واہ رے عقلمندو! – ارشاد بھٹی
بالآخر وزیراعظم کے معاونین، مشیروں نے اپنے اثاثے ظاہر کردیے، رزاق داؤد کے اثاثوں کی مالیت ایک ارب 78کروڑ 69لاکھ، اہلیہ 40 کروڑ کی مالک، حفیظ شیخ 29کروڑ 70لاکھ، امین اسلم ایک کروڑ 47لاکھ بینک میں، 15وراثتی جائیدادیں، اہلیہ کے 50لاکھ کے شیئرز، پونے 11لاکھ کی جائیداد، 92لاکھ کی 3گاڑیاں، ثانیہ نشتر 2کروڑ سے زائد اثاثوں کی مالک، شہباز گل 11کروڑ 85لاکھ، انکے ذمے 2کروڑ 42لاکھ روپے کے واجبات، پاکستان میں ایک پلاٹ، فارم ہاؤس، بیرون ملک ایک گھر، شہزاد اکبر 7کروڑ 23لاکھ، زلفی بخاری 13سو کنال زمین کے مالک، ان کے اسلام آباد میں 34کنال کے پلاٹ، لندن میں 48لاکھ 50ہزار پاؤنڈ کی جائیداد۔
بیرون ملک 5کمپنیوں کے شیئرز، 5لاکھ پاؤنڈ کا سونا، اہلیہ کے پاس ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ کا سونا، زلفی بخاری اہلیہ کے پاکستانی بینکوں میں 24لاکھ روپے، بیرون ملک بینکوں میں 17لاکھ پاؤنڈ، ندیم بابر 2ارب 75کروڑ روپے کے مالک، ان کے 2درجن سے زائد کمپنیوں میں شیئرز، یہ پاکستان میں 12کروڑ 97لاکھ روپے کمرشل اراضی کے مالک، ظفر مرزا 5کروڑ 70لاکھ روپے کے مالک، 2کروڑ روپے کا گھر، 3کروڑ کے پلاٹ، اہلیہ کے پاس 20لاکھ کے زیورات، عاصم سلیم باجوہ ڈی ایچ اے لاہور، کراچی میں رہائشی، کمرشل 5پلاٹ جن کی مالیت 15کروڑ، گلبرک گرینز میں 7کروڑ کا گھر، رحیم یار خان، بہاولپور میں 65ایکڑ اراضی۔
عثمان ڈار کے اثاثوں کی مالیت 6کروڑ، ساڑھے 3کروڑ نقد، 67لاکھ کا کاروبار، دو کروڑ کی سرمایہ کاری، مری میں 40کنال، سیالکوٹ میں دو کنال کا گھر، سیالکوٹ میں زرعی زمین، کاروبار کی مالیت نہیں بتائی، تانیہ ایدروس 71کروڑ روپے سے زائد کے اثاثوں کی مالک، امریکہ، سنگاپور، برطانیہ میں جائیدادیں۔
شہزاد سید قاسم کے دبئی میں 2کروڑ درہم کے 3گھر، امریکہ میں پونے 9لاکھ ڈالر کی جائیداد، امریکی بینک اکاؤنٹس میں 21لاکھ ڈالر، دبئی بینک اکاؤنٹس میں 18لاکھ درہم، 97لاکھ کے 4پلاٹ، پاکستان میں 12کروڑ کی سرمایہ کاری، ندیم افضل چن کے اثاثوں کی مالیت 3کروڑ 80لاکھ سے زائد، 5فارم، 3رہائشیں۔
بابر اعوان ساڑھے 16کروڑ کی جائیداد کے مالک، اسپین میں ایک جائیداد، 5کروڑ نقد، 2کروڑ بینک اکاؤنٹ میں، کاروبار میں 47لاکھ کی سرمایہ کاری، ایک کروڑ 68لاکھ کی 6گاڑیاں، 20لاکھ روپے کے زیورات، 18لاکھ کے زرعی آلات، علی نواز 13کروڑ 48لاکھ اثاثوں کے مالک، اہلیہ کے پاس 75تولے سونا، عشرت حسین 29کروڑ 42لاکھ 22ہزار اثاثوں کے مالک، امریکہ میں 3جائیدادیں، یار محمد رند کے اثاثوں کی مالیت 81کروڑ 24لاکھ، ارباب شہزاد 12کروڑ سوا 73لاکھ اثاثوں کے مالک، وزیراعظم کی ٹیم کے 6ممبر دہری شہریت کے حامل۔
ارب پتی معید یوسف امریکی شہری، شہباز گل امریکی گرین کارڈ ہولڈر، ندیم بابر امریکی شہری، تانیہ ایدروس کے پاس کینیڈا کی پیدائشی شہریت، وہ سنگا پور کی مستقل رہائشی، شہزاد سید قاسم امریکی شہری، ندیم افضل چن کینیڈین رہائشی، زلفی بخاری برطانوی شہری، بلاشبہ معاونین، مشیروں کا اثاثے، شہریت ڈیکلیئر کرنا قابلِ تحسین قدم، ورنہ یہاں تو عدالتوں میں جا کر پتا چلے کہ کس کے پاس اقامہ، شہریت، کتنے اثاثے۔
اب بات پی ٹی وی کی، 10ارب بجٹ، 8ارب کے خسارے میں 7ہزار ملازمین والا پی ٹی وی جسے نااہل، کرپٹ حکمرانوں نے نالائق، کرپٹ چہیتوں سے بھر دیا، جہاں ڈرائیور، مالی پروڈیوسر بنے بیٹھے، جو سالہا سال سے ایک ڈرامہ بھی نہ بنا سکا، جسے تبدیلی سرکار نے بی بی سی طرز کا ادارہ بنانا تھا۔
اس پی ٹی وی کی فیس 35روپے سے بڑھاکر 100روپے کر دی گئی یعنی پہلے ہم بجلی کے بل کے ساتھ ہر ماہ 35روپے پی ٹی وی کو دیا کرتے تھے، اب 100روپے دیا کریں گے، مطلب پہلے ہم سالانہ 7ارب دیا کرتے تھے اب 21ارب دیا کریں گے، اب ایک طرف 10ارب پی ٹی وی کا بجٹ، 21ارب سالانہ ہم یہ ’جگا ٹیکس‘ دیں گے، یوں پی ٹی وی کا سالانہ بجٹ ہوا 31ارب، جبکہ دوسری طرف 100سے زائد نجی چینلوں کا سالانہ حکومتی اشتہاری بجٹ 2ارب، مشرف دور میں سالانہ اشتہاری بجٹ تھا 2ارب، پی پی دور میں یہ ہوا 6ارب سالانہ جبکہ لیگی دور میں اشتہاری بجٹ پہنچا 8ارب سالانہ۔
اب موجودہ حکومت 100سے زیادہ چینلوں کو دے رہی 2ارب سالانہ جبکہ ایک پی ٹی وی کو دے رہی 31ارب سالانہ، یقین مانیے، کوئی دکھ نہ ہوتا اگر پی ٹی وی 31ارب کو justifiedکر دیتا، ڈرامہ بنا نہیں رہا، دیکھتا کوئی ہے نہیں، حکومتی ترجمانی میں یہ فیل، اوپر سے 31ارب سالانہ، جس میں سے 21ارب ہماری جیبوں سے، خدا کی شان۔
23ماہ ہو گئے، پی ٹی وی، اسٹیل مل، ریلوے، پی آئی اے، سفید ہاتھیوں کو منافع بخش بنانے کی طرف سفر شروع ہوا نہ ان کی نجکاری کا عمل، کل یہی عمران خان کہا کرتے ’’ہم آئیں گے، اداروں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کریں گے، منافع بخش بنائیں گے‘‘ اور چھوڑیں اسی پی ٹی وی فیس کے بارے میں عمران خان کہا کرتے ’’حکمرانو شرم کرو، غریب عوام سے بجلی کے بل پر 35روپے پی ٹی وی ٹیکس لیتے ہو، لوگو پی ٹی وی فیس تم دیتے ہو۔
پروجیکشن کرپٹ حکمرانوں کی ہوتی ہے، میں اس کا بھی حساب لوں گا‘‘، اچھا مزے کی بات سنیے، ایک طرف خسارہ زدہ ملکی اداروں کا تو ابھی تک کچھ ہو نہ سکا، دوسری طرف حکومت منافع بخش روز ویلٹ ہوٹل بیچنے نکل پڑی، شاید اسلئے کہ خریدار امریکی صدر ٹرمپ، وہ روز ویلٹ ہوٹل جس نے گزشتہ 4برسوں میں 4ارب 68کروڑ روپے منافع کمایا، جس نے 90لاکھ ڈالر ٹیکس دیا، وہ روز ویلٹ بکتے بکتے بچا۔
1997ءمیں ہوٹل کی تزین و آرائش پر لگے 60ملین ڈالر کی ہوش ربا کرپشن داستانیں پھر سہی مگر منافع بخش ہوٹل بیچ دو اور خسارے زدہ اداروں کو سینے سے لگائے رکھو، یہ ایسے ہی جیسے کماؤ پتر کو گھر سے نکال کر بےروزگار، مقروض بیٹوں کو قرضے لے لے کر گھر بٹھا کر کھلانا، واہ رے عقلمندو۔
Source: Jung News
Read Urdu column Wah Ray Aqalmando By Irshad Bhatti