اردو کے سفر کی جھلکیاں – حسن نثار
کبھی کبھی یہ شکایت سننے کو ملتی ہے کہ میں انگریزی زبان کے لفظ بےدریغ استعمال کرتا ہوں جبکہ ’’شدھ‘‘ اردو کیلئے یہ موزوں نہیں۔ میں اکثر ہلکے پھلکے جواب دے کر موضوع بدل دیتا مثلاً جس معاشرے میں خالص خوراک نہیں ملتی وہاں زبان کیسے خالص ہو سکتی ہے یا یہ کہ اردو زبان کا تو ’’کیریکٹر‘‘ ہی ایسا ہے جس میں کوئی بھی زبان گھسیڑی جا سکتی ہے۔ گفتگو اگر کچھ سنجیدہ ہو جاتی تو میں نوبل انعام یافتہ سائنس دان عبدالسلام کے ایک مضمون کا حوالہ دے کر جان چھڑانے کی کوشش کرتا جس میں آپ نے مشورہ دیا کہ کسی بھی زبان خصوصاً انگریزی کے لفظ دل کھول کر استعمال کرو کہ اس سے زبان ثروت مند ہو گی لیکن لکھتے وقت ریڈر کی آسانی کو مدِنظر رکھو مثلاً سلیکشن کو توڑ کر ’’سی لیکشن‘‘ لکھو تاکہ بچہ بھی آسانی سے سمجھ لے۔ چند روز پہلے پڑھے لکھوں کی محفل میں پھر یہی بحث چھڑ گئی تو پہلی بار میں نے سنجیدگی سے کچھ معروضات پیش کیں تو احباب نے خواہش کی کہ گفتگو کی سمری کسی دن کالم میں سمیٹ دوں تاکہ نوجوان قارئین کو بھی صورتحال کا اندازہ ہو سکے۔
عام معلومات تو یہیں تک محدود ہیں کہ اردو لشکری زبان یعنی مختلف زبانوں کا مجموعہ یعنی کاک ٹیل ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اردو کا خمیر برصغیر میں پہلے سے موجود کسی ایک زبان سے ہی اٹھایا گیا۔
برصغیر کی قدیم زبانوں کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اول آریائی دور سے پہلے کی زبانیں اور دوم آریائی دور کے بعد کی زبانیں۔ آریائی دور سے پہلے کی زبانوں میں منڈاری، بھیلی اور منتھالی زبانیں شامل ہیں جو کول، بھیل، سنتھالی، منڈا اور ساورا قبائل سے منسوب کی جاتی ہیں۔ یہ وہ قبائل ہیں جو دراوڑوں سے پہلے برصغیر میں موجود تھے اور آج تک بھی یہ سب نسبتاً کم تعداد میں راجستھان سے لے کر بہار تک موجود ہیں، رانچی اور ناگپور کے جنگلات میں ان کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے۔ یہ قدیم آسٹریلوی نسل سے خاصی مماثلت و مشابہت رکھتے ہیں، ان کا زمانہ 3ہزار سال قبل مسیح کا ہے جو پاکستان کی ایک قدیم تہذیب آمری نال کا حصہ ہے۔
دراوڑی میں تامل، تیلگو، کناری اور شمالی برصغیر کی براہوی شامل ہیں۔ یہ دراوڑ قبائل سے منسوب ہیں جو آریائوں سے پہلے برصغیر میں موجود تھے۔ آج کل یہ مدراس اور تامل ناڈو کے صوبے میں کہیں کہیں پائی جاتی ہیں۔ ان کا دو ڈھائی ہزار سال قبل مسیح کا زمانہ ہے جو پاکستان کے موہنجو داڑو اور ہڑپہ کی تہذیبوں کا معاصر ہے۔
آریائی دور کے بعد کی زبانوں میں ہند آریائی زبان جو آریہ ہمراہ لائے۔ چاروں وید، اپنیشد اور کالی داس کے ڈرامے اسی زبان میں تحریر کئے گئے تھے۔ یہ ادبی زبان ہونے کے ساتھ اشرافیہ کی بول چال کی زبان بھی رہی لیکن پھر بتدریج متروک ہوتی چلی گئی۔ اس کا زمانہ تقریباً 2000قبل مسیح ہے۔ بھارت کی موجودہ زبان جسے وہ ’’ہندی‘‘ کہتے ہیں، کا خمیر بھی دراصل اسی زبان سے اٹھا ہے۔ پالی، بدھ مت کی مذہبی زبان ہے جسے اشوک اعظم نے اپنے کتبوں وغیرہ میں بھی استعمال کیا ہے۔ اس کے دو رسم الخط تھے۔ مانسہرہ اور شہباز گڑھی کے کتبے کھردشٹری رسم الخط میں جبکہ مشرقی کتبے براہمی رسم الخط میں لکھے گئے ہیں۔
رہ گئی مہاراشٹری تو یہ جنوبی ہند کی زبان ہے جس کا ذکر قواعد نویسوں کے ہاں خصوصیت سے ملتا ہے۔ لوچ اور مٹھاس کی بنا پر موسیقی میں اس کا استعمال بہت کثرت سے ہوتا ہے۔ آج بھی مہاراشٹر کا سنگیت بےحد مقبول ہے تو اس کے پیچھے بھی مہاراشٹری کا طلسم ہے۔ شورسینی زبان کا مرکز شورسین (گنگا جمنا دوآبہ) کا علاقہ تھا۔ سنسکرت کے بعد اسے ہی اعلیٰ طبقہ کی زبان کا مرتبہ حاصل ہوا۔ سنسکرت کے رہسوں اور ناٹکوں میں بھی اس کی جھلک پائی جاتی ہے جبکہ برج بھاشا کو شورسینی زبان کی جانشین کی سی حیثیت حاصل ہے کیونکہ اس کی نشوونما بھی دوآبہ ہی کے خطے میں ہوئی۔ مسلمانوں کی آمد پر برصغیر کے مرکزی خطہ کی عام بول چال کی زبان یہی تھی، جسے ادبی حیثیت بھی حاصل ہوئی۔
(جاری ہے )
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
Source: Jung News
Read Urdu column Urdu k Safar ki Jhalkian By Hassan Nisar