ٹائپ رائیٹر – جاوید چوہدری
چوم مے (Chum Mey) 1931میں لویا(Lvea) کے گاؤں تھونوٹ جور میں پیدا ہوا‘ والد بچپن میں فوت ہو گیا‘ خاندان انتہائی غریب تھا‘ یہ لوگ مینڈک اور کیڑے کھانے پر مجبور تھے۔
چوم مے نے پانچ سال کی عمر میں کام شروع کر دیا اور انتہائی خوف ناک مزدوریوں سے ہوتا ہوا آخر میں موٹر مکینک بن گیا‘ قدرت نے اسے مشینیں سمجھنے کی صلاحیت دے رکھی تھی‘یہ ہر قسم کی مشین کو سمجھ بھی جاتا تھا اور اس کا فالٹ بھی دور کر دیتا تھا‘ یہ جوانی میں کمبوڈیا کے دارالحکومت پونوم پین شفٹ ہو گیا اور جیسے تیسے مڈل کلاس زندگی گزارنے لگا‘ 1960 کی دہائی میں کمبوڈیا میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔
ویت نام میں امریکا بیٹھا ہوا تھا‘ سوویت یونین نے امریکا کو شکست دینے کے لیے ویت نام کے کمیونسٹوں کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا ‘ ویت نام امریکا اور روس کی پراکسی بن گیا‘ یہ جنگ پھیلتے پھیلتے کمبوڈیا میں داخل ہوگئی‘ امریکا کمبوڈین حکومت کو فل سپورٹ دینے لگا اور روس کمبوڈین کمیونسٹوں کو اسلحہ اور رقم دینے لگا اور یوں ملک شدید خانہ جنگی کا شکار ہو گیا‘چوم مے نیوٹرل تھا‘ وہ ایک عام مزدور تھا‘ اس کے پاس سرکاری گاڑی آ جاتی تھی تو وہ اسے ٹھیک کر دیتا تھا اور اگر کسی کمیونسٹ کا اسکوٹر یا ٹرک خراب ہو جاتا تھا تو وہ اسے بھی ری پیئر کر دیتا تھا۔
یہ عملاً امریکا اور روس دونوں سے واقف نہیں تھا لیکن جنگ جب بھی چھڑتی ہے تو یہ اپنے اور پرائے کو نہیں دیکھتی‘ یہ سب کو نگل جاتی ہے لہٰذا چوم مے کے ساتھ بھی یہی ہوا‘ امریکی نژاد حکومت بنی تو اس نے چوم مے کو رگڑ دیا اور یہ رو پیٹ کر ان کے لیے کام کرتا رہا اور 1975 میں جب ملک پر کمیونسٹوں نے قبضہ کر لیا تو یہ ملکیت کی طرح ان کے قبضے میں چلا گیا‘ کمیونسٹوں کے لیڈر کا نام پول پاٹ (Pol Pot) تھا‘ وہ اپنی ذات میں ولادی میر لینن تھا‘ اس نے 1975 میں اپنے گوریلوں کے ذریعے پونوم پین پر قبضہ کرلیا اورساری آبادی کو شہر سے نکال دیا۔
پچاس لاکھ لوگ بچوں‘ بوڑھوں اور بیماروں کے ساتھ اندھا دھند دوڑنے لگے‘ یہ لوگ راستے میں کیڑے‘ مینڈک اورپتے کھاتے تھے اور کھلے آسمان کے نیچے سوتے تھے چناں چہ ہزاروں لوگ راستے میں مر گئے‘ کمیونسٹ فورسز بھی لوگوں کو روک کر گولی مار دیتی تھیں‘ پورے ملک میں لاشیں بکھری ہوئی تھیں‘ نقل مکانی کے شکار ان لوگوں میں چوم مے اور اس کا خاندان بھی شامل تھا‘ بہرحال قصہ مختصر اس سفر کے دوران کمیونسٹوں کو پتا چلا چوم مے مکینک ہے۔
نئی حکومت نے پورے ملک کے لیے بلیک یونیفارم لازمی قرار دی تھی‘ حکومت نے کپڑوں کی تمام فیکٹریاں‘ گودام اور دکانیں قبضے میں لے لیں‘ کپڑے کو سیاہ رنگ میں رنگا اور مختلف سائز کے لباس بنا کر عوام میں تقسیم کرنا شروع کر دیے‘ حکومت کو اس کام کے لیے دو قسم کے لوگ چاہیے تھے‘ درزی اور سلائی مشینیں ٹھیک کرنے والے مکینک‘ چوم مے مکینک تھا جب کہ اس کی بیوی درزن لہٰذا ان دونوں کو ان کے بچوں سمیت دارالحکومت لایا گیا۔
بیوی اور چھوٹی بچیوں کو سلائی پر لگا دیا گیا جب کہ چوم مے کو مشینوں کی ری پیئرنگ کی ذمے داری سونپ دے دی گئی‘ اسے ہفتے میں صرف ایک بار اپنی بیوی سے ملاقات کی اجازت دی جاتی تھی‘ یہ لوگ باقی چھ دن ایک دوسرے کی طرف دیکھ بھی نہیں سکتے تھے‘ یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن پھر ایک دن اسے گرفتار کر لیا گیا۔
کمیونسٹ حکومت نے ملک میں 129 جیلیں بنا رکھی تھیں‘ یہ لوگوں کو اٹھاتے تھے‘ جیلوں میں پھینکتے تھے اور قیدی اس کے بعد بہیمانہ تشدد کا رزق بن کر مر کھپ جاتے تھے‘ پونوم پین میں بھی آدھ درجن جیلیں تھیں‘ تول سلنگ (Tuol Sleng) جیل ان میں سے ایک تھی‘ یہ عمارت بنیادی طور پر ہائی اسکول تھا‘ کمیونسٹ حکومت نے قبضہ سنبھالتے ہی اسے جیل میں تبدیل کر دیا‘ چوم مے کو اس جیل میں لایا گیا تو اس کی ہول ناکی نے اس کی روح تک تار تار کر دی۔
جیل میں قیدیوں پر اتناظلم کیا جاتا تھا کہ ظلم کو بھی ترس آ جاتا تھا‘ قیدیوں کو زنجیروں میں باندھ کر فرش پر ننگا لٹا دیا جاتا تھا‘ ان کے جسموں پر اتنے تازیانے برسائے جاتے تھے کہ وہ اپنے ہی خون میں ڈوب جاتے تھے‘ تشدد کے بعد انھیں جانوروں کی طرح چھوٹے چھوٹے پنجروں میں بند کر دیا جاتا تھا‘ قیدیوں کو اپنا بول وبراز چاٹنے پر مجبور کیا جاتا تھا‘ خوراک نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی چناں چہ یہ لوگ چیونٹیاں‘ کاکروچ اور چھپکلیاں تک کھا جاتے تھے۔
تول سلنگ میں 12 ہزار قیدی تھے‘ ان قیدیوں کو شہر سے باہر کھیتوں میں لے جایا تھا‘ کھیتی باڑی کرائی جاتی تھی اوریہ لوگ جب تشدد‘ نامساعد حالات اور بھوک سے مر جاتے تھے تو انھیں وہیں دفن کر دیا جاتا تھا‘ ان کھیتوں کو آنے والے دنوں میں کلنگ فیلڈز کا نام دیا گیا‘ یہ آج بھی سیکڑوں کی تعداد میں کمبوڈیا میں موجود ہیں اور وہاں دس‘ دس ہزار لوگوں کی اجتماعی قبریں ہیں‘ اس زمانے میں کمبوڈیا کی کل آبادی 70 لاکھ ہوتی تھی‘ پول پاٹ نے ان میں سے 30 لاکھ لوگوں کو قتل کر دیا یوں کمبوڈیا کی ایک تہائی آبادی کا صفایا ہو گیا۔
پول پاٹ صرف قیدی کو نہیں مارتا تھا بلکہ جیل سے باہر اس کے پورے خاندان کو بھی قتل کر دیا جاتا تھا تاکہ مستقبل میں کوئی شخص اس سے انتقام نہ لے سکے‘ قیدیوں کو قتل کرنے کے لیے گولی مارنا جرم تھا‘ کیوں؟ کیوں کہ قیدیوں پر گولی ضایع کرنا قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے مترادف سمجھا جاتا تھا چناں چہ قیدیوں کو ذبح کیا جاتا تھا یا پھر پتھر اور اینٹیں مار مار کر ان کا سرکچل دیا جاتا تھا یا پھر انھیں انتہائی زخمی حالت میں کھائی میں گرا کر ان پر مٹی ڈال دی جاتی تھی۔
چوم مے تول سلنگ جیل میں رہا‘ یہ خوفناک تشدد کا نشانہ بنا لیکن یہ ایک خراب ٹائپ رائیٹر کی وجہ سے موت سے بچ گیا‘ ٹائپ رائیٹر اس زمانے میں اہم ترین سرکاری مشین تھی‘ تول سلنگ کے جیلر کا ٹائپ رائیٹر خراب ہو گیا‘ اسے پتا چلا چوم مکینک ہے‘ اسے بلایا گیا اور چوم مے نے ٹوٹی ہڈیوں کے باوجود ٹائپ رائیٹر ٹھیک کر دیا‘ یہ کارنامہ دوسری جیلوں تک گیا تو وہاں سے بھی ٹائپ رائیٹر آنے لگے‘ یہ انھیں بھی ری پیئر کر دیتا تھا۔
جیلوں کے بعد سرکاری دفتروں سے بھی ٹائپ رائیٹرز کی آمد شروع ہو گئی حتیٰ کہ چوم مے کو پول پاٹ کا ٹائپ رائیٹر بھی ٹھیک کرنا پڑ گیا لہٰذا اس کی مہارت نے اسے بچا لیا‘ تول سلنگ جیل کے 12 ہزار قیدیوں میں سے صرف 7 زندہ بچے اور چوم مے ان خوش نصیبوں میں شامل تھا‘ ان سات میں سے دو اب تک حیات ہیں‘ ان دونوں نے اپنے جیل کے دنوں پر کتابیں لکھیں‘ یہ کتابیں بیسٹ سیلر بھی رہیں اور ان پر اب تک درجن کے قریب فلمیں اور ڈاکومینٹریزبھی بن چکی ہیں۔
کمبوڈین حکومت نے تول سلنگ جیل کو جینوسائیڈ (قتل عام) میوزیم بنا دیا ہے‘ چوم مے اور جیل کے دوسرے سروائیور بو مینگ دونوں اس میوزیم کے ملازم ہیں‘ ایک کی عمر 89 سال ہے اور دوسرے کی 91 سال‘ دونوں کو کم دکھائی دیتا ہے لیکن یہ اس کے باوجود اپنی ڈبڈبائی آنکھوں سے روزانہ سیکڑوں سیاحوں سے ملتے ہیں‘ آٹو گراف کے ساتھ انھیں اپنی کتابیں پیش کرتے ہیں اور ان کے ساتھ تصویریں بنواتے ہیں۔
جمعہ 9 دسمبر کو میں نے بھی چوم مے کے ساتھ تصویر بنوائی اور دس ڈالر کے عوض اس کی کتاب خریدی‘ وہ اپنے رعشہ زدہ ہاتھوں کے ساتھ دیر تک میرا ہاتھ جھلاتا رہا اور اپنی زبان میں مجھے اور میرے خاندان کو دعائیں دیتا رہا‘ وہ ہر سیاح کے خاندان کو سلامتی کی دعا دیتا ہے‘ کیوں؟ کیونکہ پول پاٹ نے اس کا سارا خاندان قتل کر دیا تھا‘ اس کی دو بیٹیاں تک اس خانہ جنگی کی بھینٹ چڑھ گئی تھیں‘ یہ اپنے خاندان کی قبروں تک سے واقف نہیں‘ خاندان کی اہمیت کو اس سے زیادہ کوئی نہیں جانتا لہٰذا یہ اپنے ہر ملاقاتی کے خاندان کے لیے سلامتی کی دعا کرتا ہے۔
تول سلنگ جیل پول پاٹ کی جیلوں میں ایس 21 کہلاتی تھی‘ شہر کے عین درمیان تھی‘ میں جیل میں داخل ہوا اور اس کے مختلف سیلز دیکھے‘ آپ یقین کریں یہ سیلز ہول ناک ہیں‘ تشدد کے آلات آج بھی وہاں موجود ہیں‘ دیواروں اور فرشوں پر 40سال بعد بھی خون کے نشان باقی ہیں‘ قیدی درد کی شدت میں اپنے ناخنوں سے دیواریں چھیلتے رہتے تھے‘ ناخنوں کے نشان بھی اب تک موجود ہیں۔
قیدیوں کی تصویریں اور کلنگ فیلڈ سے نکلنے والی کھوپڑیوں کی تصویریں بھی دیواروں پر لگی ہیں‘ اسکول میں باسکٹ بال کا ایک کورٹ تھا‘یہ کورٹ بعدازاں ٹارچر سینٹر بنا دیا گیا‘ قیدیوں کو پول سے لٹکا کر رسوں سے کھینچا جاتا تھا اور اس دوران ان کی ہڈیاں ٹوٹ جاتی تھیں‘ وہ کورٹ بھی آج تک موجود ہے اور انسان خواہ کتنا ہی سنگ دل کیوں نہ ہو وہ اس میدان میں کھڑے ہو کر اپنے جذبات کنٹرول نہیں کر سکتا‘ میری آنکھیں چھلک پڑیں‘ اسکول کے آخر میں قیدیوں کے ڈربے تھے۔
برآمدے پر خاردار تاریں لگی تھیں جب کہ کلاس رومز کے اندر بلاکس سے چھوٹے چھوٹے ڈربے بنا دیے گئے تھے‘ ہر کلاس روم میں تیس تیس ڈربے تھے‘ 15 اِدھر اور 15 اُدھر‘ ان میں قیدیوں کو جانوروں کی طرح بند کر دیا جاتا تھا‘ سیلوں میں واش روم نہیں تھے۔
اگرقیدی جسمانی ضرورت سے مجبور ہو جاتا تھا تو اسے اپنا فرش اپنی زبان سے چاٹ کر صاف کرنا پڑتا تھا‘ کھانا انتہائی کم دیا جاتا تھا تاکہ قیدیوں میں بھاگنے کی سکت نہ ہو‘ برآمدوں پر خاردار تاریں لگی تھیں‘ گائیڈ نے بتایا کسی خاتون نے برآمدے سے کود کر خودکشی کر لی تھی‘ جیل حکام نے اس کے بعد تاریں لگا کر برآمدے بند کر دیے‘ پول پاٹ قیدیوں کو اپنی مرضی سے مرنے کی سہولت بھی نہیں دینا چاہتا تھا۔
میں آخر میں چوم مے اوربومینگ کے پاس گیا‘ وہ دونوں اپنی بے نور آنکھوں سے مجھے ٹٹول ٹٹول کر دیکھ رہے تھے اور پوچھ رہے تھے اﷲ تعالیٰ نے تم لوگوں کو ہر قسم کے دکھ سے بچا رکھا ہے لیکن تم اس کے باوجود کیوں پریشان رہتے ہو؟
اللہ کا شکر کیوں ادا نہیں کرتے؟ اس نے تمہیں ہر قسم کے امتحان سے بچا رکھا ہے‘ تمہاری زندگی میں کوئی پول پاٹ نہیں‘ میں نے چوم مے کا ہاتھ چوما اور اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کیا‘ اس نے مجھے زندگی کی ان سختیوں سے محفوظ رکھا جن پر موت کو بھی ترس آ جاتا ہے جنھیںدیکھ کر شیطان بھی کانپ اٹھتا ہے۔ یا پروردگار! تیرا احسان ہے‘ ہم کسی قابل نہیں ہیں۔
Source: Express News
Must Read Urdu column Type Writer By Javed Chaudhry