وینٹی لیٹر سے وینٹی لیٹر تک ! – ارشاد بھٹی
(گزشتہ سے پیوستہ)
میں بتا رہا تھا ،بیگم دوبارہ آئی سی یو میں ،دوبارہ وینٹی لیٹر پر، ہم دوبارہ اذیت ناک لمحوں میں ،زندگی دوبارہ بیگم کے جسم سے جڑی ٹی وی ا سکرینوں پر ٹھہری ہوئی ، مت پوچھیے یہ وقت کیسا، میں چاہوں تو بھی ان شب وروز کی تکلیف ،بے بسی ،بے چینی بیان نہیں کر سکتا، کبھی آئی سی یو کے اندر کبھی باہر ،دن ہے یا رات ،ورکنگ ڈے ہے یا چھٹی ، گرمی ہے یا سردی،کچھ کھا لیا یا پیٹ خالی ،کپڑے بدلے یا پچھلے تین دنوں سے ایک ہی لباس پہنا ہوا، نہ پتا نہ احساس ، مت پوچھیے، کتنی بار ہمت جواب دے گئی،کتنی بار آس ٹوٹی ،کتنی بار ضبط کے بندھن ٹوٹے، کتنی دعائیں مانگیں ، اللہ سے شکوے کتنے ،اللہ سے معافیاں کتنی ،مت پوچھیے ، کیسے کیسے مشکل لمحے ،کیسے کیسے دل چیر دینے والے منظر ،مت پوچھیے ،آہستہ آہستہ حالت یہ ہوئی ،یوں لگنے لگا ، میں ذہنی مریض ، ذہنی سکون کی دوائیاں کھانا شروع کردیں ، اینٹی ڈیپریشن دوائیاں لینے لگا، سونے کیلئے میں سنگل ڈوز دوائی کی بجائے ڈبل نہیں ٹرپل ڈوز دوائی کھا نے لگا، مگر نہ ذہنی سکون نہ نیند نہ اطمینان ،10دن گزرے ،گیارہواں دن ڈھلا، رات آئی اور وہ بدنصیب گھڑی آگئی ،جب سب کچھ لُٹ گیا ، جب کچھ پلے نہ رہا، جب دعائیں ،خواہشیں ہارگئیں، جب تقدیر جیت گئی، حضورؐ سے کسی نے پوچھا ،دنیا کی 3بڑی نعمتیں کون سی ،آپ ؐ نے فرمایا ،ایمان ،صحت ،نیک سیر ت بیوی، وہ بدنصیب گھڑی آگئی ، جب مجھ سے اک بڑی نعمت نیک سیرت بیوی چھن گئی۔
مجھے اچھی طرح یاد، میں رات گئے اسپتال سے واپس گھر پہنچا ، ابھی نیند کی گولی کھا کر لیٹنے ہی لگا، چھوٹے بھائی کا اسپتال سے فون آگیا، بھابھی کے دل کی دھڑکن بند ہوگئی، سانس رُک گیا، سب ڈاکٹر آچکے ،سب کوشش کررہے، آپ فوراً آجائیں، اس کے بعد کیاہوا، مجھے نہیں معلوم ،کیسے میں نے ہڑ بڑا کر ،گھبرا کر بلند آواز میں کہا، کیا دھڑکن بند ہوگئی، سانس رُک گئی، کیسے پاس بیٹھی بیٹی روتے ہوئے میرے گلے لگی، کیسے ہم دونوں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے ، کیسے میں نے خود کو سنبھالا،کیسے بیٹی کو دلاسا دیا، کیسے اپنے ، کیسے اس کے آنسو پونچھے ، کیسے اسے سینے سے الگ کیا، کیسے گاڑی میں بیٹھا، کیسے اسپتال پہنچا، کیسے آئی سی یو کے اندر گیا،کیسے دل کی دھڑکنوں، سانسوں، بلڈ پریشر کنڑول کرتی ٹیم کا انچارج ڈاکٹر آخر کار فجر کے قریب ہم سب کو ویٹنگ روم میں بٹھاکربولا ، ہم معذرت خواہ،ہم نے بہت کوشش کی، ہم کامیاب نہیں ہوسکے، کیسے میں نے ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر دستخط کئے ،کیسے پیچھے پیچھے ایمبولینس میں بیگم،کیسے ایمبولینس کے آگے آگے گاڑی چلاتا میں گھر پہنچا، کیسے دیکھتے ہی دیکھتے بیگم کی سینکڑوں اسٹوڈنٹس آگئیں ، کیسے بیگم کو آخری غسل دیا گیا ، کیسے ظہر تک لوگ ہی لوگ آگئے ،کیسے مسجد میں جنازہ ہوا ،کیسے بیگم کے چہرے سے کپڑا ہٹا کر مسلسل آنسو بہاتے ایمبولینس میں ،میں اسے قبرستان لایا، کیسے قبر میں پہلے میں نے خود لیٹ کر یہ دیکھا کہ کیا بیگم یہاں آرام سے لیٹ پائے گی ،کیسے میں نے بیگم کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارا ،کیسے کفن کی گرہیں کھول کر آخری بار اسے دیکھا ، کیسے آخری بار اسکا ماتھا چوما،کیسے قبر میں لیٹ کر آخری بار اسے جپھی ماری ، کیسے اپنے ہاتھوں سے اسے سپردِ خاک کیا، کیسے دفنانے کے بعد بھی میں وہاں بیٹھا رہا،کیسے میں گھر واپس آیا،یہ سب صحیح طرح سے یاد نہیں ، سب ہلکا ہلکا سا یاد ،اک خواب کی طرح، عین ممکن مجھے سب یادہو ، دماغ یہ دہرانا ہی نہ چاہ رہا ہو،عین ممکن یاد ہی بس اتنا ہو، کیا کہوں ،کیا پتا ،ہاں یہ پتا ضرور چل گیا کہ بہت مشکل ہوتا ہے اپنی محبت پانا، بہت مشکل ہوتاہے اپنی محبت کھونا، بہت مشکل ہوتا ہے اپنی محبت کو اپنے ہاتھوں میں مرتے دیکھنا ، بہت مشکل ہوتا ہے اپنی محبت کو اپنے ہاتھوں سے دفن کرنا، ہاں یہ ضرور پتا چلا، مشکلوں کے یہ دریا پار کرنا کتنا مشکل ، ہاں یہ ضرور پتا چلا ،زندگی کے بنا زندگی گزارنا کتنا مشکل۔
آج بیگم کو گئے ایک سال ہونے کو آیا، وہ جا چکی ،ابھی تک یقین نہیں آرہا، وہ اکثر کہا کرتی ،میں نے تم سے پہلے چلے جانا ، جب میں چلی جاؤں گی تمہیں لگ پتا جائے گا، واقعی مجھے لگ پتا گیا، بلکہ ہر روز پتا لگ رہا، میں بچے ،گھر ،زندگی ،اس کے بنا سب کچھ ادھورا، باقی چھوڑیں ،بیگم کو نئے گھر چھوڑ کر جب ہم پہلی بار گھر آئے لگ پتا گیا ،پہلے ہم زندگی گزار رہے تھے، آج زندگی ہمیں گزار رہی،بیگم جا چکی مگر گھر کی سیٹنگ آج بھی وہی ، جو بیگم کر کے گئی تھی، بیگم کا کمرہ آج بھی ویسا ہی ،جیسا وہ چھوڑ کر گئی، ابھی تک بیڈ پروہی چادر جس پر وہ آخری بار سوئی، تکیے وہیں پڑے ہوئے ،جہاں اس نے رکھے تھے، الماری میں اس کے کپڑے، ڈریسنگ ٹیبل پر اس کا سامان ، بیڈ کے ساتھ ٹیبل پر پڑا اس کا قرآن ، الماری کے درازوں میں رکھی اس کی چیزیں ، سب کچھ وہاں ہی ،جہاں وہ رکھ کر اسپتال گئی ، ہم بس کمرہ کھولتے ہیں ،صفائی کرتے ہیں ، کمرہ بند کر دیتے ہیں ، وہ گھر میں روزانہ صبح سورۃ بقرہ لگاتی ، اب بھی روزانہ سورۃ بقرہ لگ رہی ، اسے گلاب کے پھول پسند تھے، اسکے کمرے ،آخری آرام گاہ پر گلاب کے پھول ابھی تک مرجھائے نہیں، اس کا اسکول ،مدرسہ ،مسجدیں، سب کچھ ویسا ہی چل رہا، جن گھر وں میں وہ ماہانہ راشن بھجوایا کرتی ، وہاں راشن بھی پہنچ رہا، سب ہورہا، بس وہ نہیں ۔
وہ جب سنتی فلاں فوت ہوگیا اور آج قبر میں اسکی پہلی رات ،وہ خوفزدہ ہو جاتی ،کہتی ،قبر اگلی زندگی کی پہلی منزل ، قبر کی پہلی رات بہت مشکل ،پتا نہیں کس طرح کی ہوگی میری پہلی رات ،بس اللہ مجھے قبر کے امتحان سے سرخرو کردے، وہ کہتی، میرے بعد اتنا ضرور کرتے رہنا کہ میں قبر کے امتحان سے سرخرو ہو جاؤں، میں، بچے روزانہ دعائیں کریں ، صدقہ دیں ،اسکے نام پر کارِ خیر کریں،ہمیں اللہ کی رحمت پر یقین ، وہ قبر سمیت ہر مرحلے سے سرخرو ہوگی، وہ بہت اچھی جگہ پر ،لیکن اسکے بنا ہم دُکھی، ہاں یہ اطمینان ضرور ، جلد یا بدیر ہم نے بھی اسی سے جا ملنا، آخر پر یہ ضرور کہنا، جو کچھ لکھا، جو دکھ ،غم ،تکلیف بیان کر پایا ،وہ صرف دس فیصد، 90فیصد ایسا ،میں چاہوں بھی تو بیان نہ کر پاؤں، اورجو غم ،دکھ ،تکلیف سے میں اور بچے روزانہ گزر رہے ،وہ لکھنا چاہوں بھی تو نہ لکھ پاؤں ،وہ ناقابل بیاں، یہ صرف ہم جانیں یا ہمارا اللہ، آپ سے ایک درخواست، بیگم کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیئے گا۔
Source: Jung News
Read Urdu column Ventilator se Ventilator tak 4 By Irshad Bhatti