ورچوئل ویکسین – علی معین نوازش
دنیا بھر میں جیسے جیسے غیر ویکسین شدہ افراد پر ریستوران، دفاتر یا اسکول جانے،فضائی یا ریل کا سفر کرنے پر پابندیاں لگ رہی ہیں وہیں پر ایک اور عجیب چیز سامنے آ رہی ہے کہ کچھ لوگ ویکسین لگوائے بغیر یا تو ویکسین لگوانے والوں کی فہرست میں اپنا نام شامل کروا رہے ہیں یا جعلی ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ بنوا رہے ہیں۔ عجیب ماجرہ ہے کہ آج ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں پر بیماری سے بچاؤ کا طریقہ کار اور اُس کا علاج متنازعہ ہو چکا ہے ، جبکہ ویکسین لگوانا بھی ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ صرف پاکستان کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی لوگوں کا ویکسین کے حوالے سے ایسا رویہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ وہاں بھی لوگ ویکسین کو غلط سمجھ رہے ہیں اور ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ مانگنے پر لڑائیاں ہو رہی ہیں۔ جیسے پاکستان کے شہر لاہور میں ایک خاتون کی وڈیو وائرل ہوئی جو ریستوران کے عملے پر ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ مانگنے پر چیخ رہی تھی اور اِس عمل کو اپنے آئینی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے رہی تھی، ایسی ہی وڈیوز کئی دوسرے ممالک میں بھی وائرل ہو رہی ہیں جن میں لوگ ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ مانگنے پر لڑائیاں اور گالم گلوچ کر رہے ہیں۔
اِس سب میں سوشل میڈیا اور اِس کے ذریعے پھیلنے والی غلط معلومات کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ یہ دنیا بھی عجیب ہے، جب ابتدا میں ویکسین کی کمی تھی تو لوگ رشوت ، سفارش اور تعلقات کی بنا پر کسی نہ کسی طرح ویکسین لگوا رہے تھے اور آج جب ویکسین وافر مقدار میں موجود ہے تو لوگ رشوت، سفارش اور تعلقات کی بنا پر ویکسین لگوانے سے بچنا چاہ رہے ہیں اور جعلی سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ ایک ایسی بیماری جس نے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ، اُس کی ویکسین آج عام دستیاب ہے لیکن غلط معلومات اور افواہوں کی طاقت اِس قدر حیران کن ہے کہ لوگ اِس ویکسین کے حوالے سے شک میں مبتلا ہیں۔
میں آج کل اپنی پی ایچ ڈی کے سلسلےمیں پاکستان سے باہر ہوں، اِس لئے کالم بھی تسلسل کے ساتھ نہیں لکھ پا رہا جس کے لئے میں اپنے قارئین سے معذرت خواہ ہوں۔پی ایچ ڈی کی پڑھائی میں وقت اور توانائی دونوں بہت زیادہ صرف ہوتے ہیں لیکن اُمید ہے کہ میں اب باقاعدگی سے کالم لکھ پائوں گا کیونکہ اب نئی جگہ اور نئے نظام کا عادی ہو چکا ہوں۔ یہ بات بتانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ یہاں کینیڈا میں مقیم جو پاکستانی ویکسین نہیں لگوانا چاہتے وہ پاکستان سے ویکسی نیشن کے جعلی سرٹیفکیٹ منگوا لیتے ہیں۔ جو لوگ کینیڈاسمیت امریکہ اور برطانیہ میں جعلی سرٹیفکیٹ نہیں منگوا پاتے وہ اِس مقصد کے لئے بذاتِ خود پاکستان چلے جاتے ہیں، اُس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ مغربی ممالک میں رہتے ہوئے یہاں کا جعلی سرٹیفکیٹ نہیں بنوا سکتے اور اب پاکستان میں بھی ایسی ویکسینز لگ رہی ہیں جن کو مغربی ممالک مستند مانتے ہیں۔پاکستان میں داخلے کے لئے بھی چونکہ اب ویکسین لگوانا ضروری ہے اِس لئے دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ ایسے افراد ، جس ملک میں وہ قیام پذیر ہوتے ہیں، فوٹو شاپ کے ذریعے وہاں کے جعلی ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ بنوا رہے ہیں تاکہ وہ پاکستان کا سفر کر سکیں اور واپسی سے پاکستان سے جعلی سرٹیفکیٹ بنوا کر وہ اپنے مطلوبہ ملک میں استعمال کر سکیں کیونکہ پاکستان سے جو سرٹیفکیٹ بنے گا اُس کی کیو آر کوڈ کے ذریعے سسٹم میں موجودگی کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔ اِس میں زیادہ حیران کن امر یہ ہے کہ پاکستان میں ایسے افراد کےبھی ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ جاری کئے جا رہے ہیں یا اُن کا اندراج کیا جا رہا ہے جو عرصہ دراز سے پاکستان آئے ہی نہیں ہیں۔ میاں نواز شریف کا ویکسین شدہ افراد میں اندراج اِس کی بڑی مثال ہے۔ جب تک ہمارے نظام میں موجود خامیاں دور نہیں کی جائیں گے تب تک ایسی چیزیں سامنے آتی رہیں گی۔
کسی بھی نظام کی کامیابی تبھی یقینی ہوتی ہے جب اُس نظام کو استعمال کرنے والے اُس پر اعتماد کریں اور اُس کی کامیابی میں حصہ دار بنیں۔کوئی بھی نظام اِتنا کامل نہیں ہوتا کہ اُس میں کوئی نقص یا خامی نہ ہو لیکن اُس نظام کے غلط استعمال کو مشکل تر بنانا بہت ضروری ہے۔ نظام اتنا بھی آسان نہیں ہونا چاہئے کہ ورچوئل ویکسین لگوا نے کا سلسلہ چل نکلے، یعنی ایک بندہ ملک میں موجود ہی نہ ہو لیکن اُسے پھر بھی پاکستانی ویکسین لگ جائے اور نہ ہی نظام اتنا سہل ہونا چاہئے کہ ایک کاروبار بن جائے اور ہزاروں روپوں کے عوض جعلی ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ جاری کئے جا رہے ہوں۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں، جہاں پہلے سے یہ شبہ موجود تھا کہ لوگ جعلی ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ بنوائیں گے، اِس نظام کو زیادہ اچھا بنایا گیا ہے جس میں نادرا کی ویب سائٹ پر ویکسین کی تصدیق بھی ہو سکتی ہے اور کیو آر کوڈ بھی موجود ہے۔ جبکہ بہت سے دوسرے ممالک میں ویکسی نیشن کا سرٹیفکیٹ محض کاغذ کا ایک ٹکرا ہوتاہے جس پر صرف لگائی گئی ویکسین اور تاریخ درج ہوتی ہے ، جس کی تصدیق کسی صورت ممکن نہیں۔ لیکن جب مسئلہ نظام چلانے والوں میں ہو تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔
جن لوگوں نے ویکسین نہیں لگوائی اور جعلی سرٹیفکیٹ بھی بنوا لیا ہے وہ نہ صرف اپنی جان کو خطرے میں ڈال رہے ہیں بلکہ دوسرے لوگوں کی جانوں کے ساتھ بھی کھیل رہے ہیں۔ ایسے افراد خدانخواستہ سچ مچ کورونا کا شکار ہو کر نہ صرف اپنی جان سے ہاتھ دھو سکتے ہیں بلکہ اُسے آگے پھیلانے کا موجب بھی بن سکتے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ یہیں نہ رُکا تو کچھ بعید نہیں کہ عالمی برادری پاکستانی سرٹیفکیٹ کو غیر مستند قرار دے دے جس سے ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے جو بیرونِ ملک سفر کرنے والے پاکستانیوں کے لئے نئی مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ ورچوئل ویکسی نیشن کی روک تھام کے لئے حکومت نے جو اقدامات کئے ہیں وہ ناکافی ہیں ، ابھی تک ایسی کسی غلطی پر صرف متعلقہ عملے کو معطل کیا جاتا رہا ہے لیکن اِس حوالے سے نظام میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی، اِس ضمن میںمزید سخت رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ سختی کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بھی یہ باور کروانا ضروری ہے کہ یہ ویکسین اُن کی صحت مند زندگی کے لئے ناگزیر ہو چکی ہے۔ اِسی طرح ہم کورونا اور جعلی ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ بنوانے کی وبا سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
Must Read Urdu column Virtual Vaccine By Ali Moeen Nawazish
Source: Jang