تو پھرتم اٹھ نہیں سکو گے – جاوید چوہدری
لطیف صدیقی کراچی میں پیدا ہوئے‘ جہاز رانی کے اسکول میں تعلیم حاصل کی‘ نیول انجینئر بنے‘ استاد کے ساتھ ان کا پھڈا ہو گیا اور استاد نے انھیں سرٹیفکیٹ دینے سے انکار کر دیا‘ یہ مایوس ہو کر سنگا پور آ گئے‘ شپنگ کمپنی میں نوکری کر لی۔
کمپنی میں بھارتی اور برطانوی ان کے سینئر تھے‘ یہ دونوں ان کی صلاحیتوں کے اس قدر معترف ہو گئے کہ یہ ان کے سفارشی بن گئے‘ ان کا کیس پارلیمنٹ میں گیا‘ سنگا پور کا قانون تبدیل ہوا اور انھیں سنگا پور میں نوکری بھی ملی اور شہریت بھی‘ یہ اس وقت اپنی شپنگ کمپنی چلا رہے ہیں‘ ان کے جہاز آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ اور لاطینی امریکا سے 80 اور 90 ہزار جانورسعودی عرب اور دوسری گلف اسٹیٹس پہنچاتے ہیں‘ ان کا شمار سنگا پور کے خوش حال پاکستانیوں میں ہوتا ہے‘ کراچی میں بھی آفس ہے اورسنگا پور میں بھی۔
عمران خان کے دور میں انھوں نے حکومت پاکستان کو پروپوزل دی تھی آپ اگر مجھے موقع دیں تو ہم پاکستان کی مرچنٹ نیوی کو خودمختار بھی کر سکتے ہیں اور اس کا سائز بھی بین الاقوامی بنا سکتے ہیں مگر یہ پروپوزل ذلفی بخاری اور علی زیدی کے درمیان فٹ بال بن کر ختم ہو گئی‘ میں پچھلے ہفتے دو دن کے لیے سنگا پور گیا تو مجھے لطیف بھائی کے ساتھ واک کا اتفاق ہوا‘ یہ رات کے وقت ہوٹل آ جاتے تھے اور میں ان کے ساتھ آرچرڈ روڈ پر واک کرتا تھا‘ یہ اس دوران مختلف ملکوں اور بحری سفروں کی کہانیاں سناتے تھے۔
ان کا کہنا تھا مرچنٹ نیوی شان دار پروفیشن ہے‘ پوری دنیا میں اس کی مانگ ہے‘اس میں پیسہ بھی ہے اور ایکسپوژر بھی‘ آپ نوجوانوں کو بتائیں یہ اس شعبے میں آئیں‘ یہ دنوں میں امیر بھی ہو جائیں گے اور پوری دنیا بھی ان کے لیے کھل جائے گی‘ کراچی میں اس کی ٹریننگ کا انسٹی ٹیوٹ موجود ہے اور اس میں داخلے کے لیے زیادہ کوالی فکیشن اور اہلیت کی بھی ضرورت نہیں ہوتی‘ یہ لوگ دوران تعلیم نوکری بھی کر سکتے ہیں‘ میں نے ان سے وعدہ کیا میں باقاعدہ ریسرچ کر کے اس پر وی لاگ بھی کروں گا اور کالم بھی لکھوں گا۔
ہم آرچرڈ روڈ پر واک کر رہے تھے تو لطیف صدیقی نے اپنے ہارٹ اٹیک کا واقعہ سنایا‘ ان کا کہنا تھا میں شام کے وقت گھر پر بیٹھا تھا‘ میرے بچے ٹی وی دیکھ رہے تھے اور وڈیو گیمز کھیل رہے تھے جب کہ بیگم اسپتال میں ڈیوٹی پر تھیں (لطیف صدیقی کی بیگم ڈاکٹر ہیں) مجھے جسم میں اچانک گھبراہٹ سی محسوس ہوئی‘ میں اٹھ کر آرام کے لیے بیڈ روم میں آ گیا‘ میں بیڈ پر لیٹا تو مجھے آواز آئی ’’اگر تم لیٹ گئے تو پھر تم اٹھ نہیں سکو گے‘‘ میں نے حیرت سے دائیں بائیں دیکھا مگر کمرے میں کوئی نہیں تھا‘ میں نے اسے غیبی اشارہ سمجھا اور میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔
مجھے جسم کے کسی حصے میں درد یا تکلیف محسوس نہیں ہو رہی تھی بس ذرا سی بے چینی تھی لیکن میرا وجدان کہہ رہا تھا میں موت کی دہلیز پر بیٹھا ہوا ہوں اور مجھے اپنے آپ کو بچانے کے لیے کچھ کرنا چاہیے لہٰذا میں اٹھا‘ کمرے کا دروازہ کھولا اور اونچی آواز میں اپنے بچوں سے کہا ’’یہ ایمرجنسی ہے تم لوگ فوراً ٹی وی بند کر دو‘ ایمبولینس بلائو اور ہمسائے کو میرے پاس لے آئو‘‘ بچوںنے ٹی وی بند کیا‘ ایمبولینس کو فون کر دیا اور بھاگ کر ہمسائے کو لے آئے‘ یہ بے چارہ بنگالی ہے اور میرے ساتھ اس کی بہت اچھی علیک سلیک ہے‘ میں اس وقت تک بیڈ پر لیٹ کر اونچی آواز میں کلمہ پڑھ رہا تھا۔
مجھے یوں محسوس ہورہا تھا‘ میرا آخری وقت آ گیا ہے اور میں اب موت سے زیادہ دور نہیں ہوں‘ میرا ہمسایہ ڈر گیا اور وہ بھی دروازے کے ساتھ لگ کر اونچی آواز میں کلمہ پڑھنے لگا‘ سنگا پور میں حکومت نے مختلف جگہوں پر ایمبولینسز کھڑی کی ہوتی ہیں‘ یہ تین منٹ میں مطلوبہ جگہ پر پہنچ جاتی ہیں‘ میری ایمبولینس بھی فوراً پہنچ گئی‘ انھوں نے مجھے دیکھا‘ میری زبان کے نیچے گولی رکھی‘ اسپتال میں ڈاکٹر کو اطلاع دی اور مجھے اٹھا کر اسپتال کی طرف دوڑ پڑے‘ ہمارے اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی آپریشن تھیٹر اور ڈاکٹرز تیار تھے۔
مجھے فوراً تھیٹر لے جایا گیا اور 40 منٹ میں میری اینجیو گرافی کر کے میری بند وین کھول دی گئی‘ میرے خون میں کلاٹ بن گیا تھا‘ میں اگر بروقت اطلاع نہ کرتا تو میں واقعی بیڈروم میں فوت ہو چکا ہوتا‘ اللہ کو میری زندگی منظور تھی چناں چہ میں بچ گیا‘ میں نے اس کے بعد اپنا لائف اسٹائل بھی تبدیل کر دیا‘ کھانا بھی اور میں اب ریگولر واک بھی کرتا ہوں‘ میں نے لطیف صدیقی سے پوچھا‘ آپ کو کیسے پتا چلا آپ کو ہارٹ اٹیک ہو رہا ہے‘ ان کا کہنا تھا یہ عجیب بات ہے۔
میں نے ہارٹ اٹیک کے بارے میں کوئی لٹریچر پڑھا تھا اور نہ میرے جسم میں کسی قسم کے اثرات تھے بس مجھے ایک آواز آئی تھی‘ میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور میں نے فوری انتظامات کرا دیے‘ میں نے ان سے اتفاق کیا اور عرض کیا قدرت انسان کو ہر حادثے یا مصیبت سے پہلے اسے اطلاع ضرور دیتی ہے‘ انسان اگر اس سگنل کو اللہ کی آواز سمجھ لے اور یہ آپ کی طرح اٹھ کر اپنا بندوبست کر لے تو یہ بچ جاتا ہے لیکن اگر یہ اسے وہم سمجھ کر جھٹک دے تو پھر اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا‘ ہماری بات چیت اس کے بعد تبدیل ہو گئی اور ہم قدرت کے مختلف اشاروں پر گفتگو کرنے لگے۔
ہم واک کر رہے تھے‘ اس دوران مجھے اس نوعیت کے دو واقعات یاد آ گئے‘میرے پاس چندماہ قبل ایک صاحب آئے تھے‘ انھوں نے بتایا ’’میں چند سال پہلے اپنے دوستوں کے ساتھ گاڑی پر جا رہا تھا‘ مجھے راستے میں کسی نے کان میں کہا تم اس گاڑی سے فوراً اتر جائو اس کاایکسیڈنٹ ہونے والاہے‘ میں نے حیرت سے دائیں بائیں دیکھا‘ میرے دوست اونگھ رہے تھے‘ان میں سے کسی نے یہ فقرہ نہیں بولا تھا‘ میں نے اسے اپنا وہم سمجھا لیکن پھر نہ جانے کیوں میںنے ڈرائیونگ کرنے والے دوست سے کہا‘ تم مجھے فوراً نیچے اتار دو‘ اس نے حیرت سے پوچھاکیا ہوا‘ خیریت ہے؟
میں نے اس سے کہا‘ میری طبیعت خراب ہو رہی ہے‘ میں قے کر دوں گا اور اس سے تمہاری گاڑی گندی ہو جائے گی‘ میرے دوست نے نئی گاڑی خریدی تھی چناں چہ اس نے فوراً بریک لگا دی‘ میں گاڑی سے اترا اورسڑک کے کنارے چائے خانے میں بیٹھ گیا‘دوست کو جلدی تھی‘ اس نے مجھ سے کہا تم یہاں آرام کرو‘ ہم آدھے گھنٹے میں واپس آجاتے ہیں‘ میں نے ہاں میں سر ہلا دیا اور چائے خانے کی چارپائی پر لیٹ گیا‘ میرے دوست گئے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے‘ اگلے موڑ پر ان کاٹرک کے ساتھ ایکسیڈنٹ ہو گیا ‘ میں آج تک حیران ہوں میرے کانوں میں وہ آواز کہاں سے آئی تھی اور میں اگر اس پر توجہ نہ دیتا تو پھر میرا کیابنتا؟
دوسرا واقعہ میرے بزرگ دوست سیف الدین ہسام کا تھا‘ سیف صاحب برٹش کونسل لاہور میں کام کرتے تھے‘ پامسٹ بھی تھے اور انھوں نے ودرنگ ہائیٹس اور جین ائیر جیسے کلاسیک ناولوں کے ترجمے بھی کیے تھے‘ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد جہلم کے مشین محلہ میں رہتے تھے‘ میں ان سے ملاقات کے لیے جہلم جاتا تھا اوران کے مطالعے اور مشاہدے کا جی بھر کرفائدہ اٹھاتا تھا‘ ان کے دل میں اچانک ٹیس اٹھی اور وہ اسلام آباد آگئے‘ میں انھیں ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔
ڈاکٹر نے معائنے کے بعد اینجیو گرافی کا مشورہ دے دیا‘ ان کا عام سا پروسیجر تھا‘ خطرے کی کوئی بات نہیں تھی‘ وہ اینجیو گرافی سے ایک دن قبل میرے گھر تشریف لائے‘ میں ان دنوں راول ٹائون کے ڈیڑھ مرلے کے گھر میں رہتا تھا‘لوگ ان گھروں کو کھرلی ہائوس کہتے تھے‘ راول ٹائون بنیادی طور پر گوالا کالونی تھی‘ سی ڈی اے نے گوالوں کو گھروں کے ساتھ ساتھ بھینسیں باندھنے کے لیے چھوٹے پلاٹس دیے تھے‘ لوگوں نے ان پلاٹس میں دو دو منزلہ مکان بنا کر کرائے پر دے رکھے تھے‘یہ کھرلی ہائوس ہوتے تھے۔
میں اسی قسم کے ایک کھرلی ہائوس میں دو ہزار روپے کرائے پر رہتا تھا‘ ہسام صاحب تشریف لائے‘مجھ سے چائے کی فرمائش کی اور اس کے بعد مجھ سے کہنے لگے‘ جاوید بیٹا میں تم سے آخری بار ملنے آیا ہوں‘ میں کل نہیں بچوں گا‘ میں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا‘ سر دنیا میں روزانہ تیس لاکھ اینجیو گرافی ہوتی ہیں‘ یہ آپریشن نہیں ہے معمولی سا پروسیجر ہے‘ آپ اسے اتنا سیریس کیوں لے رہے ہیں؟ وہ مسکرائے اور میری طرف دیکھ کر بولے‘میرا بھی یہی خیال تھا مگر میں آج صبح لیٹا ہوا تھا تو میرے کان میں آواز آئی ’’سیف کیا تم اپنی زندگی کا آخری دن بھی لیٹ کر گزار دو گے؟‘‘
یہ میرے لیے اشارہ تھا لہٰذا میں تمہارے پاس آگیا اور میں یہاں سے اب اپنے بیٹے کے گھر جائوں گا‘ بیٹے اور بہو سے ملوں گا اور پھر اپنی کتاب کا آخری چیپٹر لکھوںگا‘ میں نے انھیں تسلی دینے کی کوشش کی مگر وہ میری باتوں کو اگنور کر کے مجھے زندگی کے مختلف لیسن دیتے رہے‘ ان کا کہنا تھا زندگی صرف وہ ہے جو ہم گزار رہے ہیں‘ نہ پیچھے کچھ ہے اور نہ آگے چناں چہ زندگی کے ہر دن کو آخری دن سمجھ کر گزارو تاکہ کوئی تاسف‘ کوئی حسرت نہ رہ جائے‘ وہ اس کے بعد اٹھے‘ سیٹلائیٹ ٹائون میں اپنے بیٹے کے گھر گئے۔
اگلے دن اسپتال پہنچے اور اینجیو گرافی کے دوران واقعی انتقال کر گئے‘ میں آج 30 سال بعد جب بھی انھیں یاد کرتا ہوں تو اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں کیا واقعی موت نے انھیں ایک دن پہلے بتا دیا تھا کل تمہارا آخری دن ہو گا‘ مجھے اس سوال کا جواب تیس سال بعد آرچرڈ روڈ پر واک کرتے ہوئے ملا‘ قدرت واقعی موت اور زندگی دونوں سے پہلے انسان کو اطلاع دیتی ہے اور یہ ہم پر منحصر ہوتا ہے ہم اس پیغام کو وہم سمجھتے ہیں یا حقیقت! قدرت بہرحال اپنا فرض ادا کر دیتی ہے۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Tu Phir Tum Uth nahin Sako gay By Javed Chaudhry