جاوید چوہدری – علما کے کرنے والے کام
لکسٹرنا (Luxturna) آنکھوں کی ایک موروثی بیماری ہے‘ یہ بیماری ’’جینیٹک میوٹیشن‘‘ کی وجہ سے بچوں میں پیدائش کے بعد ظاہر ہوتی ہے‘ مریض کی نظر آہستہ آہستہ کمزور ہوتی جاتی ہے اور یہ جوانی میں پہنچ کر مکمل طور پر اندھا ہو جاتا ہے‘ دنیا میں اس مرض کا کوئی علاج ممکن نہیں تھا‘ ہزاروں بچے اس بیماری کے ساتھ پیدا ہوتے تھے‘ جوانی میں پہنچ کر اندھے ہوجاتے تھے اور باقی زندگی اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار کر گزار دیتے تھے لیکن پھر امریکا میں ایک خاتون سامنے آئی اور اس نے لکسٹرنا کا علاج دریافت کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس خاتون کا نام پروفیسر ڈاکٹر کیتھرائن اے ہائی ہے‘ یہ نومولود بچوں کی ڈاکٹر ہیں‘ ہارورڈ اور یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا میڈیکل اسکول کی ڈگری ہولڈر ہیں اور جین تھراپی پر یقین رکھتی ہیں‘ ڈاکٹر کیتھرائن نے 2013ء میں پنسلوینیا میں سپارک کے نام سے ایک ادارہ بنایا‘ ادارے نے جین تھراپی پر کام شروع کیا اور لکسٹرنا کا علاج دریافت کر لیا‘ یہ علاج جین تھراپی کے ذریعے ممکن ہوا۔
ڈاکٹر کیتھرائن کی ٹیم باریک سوئی کے ذریعے آنکھ کے ریٹنا میں موجود خراب جین نکالتی ہے اور اس کی جگہ نیا اور طاقتور جین ڈال دیتی ہے‘ نیا جین پرانے جین کی جگہ لے لیتا ہے اور یوں مریض کی بینائی بحال ہو جاتی ہے یا پھر اس کے اندھے پن کا سلسلہ رک جاتا ہے‘ یہ پورا عمل 45 منٹ میں مکمل ہو جاتا ہے‘ یہ علاج سردست بہت مہنگا ہے۔
سپارک نے شروع میں علاج کی قیمت ایک ملین ڈالر (بارہ کروڑ روپے) رکھی تھی لیکن پھر ایف ڈی اے (فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن) درمیان میں آئی‘ کمپنی کے ساتھ مذاکرات ہوئے اور کمپنی نے قیمت کم کر کے ایک آنکھ کے لیے 4 لاکھ 25 ہزار ڈالر جب کہ دونوں آنکھوں کے علاج کے لیے ساڑھے آٹھ لاکھ ڈالر طے کر دیے‘ یہ اس وقت دنیا کی مہنگی ترین دواء ہے‘ ایف ڈی اے کی منظوری کے بعد یہ دنیا کی پہلی ایسی جین تھراپی بن چکی ہے جس کے ذریعے موروثی اندھے پن کا علاج ممکن ہو گیا۔
امریکا میں اس وقت یہ بحث بھی چل رہی ہے کیا یہ علاج وقتی ہے یا پھر زندگی بھر کے لیے ہے‘ کمپنی نے دعویٰ کیا ہم نے جس مریض کا علاج کیا وہ تاحیات ٹھیک ہو گیا‘ سپارک کمپنی اور ایف ڈی اے کوشش کررہے ہیں یہ علاج سستے سے سستا ہو جائے تاکہ دنیا بھر کے مریض اس سائنسی انقلاب سے فائدہ اٹھا سکیں‘ حکومت بینکوں سے بھی درخواست کر رہی ہے یہ مریضوں کو قرض دے دیں‘ مریض بینکوں سے قرضہ لے کر علاج کرا لیں اور یہ بعدازاں بینکوں کو بیس پچیس برسوں میں قسطوں میں ادائیگی کر دیں۔
میں بات آگے بڑھانے سے قبل آپ کو ایف ڈی اے کے بارے میں بھی بتاتا چلوں‘امریکا نے 1906ء فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے نام سے ایک وفاقی ایجنسی بنائی‘ ادارے کا کام پورے امریکا میں خوراک اور ادویات کی مانیٹرنگ اور کوالٹی کنٹرول ہے‘ ادارے میں اس وقت 15 ہزار ملازمین ہیں‘ سربراہ ’’کمشنر فوڈ اینڈ ڈرگ‘‘ ہوتا ہے‘ کمشنر کی تقرری صدر کرتا ہے‘ یہ وزیر صحت کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے۔
ایف ڈی اے کا ہیڈ کوارٹر میری لینڈ میں ہے‘ سالانہ بجٹ 5 ارب ڈالر ہے‘ ادارے کا تین چوتھائی حصہ (تقریباً 700 ملین ڈالر) فارما سوٹیکل کمپنیاں ادا کرتی ہیں‘ یہ رقم کمپنیوں کی قانونی ذمے داری ہے‘ پورے ملک میں ایف ڈی اے کے 223 فیلڈ آفس ہیں‘ ایف ڈی اے نے اب چین‘ بھارت‘ بیلجیئم‘ چلی اور برطانیہ میں بھی اپنے دفاتر قائم کر دیے ہیں‘ امریکا کے بے شمار ادارے ان پانچ ملکوں سے ادویات اور خوراک درآمد کرتے ہیں چنانچہ حکومت نے کوالٹی کنٹرول کے لیے ان ممالک میں بھی دفاتر کھول دیے ہیں تاکہ مشکوک خوراک اور غیر معیاری ادویات کو ان ملکوں ہی میں روکا جا سکے‘ یہ امریکا کی سرزمین تک نہ پہنچ سکیں۔
ایف ڈی اے نے امریکا بھر میں 13 جدید لیبارٹریاں بنا رکھی ہیں‘ یہ لیبارٹریاں جب تک کسی خوراک یا دواء کو صحت مند قرار نہ دے دیں امریکا میں اس وقت تک وہ دواء بک سکتی ہے اور نہ ہی خوراک‘ موروثی اندھے پن کی نئی دواء اور طریقہ علاج کی اجازت بھی ایف ڈی اے نے دی اور یہ اب اس کی قیمت کم کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے‘ یہ بہت جلد کوئی ایسا طریقہ بھی نکال لے گا جس کے ذریعے امریکا کے وہ تمام لوگ اور بچے اپنی آنکھوں سے دیکھنا شروع کر دیں گے جو پیدائشی طور پر جینیٹک میوٹیشن کا شکار ہیں‘ ہم اب بات آگے بڑھاتے ہیں۔
آپ کسی دن پاکستان میں موجود بیماریوں کا ڈیٹا نکال لیں‘ آپ یہ ڈیٹا دیکھ کر حیران رہ جائیں گے پاکستان میںتین لاکھ افراد سالانہ ہارٹ اٹیک کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں‘ ہماری 52فیصد آبادی بلڈپریشر کا شکار ہے‘ آپ ملک کی کسی سڑک‘ گلی‘ بازار‘ دکان یا دفتر میں چلے جائیں آپ کو وہاں بلڈ پریشرضرور ملے گا‘ آپ کو لوگ پورے ملک میں اونچی آواز میں بولتے‘ گالی دیتے‘ جھگڑتے اور شکایت کرتے کیوں نظر آتے ہیں۔
لوگ عید‘ شادی اور کمیٹی نکلنے پر رائفلیں اور پستول کیوں نکال لیتے ہیں‘ آپ کو سڑکوں پر افراتفری اور جلد بازی کیوں نظر آتی ہے‘ لوگ ایک دوسرے پر حملہ کیوں کر دیتے ہیں؟ سیدھی بات ہے ہم سب بلڈپریشر کے مریض ہیں چنانچہ ہم ہر وقت لڑنے کے لیے تیار رہتے ہیں‘ پاکستان شوگر کے مرض میں ساتویں‘ ٹی بی میں چھٹے‘ہیپاٹائٹس سی میں دوسرے اورگردے کے امراض میں دنیا میں آٹھویں نمبر پر ہے‘ پاکستان میں ہر سال ڈیڑھ لاکھ افرادکینسر کے مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
پاکستان بچوں کی شرح اموات میں دنیا بھر میں چوتھے نمبر پرہے‘پاکستان ناخالص خوراک اور جعلی ادویات میں بھی دنیا میں بہت آگے ہے‘ آپ کو اس ملک میں دودھ‘ پانی‘ ہوا اور سورج کی روشنی تک خالص نہیں ملتی‘ ہمارے ملک میں ہر سال ہزاروں بچے جینیٹک میوٹیشن کی وجہ سے معذور پیدا ہوتے ہیں۔
لوگوں کو آج بھی رفع حاجت کے بعد ہاتھ دھونے کی عادت نہیں اور یہ اگردھونا چاہیں تو واش رومز میں صابن نہیں ہوتا اور اگریہ موجود ہو تو ہاتھ صاف کرنے کے لیے ٹشو پیپر اور گرم ہوا کی مشینیں نہیں ہیں چنانچہ ہم میں سے ہر دوسرا شخص ہاتھوں پر سیکڑوں قسم کے جراثیم لے کر پھر رہا ہے اور یہ جراثیم ایک شخص سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے میں منتقل ہو رہے ہیں‘ آپ کسی دن ٹھنڈے دماغ سے سوچئے کیا ہم ایک بیمار قوم نہیں ہیں۔
کیا ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی دواء کا محتاج نہیں؟ اور کیا اس بیمار قوم کو مارنے کے لیے کسی دشمن کی ضرورت ہے؟ جی نہیں! ہمیں مارنے کے لیے کسی فوج‘ کسی ایٹمی حملے کی ضرورت نہیں‘ ہم بلڈ پریشر‘ شوگر‘ کینسر اور ہیپاٹائٹس سے ہی مر جائیں گے‘ کیوں؟ کیونکہ جو قوم دواء کے بغیر سروائیو نہ کر سکے اسے مارنے کے لیے کسی دشمن‘ کسی فوج کی ضرورت نہیں ہوتی‘ وہ اپنا ڈیزاسٹر خود ہوتی ہے‘ یہ ایک المیہ ہے۔
آپ اب دوسرا المیہ بھی ملاحظہ کیجیے‘ ایک مریض کو دو صحت مند لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے‘ ایک وہ شخص جو روزانہ اس کی دیکھ بھال کرے اور دوسرا وہ شخص جو اس کے لیے دواء اور ڈاکٹر کا بندوبست کرے‘ آپ پاکستان کے کسی خاندان کو دیکھ لیجیے‘ آپ کو اس کے بجٹ میں ادویات کا ٹھیک ٹھاک حصہ ملے گا‘ آپ کو اس خاندان کے ایک یا دو فرد کسی نہ کسی مریض کی ’’ٹیک کیئر‘‘ کرتے بھی ملیں گے چنانچہ ہم اگر اپنی ایک تہائی آبادی کو مریض سمجھ لیں تو ہمیں دو تہائی آبادی ان کی ادویات پوری کرتی اور ان کی ٹیک کیئر کرتی ملے گی اور یہ ہے ہماری قوم۔ ہمارا المیہ صرف امراض نہیں ہیں۔
ہمارا اصل المیہ ڈاکٹر کیتھرائن اے ہائی جیسے لوگوں کی کم یابی ہے‘ آپ کو پورے ملک میں ڈاکٹر کیتھرائن جیسے لوگ نہیں ملیں گے اور ہمیں یہ بات پلے باندھ لینی چاہیے امریکا کو سپر پاور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے لوگوں نے نہیں بنایا‘ امریکا ڈاکٹر کیتھرائن جیسے لوگوں کی وجہ سے امریکا ہے جب کہ ہم لوگ مریضوں کی فوج کے ساتھ پوری دنیا میں اسلام کا جھنڈا لہرانا چاہتے ہیں‘ ہم امریکا فتح کرنا چاہتے ہیں‘ کیا یہ ممکن ہے؟ جی نہیں۔
ہمارے ملک میں بے شمار مذہبی جماعتیں ہیں‘ آپ تبلیغی جماعت سے لے کر دعوت اسلامی اور جماعت الدعوۃ تک ملک کی تمام مذہبی جماعتوں کا پروفائل نکال لیں اور پھر سوچیں ایک بیمار معاشرے میں ان کا کیا کنٹری بیوشن ہے؟ یہ کیا کر رہی ہیں تو آپ کو افسوس ہوگا‘ کا ش یہ لوگ اگر تبلیغ کے ساتھ ساتھ کسی ایک بیماری کی ذمے داری اٹھا لیں‘ یہ فیصلہ کر لیں ہم تبلیغ اور تربیت کے ساتھ ساتھ ملک سے شوگر‘ بلڈ پریشر‘ کینسر‘ ہیپاٹائٹس سی یا ٹی بی ختم کر دیں گے توکتنے لوگوں کا بھلا ہو گا۔
یہ عوام کو اس مرض کی آگاہی بھی دیں‘ ادویات بھی بنوائیں‘ نئے علاج کے لیے ریسرچ بھی کرائیں اور اسپتال بھی بنوائیں تو آپ خود سوچئے یہ انسانیت کی کتنی بڑی خدمت ہو گی‘ کاش پاکستان میں ٹی بی کا سب سے بڑا اسپتال رائے ونڈ میں بنے اور مولانا طارق جمیل پوری دنیا میں ’’ٹی بی ایمبیسڈر‘‘ کے نام سے جانے اور پہچانے جائیں اور کاش حافظ سعید مریدکے میں دل کا سب سے بڑا اسپتال بنا دیں اور پاکستان میں امراض قلب کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیں تو دس بیس برس بعد ملک کہاں ہو گا؟
یہ کرنے والے کام ہیں‘ کاش یہ لوگ یہ کر گزریں‘ یہ انسانیت کے محسن بن جائیں‘ یہ ٹرمپ‘ مودی اور نیتن یاہو کے بجائے ڈاکٹر کیتھرائن جیسے لوگوں کا مقابلہ کریں تو یہ دنیا رہنے کے قابل بن جائے گی‘ زمین جنت بن جائے گی لیکن ہمارے علماء کرام اس دنیا کو بھلا کر دوسری دنیا کے پیچھے بھاگ رہے ہیں‘ یہ اندھوں کو بینائی دینے کے بجائے دیکھنے والوں کو آنکھیں بند کرنے کا طریقہ سکھا رہے ہیں‘ ہمارا کیا بنے گا؟۔