں لگائیں گے جس کے خلاف دو پرچے ہوں گے‘ یہ فیصلہ بظاہر ٹھیک محسوس ہوتا ہے لیکن یہ پنجاب کی حقیقت سے میچ نہیں کرتا تھا۔
پنجاب میں کارآمد اور تگڑے انسپکٹروں کے خلاف پرچے بھی ضرور ہوتے ہیں اور انھیں عدالتوں میں ضرور دھکے کھانا پڑتے ہیں‘ یہاں ’’صاف ستھری نوکری‘‘ صرف ڈھیلے اور نااہل افسر کرتے ہیں‘ آئی جی نے زمینی حقائق کے برخلاف فیصلہ کیا اور کارآمد‘ ایکٹو اور اہل انسپکٹر سائیڈ لائن ہو گئے‘ ڈھیلے اور نالائق اوپر آ گئے اور یوں حالات خراب ہو گئے‘ پنجاب کا دوسرا المیہ نیم دلانہ کمپرومائز ہے‘ پنجابی افسر بھی دوسرے افسروں کی طرح کمپرومائز کرتے ہیں لیکن یہ حد سے آگے نہیں جاتے‘ یہ تھک جاتے ہیں اور پھر انکار کر دیتے ہیں۔
پنجاب کے پچھلے چھ آئی جیز اور چار چیف سیکریٹریز شروع میں وزیراعظم ہاؤس‘ وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور پرنسپل سیکریٹری ٹو سی ایم طاہر خورشید کے جائز ناجائز مطالبات مانتے رہے لیکن پھر یہ تھک گئے اور انھوں نے ٹالنا شروع کر دیا‘ انعام غنی کے معاملے میں صورت حال مزید گھمبیر ہو گئی‘ آئی جی کے ناجائز احکامات ان کے ماتحتوں نے بھی ماننے سے انکار کر دیا تھا لہٰذا یہ ایک سال میں فارغ ہو کر گھر چلے گئے‘ اب ان کی جگہ راؤ سردار علی خان آئی جی پنجاب بن چکے ہیں‘ یہ ایمان دار بھی ہیں۔
اہل بھی ہیں اور یہ پنجاب پولیس میں تمام عہدوں پر کام بھی کر چکے ہیں اور یہ تمام چیزیں ان کا ’’ڈس کریڈٹ‘‘ ہیں‘‘لہٰذا یہ وسیم اکرم پلس کی چار پانچ گیندیں بھی برداشت نہیں کر سکیں گے اور پنجاب بہت جلد آٹھویں آئی جی کی زیارت پر مجبور ہو جائے گا‘ میرا خیال ہے راؤ سردار علی خان کو اس بار وزیراعلیٰ تبدیل نہیں کریں گے بلکہ آئی جی خود چھٹی لے کر گھر چلا جائے گا اور اس کے ساتھ ہی پنجاب میں پولیس ریفارمز اور تبدیلی کا ایجنڈا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائے گا‘ کیوں؟ کیوں کہ راؤ سردار علی خان پنجاب پولیس کی آخری امید ہیں۔
پنجاب میں ان کے بعد کوئی ایسا سینئر افسر نہیں جو اڑھائی لاکھ جوانوں کی فورس کمانڈ کر سکے‘ چیف سیکریٹری کامران افضل کا المیہ بھی اس سے ملتا جلتا ہے‘ یہ بھی اہل اور ایمان دار ہیں لہٰذا یہ بھی عن قریب حکومت سے الجھ پڑیں گے اور حکومت نیا پنجاب بنانے کے لیے کوئی نیا کندھا تلاش کرنے پر مجبور ہو جائے گی اور پنجاب کا تیسرا اور آخری المیہ‘ پنجاب ایک بڑا صوبہ ہے‘ یہ اکیلا صوبہ 236ملکوں سے بڑا ہے۔
اس کی آبادی 11کروڑ ہے چناں چہ ایسے صوبے کو چلانا خالہ جی کا گھر نہیں لیکن ہم ہمیشہ کوئی نہ کوئی خالو تلاش کر کے 236 ملکوں سے زیادہ آبادی کے اس صوبے کی عنان اس کے حوالے کر دیتے ہیں‘ہم 11 کروڑ لوگوں کا جہاز کسی نہ کسی ناتجربہ کار پائلٹ کے حوالے کر دیتے ہیں اور وہ جہاز کو کبھی کھیتوں میں اتار دیتا ہے اور کبھی دریا میں‘ پنجاب کا کیا بنتا ہے میں نہیں جانتا لیکن کم از کم یہ ضرور ثابت ہو جائے گا صرف منہ سے کہنے سے کوئی شخص وسیم اکرم ہو سکتا ہے اور نہ وسیم اکرم پلس‘ وہ بہرحال سات آٹھ آئی جیز اور پانچ چیف سیکریٹریز کے بعد بھی بزدار ہی رہتا ہے۔
مجھے یہ ملک بعض اوقات کرنل قذافی کا لیبیا‘ صدام حسین کا عراق اور حافظ الاسد کا شام بنتا محسوس ہوتا ہے‘ یہ تمام حضرات بھی وسیم اکرم پلس تھے لہٰذا یہ اپنے اپنے ادوار میں صدر بھی تھے‘ آرمی چیف بھی‘ چیف جسٹس بھی اور مفتی اعظم بھی‘ ہم بھی اگر نہ رکے تو وہ وقت دور نہیں جب حکومت الیکٹرانک ووٹنگ مشین متعارف کرانے کے لیے شبلی فراز کو چیف الیکشن کمشنر‘ بابر اعوان کو چیف جسٹس آف پاکستان بنا دے گی اور وزیراعظم خود چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن جائیں گے اور محترم علی امین گنڈا پور کو وفاقی وزیر کے ساتھ ساتھ چیف سیکریٹری کے اختیارات بھی دے دیے جائیں گے اور شیخ رشید وزارت داخلہ کے ساتھ ساتھ چاروں صوبوں کے آئی جی بھی ہوں گے۔
کیوں؟ کیوں کہ وزیراعظم کے ویژن اور تبدیلی کو آج تک ان کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکا‘ آپ کسی دن حکومت کا تین سال کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں‘ حکومت مہنگائی کنٹرول نہ کر سکے تو وزراء بڑے مزے سے فرما دیتے ہیں لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ ہو رہا ہے‘ کرکٹر وزیراعظم کرکٹ ٹھیک نہ کر سکے تو یہ اسے بھی پچھلی حکومتوں پر ڈال دیتے ہیں‘ ڈاکٹر عشرت حسین نے اداروں میں ریفارمز کرنی تھیں‘ یہ تین سال میں ایک کتاب چھاپ کر گھر چلے جاتے ہیں‘ وزیراعظم کو تین برسوں میں کام کا وزیر نہیں ملتا‘ یہ کبھی ایک وزیر کو کرسی سے اٹھا کر دوسری پر بٹھاتے ہیں اور کبھی اسے تیسری کی طرف روانہ کر دیتے ہیں‘ تین برسوں میں چوتھا وزیرخزانہ آ چکا ہے اور پانچویں کے انٹرویوز چل رہے ہیں۔
ایف بی آر میں ساتواں چیئرمین بیٹھا ہے اور یہ چیئرمین بھی کب تک چیئرمین رہے گا اسے کوئی نہیں جانتا‘ آٹا کیوں مہنگا ہوا‘ چینی‘ دالیں اور گھی کون مہنگا کر رہا ہے اور ڈالر اسٹاک ایکس چینج کی طرح روز کیوں اوپر جا رہا ہے‘ پنجاب میں جرائم اور کرپشن کیوں کنٹرول نہیں ہو رہی اور وزارت خارجہ کس نے چلانی ہے یہ بھی کوئی نہیں جانتا لہٰذا پھر آخر میں کیا آپشن بچتا ہے؟ وزیراعظم کو چاہیے یہ اب سارے عہدے اپنے اختیار میں لے لیں۔
یہ صدام حسین بن جائیں‘ یہ ہفتے میں ایک دن آئی جی کی یونیفارم بھی پہن لیا کریں‘ شاید اس سے ہی ان کا ویژن کسی کو سمجھ آ جائے‘ شاید اس سے ہی نیا پاکستان بن جائے لہٰذا میرا مشورہ ہے ٹرائی کرنے میں کوئی حرج نہیں‘ ہم عثمان بزدار کو بھی تو ٹرائی کر رہے ہیں‘ یہ بھی کر کے دیکھ لیتے ہیں ‘ یہ نسخہ بھی اگر فیل ہو گیا تو اللہ بھلا کرے اپوزیشن موجود ہے‘ ہم یہ بھی اس کے کھاتے میں ڈال دیں گے۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Try karne main koi harj nahi By Javed Chaudhry