رِٹ آف دی اسٹیٹ – جاوید چوہدری
ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942میں شکاگو میں پیدا ہوا‘ وہ پیدائشی جینئس تھا‘ ہارورڈ سے گریجوایشن اور مشی گن یونیورسٹی سے ریاضی میں پی ایچ ڈی کی‘ اس کا آئی کیو لیول (167) آئن اسٹائن سے بھی زیادہ تھا‘ تعلیم کے بعد اس نے پڑھانا شروع کر دیا‘پڑھاتے پڑھاتے وہ ذہنی طور پر کھسک گیا اور اس نے پارسل بم بنانا شروع کر دیے اور وہ یہ بم ڈاک کے ذریعے مختلف پروفیسروںاور ائیرلائینز کو بھجوادیتا تھا‘ اس کا ہدف جوں ہی پارسل کھولتا تھا‘ بم پھٹ جاتا تھا اور وہ ہلاک ہو جاتا تھا یا شدید زخمی‘ٹیڈ کے بموں کی زد میں آ کر تین پروفیسر ہلاک اور 23 زخمی ہو گئے۔
وہ اپنی شناخت چھپانے میں کام یاب ہو گیا‘ پولیس اور ایف بی آئی1996تک 18 سال سرتوڑ کوشش کے باوجود اسے تلاش نہیں کر سکی‘ اس کی وجہ اس کا ٹھکانہ تھا‘ ٹیڈ نے گرفتاری سے بچنے کے لیے مونتانا کے شہر لنکن کے پہاڑوں میں پناہ لے رکھی تھی‘ وہ جنگل میں لکڑی کے چھوٹے سے کیبن میں رہتا تھا اور اس کے پاس پانی‘ گیس ‘ بجلی اور فون سمیت ماڈرن لائف کی کوئی سہولت موجود نہیں تھی‘ وہ ہفتے میں ایک بار جنگل سے شہر آتا تھا‘ ریستوران میں کھانا کھاتا تھا‘ لائبریری میں بیٹھ کر اخبار پڑھتا تھا اور راشن خرید کر جنگل میں واپس چلا جاتا تھا‘ وہ بم بھی مختلف ریاستوں کے مختلف شہروں سے بک کراتا تھا لہٰذا وہ پولیس اور ایجنسیوں کی آنکھوں سے اوجھل رہا تھا‘ وہ صنعت کاری کو دنیا کی تباہی سمجھتا تھا‘ اس کا خیال تھا انڈسٹری دنیا کو ختم کر دے گی۔
اس کی نظر میں انڈسٹری کی پرورش میں یونیورسٹیوں کے پروفیسرز اور ہوائی جہاز اہم کردار ادا کر رہے ہیں اگر پروفیسرز نئی ٹیکنالوجی ڈویلپ نہ کریں اور جہاز بزنس مینوں اور صنعت کاروں کو دنیا کے مختلف حصوں میں نہ لے کر جائیں تو صنعت کاری میں اضافہ نہیں ہو گا اور اگر صنعتیں نہیں بڑھیں گی تو دنیا بچ جائے گی‘ اس نے انڈسٹری کے خلاف پینتیس ہزار الفاظ کا منشور بنا رکھا تھا‘ وہ یہ منشور مختلف پروفیسروں‘ دانشوروں اور اخبارات کو بھجواتا رہتا تھا اور اصرار کرتا تھا یہ منشور شایع بھی کیا جائے اور اپنایا بھی جائے اور جو لوگ اس کا حکم نہیں مانتے تھے وہ انھیں پارسل بم کے ذریعے ٹارگٹ بنا لیتا تھا‘ ٹیڈ دنیا میں پارسل بموں کا موجد تھا‘ وہ پہلا شخص تھا جس نے ڈاک کے ذریعے لوگوں کو قتل کرنا شروع کیا تھا‘ ایف بی آئی نے اس کی تلاش اور گرفتاری کے لیے تاریخ کا طویل ترین اور مہنگا ترین آپریشن کیا۔
یہ کارروائی 1978سے 1996تک 18 سال جاری رہی‘ ٹیڈ نے 1995 میں پیش کش کی اگر واشنگٹن پوسٹ میرا پورا منشور شایع کر دے تو میں پارسل بموں کا سلسلہ بند کر دوں گا‘ ایف بی آئی نے واشنگٹن پوسٹ سے رابطہ کیا اور اسے آرٹیکل شایع کرنے پر مجبور کیا اور اس کے بعد واشنگٹن پوسٹ کی ہر کاپی پر ایف بی آئی کا ایک اہلکار تعینات کر دیا اور امریکا میں جس شخص نے بھی اخبار کی وہ کاپی خریدی ایف بی آئی نے اس کا پیچھا کیا اور اس کی تفتیش ہوئی‘ آپ اس سے تفتیش کے دائرہ کار اور اخراجات کا اندازہ کرلیجیے‘ ایف بی آئی کو ٹیڈ کا نام معلوم نہیں تھا لہٰذا اس نے اسے یونا بامبر (Unabomber) کا نام دے رکھا تھا‘ یونا (UNA) سے مراد یونیورسٹی اور اے کا مطلب ائیروپلین تھا۔
ایف بی آئی نے ہیڈ کوارٹر میں یونابامبر کے نام سے پورا یونٹ بنایا‘ یونٹ نے سیکڑوں مرتبہ اس کا منشور پڑھا‘ ایک ایک لفظ اور اصطلاح پر تحقیق ہوئی جس سے یہ پتا چلا یہ شخص بہت پڑھا لکھا اور اسکالر ہے‘ یہ کسی بڑی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہے‘اس کے بعد امریکا کی تمام یونیورسٹیوں میں ’’انڈسٹریل ریولوشن‘‘ اور ’’انڈسٹریل فیوچر‘‘ پر کام کرنے والے سابق اور موجودہ اسٹوڈنٹس کی سکروٹنی کی گئی مگر یہ نہیں پکڑا گیا‘ بہرحال قصہ مختصر ایف بی آئی کا ایک افسر فٹز جیرالڈ( Fitzgerald) ٹیڈ سے بھی بڑا پاگل تھا‘ اس نے دس سال لگا کر تین اپریل 1996کو بہرحال ٹیڈکازینسکی کو جنگل سے گرفتار کرلیا‘ یہ ایف بی آئی کی تاریخ کا بہت بڑا بریک تھرو تھا‘ ٹیڈ کو بعدازاں آٹھ بار عمر قید ہوئی اور یہ 10 جون 2023 کو 81 سال کی عمر میں نارتھ کیرولینا کی جیل میں فوت ہو گیا تاہم اس کا لکڑی کا کیبن آج بھی ایف بی آئی کے دفتر میں موجود ہے۔
ہم اگر ٹیڈ کی کارروائیوں کا جائزہ لیں تو ان میں 18 برسوں میں صرف تین لوگ ہلاک اور 23 زخمی ہوئے ‘ اتنے لوگ ہمارے ملک میں روزانہ ہلاک اور زخمی ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے سر میں جوں تک نہیں رینگتی لہٰذا ہم اگر اپنی بیک گراؤنڈ میں کھڑے ہو کر یونابامبر کے خلاف ایف بی آئی کی18 سال لمبی تحقیقات اور اخراجات دیکھیں تو ہمیں امریکی بے وقوف لگیں گے‘ امریکا نے اس مجرم کی گرفتاری پر جتنا سرمایہ خرچ کیا اتنی رقم ہمارے ملک کی کل پولیس اور ایجنسیوں کا ٹوٹل بجٹ ہے چناں چہ سوال یہ ہے امریکا کو صرف ایک مجرم پر اتنا سرمایہ‘ وقت اور افرادی قوت ضایع کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ بات سیدھی ہے ایف بی آئی اور امریکا یہ ثابت کرنا چاہتا تھا آپ امریکا میں جرم کر سکتے ہیں لیکن آپ اس کے بعد خود کو ریاست سے نہیں بچا سکتے خواہ آپ ٹیڈکازینسکی ہی کیوں نہ ہوں۔
خواہ آپ کا آئی کیو لیول آئن اسٹائن سے زیادہ ہی کیوں نہ ہو اور خواہ آپ 18 سال جنگل میں چھپ کر کیوں نہ بیٹھے ہوں‘ ریاست کو آپ تک پہنچنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرنا پڑیں یا الگ یونٹ بنانا پڑے یا پھر واشنگٹن پوسٹ کی ہر کاپی کے ساتھ ایک اہلکار تعینات کرنا پڑے‘ ریاست یہ کرے گی اور آپ گرفتار بھی ہوں گے اور آپ کو ہر صورت سزا بھی ہو گی چناں چہ آج امریکا کا ہر مجرم جرم سے پہلے یہ جانتا ہے میں بہرحال پکڑا جاؤں گا‘ اب سوال یہ ہے کیا پاکستان میں بھی ایسا ہے؟ جی نہیں‘ پاکستان میں سو لوگوں کا قاتل بھی کھلے عام پھرتا ہے اور اسے یہ یقین ہوتا ہے پولیس اور ایجنسیاں مجھے گرفتار نہیں کرسکیں گی اوراس یقین کی وجہ سے ملک میں عام قتل وغارت گری ہو‘ فیض آباد جیسے دھرنے ہوں یا پھر 9مئی جیسے واقعات ہوں ہر مجرم ہر ذمے دار سینہ ٹھونک کر کیمروں کے سامنے توڑ پھوڑ اور مارا ماری کرتا ہے‘ لوگ پولیس اہلکاروں تک کو ڈنڈوں سے کچل دیتے ہیں اور ریاست باقاعدہ معاہدہ کر کے مجرموں کو گھر جانے کی اجازت دے دیتی ہے اور یہ لوگ الیکشن لڑ کر اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں اور شہید اہلکاروں کے ساتھی انھیں سیلوٹ کرتے ہیں چناں چہ پھر مجرم اور ملزم کے دل میں ریاست کا خوف اور احترام کیوں پیدا ہو گا؟
میں کل سے ایک خاتون کی وڈیو دیکھ رہا ہوں‘ یہ واقعہ یکم جنوری 2024کو موٹروے کے اسلام آباد کے انٹری پوائنٹ پر پیش آیا‘ پولیس کے ایک اہلکار نے خاتون کی گاڑی روکی جب کہ دوسرا اہلکار گاڑی کے سامنے کھڑا ہو گیا‘ خاتون کی اہلکار سے تلخ کلامی ہوئی اوراس نے دوسرے پولیس اہلکار پر گاڑی چڑھا دی‘ اہلکار اڑ کر دور جاگرا‘ اس کی جان بچ گئی لیکن ریاست کی ساری رٹ پہیوں تلے کچلی گئی‘ خاتون کے خلاف پرچہ درج ہوا‘ اس کا پیچھا بھی کیا گیا مگر پولیس چار ماہ گزرنے کے باوجود اسے گرفتار کر سکی اور نہ گاڑی تحویل میں لے سکی۔
اب سوال یہ ہے خاتون کو پولیس اہلکار پر گاڑی چڑھانے کا حوصلہ کس نے دیا؟ یہ حوصلہ دراصل اسے ملک کے حالات نے دیا‘ قوم جب ایم پی اے مجید اچکزئی کو کوئٹہ میں پولیس اہلکار کو گاڑی کے نیچے کچلتے‘ مارتے اور پھر باعزت بری ہو کر گھر واپس آتے دیکھے گی یا یہ ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجوکو وفاقی دارالحکومت میں ڈنڈوں سے پٹتے اور شدید زخمی ہوتے‘ پی ٹی وی کی عمارت اورا سٹوڈیو ہجوم کے ہاتھوں ٹوٹتے‘ قومی اسمبلی کے جنگلے گرتے اور وزیراعظم ہاؤس کا گیٹ ٹوٹتے اور فیض آباد میں پے درپے دھرنے اور ہجوم کے ہاتھوں پولیس اہلکاروں کو مرتے دیکھے گی اور آخر میں ان تمام لوگوں کو عزت کے ساتھ گھر جاتے‘ الیکشن لڑتے اور وزیر اور وزیراعظم بنتے بھی دیکھے گی تو پھر یہ خاتون راستے میں کھڑے پولیس اہلکار کو گاڑی کے نیچے کیوں نہ دے اور فرسٹریشن کے شکار نوجوان 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملہ کیوں نہ کریں اور یہ کور کمانڈر کے گھر میں داخل ہو کر یونیفارم کی بے عزتی کیوں نہ کریں اور دوسرا سوال قوم جب مجرموں کو اپنی اس ’’کارکردگی‘‘ کی بنیاد پر ایم پی اے‘ ایم این اے‘ سینئر وزیر اور وزیراعلیٰ بنتے دیکھے گی تو کیا یہ بھی ریاست کو فٹ بال بنا کر اس کے ساتھ نہیں کھیلے گی؟ ہم آج اس خاتون کو برا بھلا کہہ رہے ہیں‘ ہمیں کہنا بھی چاہیے لیکن ہم نے 9 مئی کے ذمے داروں کا کیا بگاڑ لیا‘ ہم اگر سال گزرنے کے بعد بھی ان کو جیلوں میں رکھ کر داماد کی طرح ان کی خدمت کر رہے ہیں‘ ان کے نام ای سی ایل سے نکال رہے ہیں اور ان کو سیلوٹ کر رہے ہیں تو پھر اس بے چاری بی بی کا کیا قصور ہے‘ہم اسے برا بھلا کیوں کہہ رہے ہیں! کیا اس کا جرم مجید اچکزئی سے بڑا تھا؟ ہمیں ماننا ہو گا ریاست اپنی رٹ کھو چکی ہے اور لوگوں کے دل میں اب اس کا کوئی ڈر نہیں رہا‘ یقین نہ آئے تو خاتون کی وڈیو دوبارہ دیکھ لیں۔
نوٹ:جون میں ہمارا گروپ استنبول(ترکیہ) اور باکو(آذربائیجان) جا رہا ہے‘ آپ اس گروپ کا حصہ بننے کے لیے ان نمبرز پر رابطہ کر سکتے ہیں۔
+92 301 3334562, +92 309-1111311,+92 331 3334562
Source: Express News
Must Read Urdu column Writ of the State By Javed Chaudhry