یادوں کا نیلا رنگ – جاوید چوہدری
میں عرض کر رہا تھا مراکو کے زیادہ تر گھروں میں کھڑکیاں‘ برآمدے اور دروازے صحن کی طرف کھلتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ لوگ بے پردگی اور فضائی آلودگی سے بچنے کے لیے گلی کی طرف کھڑکی نہیں رکھتے اگر مجبوری ہو تو یہ بیرونی دیوار میں روشنی اور ہوا کے لیے چھوٹی چھوٹی جالیاں رکھ دیتے ہیں یوں مراکشی گھر باہر سے سیدھی بدصورت دیوار دکھائی دیتے ہیں۔
دروازے بھی بدوضع اور عامیانہ ہوتے ہیں لیکن آپ جوں ہی مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہیں تو پورا منظر بدل جاتا ہے‘ آپ گویا جنت میں آ جاتے ہیں‘ ملک کے تمام قصبوں اور مدیناؤں (اولڈ سٹی) کی فصیلیں بھی بدصورت اور سیدھی ہیں لیکن آپ جوں ہی ان کا بھی چھوٹا سا دروازہ کراس کر کے اندر داخل ہوتے ہیں توآپ خود کو ایک نئی دنیا‘ ایک نئے جہاں میں پاتے ہیں‘یہ لوگ گھروں کے اندر سفید اور نیلا رنگ زیادہ استعمال کرتے ہیں‘ نیلے رنگ کی ملتانی ٹائلیں عام ہیں‘یہ ٹائلیں سلک روٹ سے ہوتی ہوئیں مراکو اور پھر مراکوسے اسپین پہنچی تھیں‘ اینٹ کا استعمال بھی کمال ہوتا ہے‘ مراکش شہر کی مٹی میں آکسائیڈ زیادہ ہے چناں چہ یہ پورا شہر گلابی ہے۔
آپ کو تمام دیواریں‘ تمام مکان گلابی نظر آتے ہیں جب کہ باقی شہروں میں سفید اور نیلا رنگ کثرت سے دکھائی دیتا ہے‘ لوگ پرسکون اور آرام پسند ہیں‘ ہم 91 ہم خیال پاکستانی سات دن مراکو میں رہے‘ ہمیں ان سات دنوں میں کوئی شخص جلدی میں دکھائی نہیں دیا‘ سڑکوں پر بھی ہڑبونگ‘ افراتفری یا ہارن بازی نہیں تھی‘ ٹریفک سلیقے کے ساتھ چل رہی تھی‘ پارکنگ بھی سیدھی تھی اور راستے بھی کھلے تھے‘ پولیس بہت مہذب لیکن تگڑی تھی‘ کانسٹیبل کے ایک اشارے سے ساری ٹریفک رک جاتی تھی‘ ہمیں سات دن میں پورے ملک میں کوئی اسلحہ ‘کوئی ہتھیار نظر نہیں آیا‘ پولیس کے پاس بھی رائفل یا پستول نہیں تھا۔
ہمیں کسی جگہ لڑائی اور دنگا بھی دکھائی نہیں دیا‘ ان کے ٹی وی چینلز بھی ٹھنڈے ٹھار تھے‘ کوئی مہمان کسی مہمان کے منہ پر گلاس نہیں مار رہا تھا‘ کوئی کسی کو گالی نہیں دے رہا تھا اور ہمیں پورے ملک میں گندگی بھی دکھائی نہیں دی‘ فقیروں نے بھی صاف ستھرے کپڑے پہن رکھے تھے لہٰذا ہم بری طرح بور ہو گئے اور ہم یہ ساری حسرتیں پوری کرنے کے لیے پاکستان آنے پر مجبور ہو گئے‘ اللہ کا لاکھ لاکھ احسان ہے ہم واپس آئے اور وطن عزیز اب جی بھر کر ہماری حسرتیں پوری کر رہا ہے‘ ہم جی بھر کر گندگی بھی دیکھ رہے ہیں‘ دنگے فساد بھی‘ ہارن بھی‘ گردوغبار بھی اور چیخ وپکار بھی‘ مجھے یقین ہے ہماری موجودہ حکومت اپنی برکت سے ان نعمتوں کو اوج کمال تک پہنچا کر رہے گی۔
مراکش میں ہماری آخری رات تھی‘ ہم آٹھ دس لوگ ہوٹل سے نکلے اور قہوے کی تلاش میں دربدر پھرتے ہوئے ایک ڈسکو کے سامنے پہنچ گئے‘ ڈسکو کا مالک سینہ تان کر دروازے پر کھڑا تھا‘ اس نے ہمیں بآواز بلند دعوت گناہ دی‘ میں نے اس سے پوچھا ’’کیا قہوہ بھی ملے جائے گا‘‘ اس نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’ہاں یہ بھی مل جائے گا‘‘ ہم نے اس سے درخواست کی ’’کیا آپ ہمیں ڈسکو کے باہر قہوہ دے سکتے ہیں‘‘ وہ مان گیا‘ ہم ڈسکو کے سامنے بیٹھ گئے‘ اندر سے میوزک کی تیز آوازیں آ رہی تھیں‘ نوجوان شاید اندر اندھا دھند ناچ رہے تھے‘ جب دروازہ کھلتا تھا تو تمباکو اور شراب کی بو لیک ہو کر باہر آ جاتی تھی اور پورے ماحول کو آلودہ کر دیتی تھی۔
ہم جنت کی حسرت میں زندگی گزارنے والے لوگ مکمل شرافت کے ساتھ اس خرابے کے سامنے بیٹھ کر پودینے کا قہوہ پی رہے تھے اور لطیفہ گوئی کر رہے تھے‘ میں نے زندگی میں سیکڑوں جگہوں پر ہزاروں لطیفے سنے اور سنائے ہیں لیکن لطائف بازی کا جتنا مزا ڈسکو کے سامنے قہوہ پیتے ہوئے آیا میں اس مزے سے اس سے پہلے محروم تھا‘ رات تھی‘ دھندلا سا چاند تھا‘ خنکی تھی‘ ڈسکو کی مدہوش موسیقی تھی‘ ہم تھے‘ پودینے کا قہوہ تھا‘ ہمارے قہقہے تھے اور مراکش کی ڈھلتی‘ سمٹتی اور شرماتی رات تھی‘ زندگی ایک اور کروٹ لے رہی تھی‘ وقت ایک اور قدم اٹھا رہا تھا اور پھرمیں اچانک 1993-94 میں چلا گیا۔
وہ بھی ایسی ہی خنک راتیں اور ٹھٹھرتی ہوئی صبحیں تھیں مگر شہر مختلف تھا‘ یہ مراکش نہیں اسلام آباد تھا‘ میں نیا نیا وفاقی دارالحکومت شفٹ ہوا تھا اور آتے ہی اپنے وقت کے تین مشاہیر کی محفلوں کا حصہ بن گیا تھا‘ میرے دن کا آدھا حصہ ممتاز مفتی صاحب کے گھر گزرتا تھا‘ شام کے وقت ڈاکٹر اشفاق حسین کے مطب میں بیٹھا رہتا تھا اور ہفتے میں دو دن الطاف گوہر صاحب کی کتابیں اور جوتے سیدھے کرتا تھا‘ یہ تینوں مشاہیر اپنی یادوں کی گٹھڑی میرے سر پر رکھ کر اپنے اپنے وقت پر زندگی کی بس سے اتر گئے‘ میں اب جب بھی تھک جاتا ہوں تو میں دنیا کے مختلف ملکوں‘ مختلف شہروں اور مختلف چوکوں میں یہ گٹھڑیاں کھولتا ہوں۔
دل کھول کر قہقہے لگاتا ہوں‘ دوبارہ گٹھڑی باندھتا ہوں‘ سر پر رکھتا ہوں اور بنجارے کی طرح آگے چل پڑتا ہوں‘ ذات کا خانہ بدوش ہوں چناںچہ چلتا جا رہا ہوں‘ تھکے بغیر‘ رکے بغیر‘ سفر جاری ہے‘ جھنگ کے صوفی خان صمد خان نے اپنا سر میرے سرکے ساتھ ٹکرا کر فرمایا تھا میں تمہارا حق تمہیں دے کر جا رہا ہوں‘ تمہاری زندگی میں کبھی وسیلا‘ ساتھی‘ وقت اور محبت کم نہیں ہو گی‘ میں اسے مجذوب کا مذاق سمجھا تھا مگر اللہ نے اپنے کرم سے حیران ہی کر دیا‘ وقت میں برکت ڈال دی‘ محبت میں فراوانی سے نوازدیا اور ساتھی اور وسائل کا ایسا انبار لگایا کہ زبان شکر ادا کرتے کرتے تھک جاتی ہے مگر حق ادا نہیں ہوتا‘ میرے دائیں بائیں کام ہی کام ہیں۔
پراجیکٹس ہی پراجیکٹس ہیں لیکن اس کے باوجود وقت ختم نہیں ہوتا‘ مصروفیت مصروفیت محسوس نہیں ہوتی‘ اجنبیوں سے ملتا ہوں اور وہ اپنے دلوں اور گھروں کے دروازے کھول دیتے ہیں‘ موبائل سم اور پرس کے بغیر چلتا چلا جاتا ہوں اور کسی جگہ کسی محرومی‘ کسی کمی کا احساس نہیں ہوتا‘ بے شک یہ سارا کھیل اللہ کے کرم اور اللہ کے بندوں کے فیضان کے بغیر ممکن نہیں تھا‘ سیاحت کے چار تحفوں میں بے خوفی پہلا تحفہ ہوتا ہے۔
سفر انسان کو بے خوف بنا دیتا ہے‘ آپ کو محسوس ہوتا ہے دنیا کے ہر کونے میں انسان بستے ہیں اور تمام انسان ہم جیسے ہیں‘ میری ذات کی رہی سہی کسر سفر نے پوری کر دی چناں چہ میں بے دھڑک چلتا چلا جاتا ہوں‘ مقامی لوگوں کے اندر گھس جاتا ہوں اور کسی جگہ اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا‘ مراکش کے اس ڈسکو کے سامنے بیٹھے بیٹھے ممتاز مفتی اور ڈاکٹر اشفاق بھی یاد آ گئے اور اللہ کا کرم بھی‘ میں نے روح کی آخری سرحد سے توانائی کھینچ کر اللہ کا شکر ادا کیا اور اٹھ کر ہوٹل کی طرف چل پڑا‘ میرے ساتھی بھی میرے ساتھ تھے۔
ہمارا اگلا دن مراکو سے جدائی کا دن تھا لیکن کیا مراکو کبھی ہماری روح‘ ہمارے دماغ سے بھی نکل سکے گا‘ میں نے محسوس کیا نہیں‘ہرگز نہیں‘جگہیں‘ بعض شہر‘ بعض ملک بنجاروں کی ذات کا حصہ بن جاتے ہیں اور یہ پوری زندگی ان کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں‘ مراکو بھی ایک ایسا ہی ملک ہے‘ ہم اب چاہ کر بھی مراکو کو اپنے آپ سے الگ نہیں کر سکیں گے‘ ہم اسے اندر سے نہیں نکال سکیں گے‘ شیف شان اور اس کی پتلی نیلی گلیاں ہماری نسوں میں گھل چکی ہیں‘ ہم انھیں اپنی نسوں سے خارج نہیں کر سکیں گے‘ ہم جب شیف شان سے نکل رہے تھے تو مدینہ کے آخری دروازے پر ایک چھوٹی سی کافی شاپ تھی‘ہم لوگ اپنی قومی اینگزائٹی‘ اپنی پریشان ذات کے ساتھ کافی شاپ میں گھس گئے۔
باہر شہر کی رونق بہہ رہی تھی اور ہم کافی کے گرم گھونٹ بھر کر شیشوں سے یہ رونق دیکھ رہے تھے‘ ہم لیٹ ہو رہے تھے لیکن میں نے محسوس کیا میرے ساتھی اس شہر کی فضا کو مزید انجوائے کرنا چاہتے ہیں چناں چہ میں کافی شاپ میں بیٹھ گیا‘ ہمارے آدھے ساتھی بسوں میں ہمارا انتظار کر رہے تھے‘ یہ لازمی طور پر مجھے برا بھلا کہہ رہے ہوں گے مگر میرے سامنے کھڑے لوگ خوش تھے‘ میں نے مزید ایک گھنٹے کے لیے گالیاں کھانے کا فیصلہ کیا اور خوش لوگوں کو خوش دیکھ کر خوش ہوتا رہا‘ یہ خوشی‘ شیف شان کا بجھتا دن اور فضا سے قطرہ قطرہ اترتی ہوئی نیلی شام یہ ہمارے حافظے سے کبھی محو نہیں ہو گی‘ فاس شہر کے درمیان پرانے بازار کے ایک کونے میں کبابی کباب تل رہا تھا۔
کوئلوں پر کوئلہ بنتے گوشت کا ذائقہ پورے بازار میں بکھرا ہوا تھا‘ ہم رک گئے‘ کبابی سے اشاروں سے کباب لیے اور چلتے چلتے کھاتے چلے گئے‘ بازار‘ لوگوں اور کبابوں کا ذائقہ یہ بھی ہمارے حافظے سے کبھی محو نہیں ہو گا‘ طنجہ کے ایک پرانے گھر کے سامنے نیلی آنکھوں والی ایک چھوٹی سی بچی کھڑی تھی‘ ہمارے ایک ساتھی نے جیب سے ٹافیاں نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیں‘ بچی کی آنکھوں میں خوشی کی قندیلیں روشن ہو گئیں‘ یہ قندیلیں اور یہ بچی بھی ہمارے حافظے سے کبھی محو نہیں ہو گی‘ ہم موٹروے پر ایک ریسٹ ایریا میں رکے ‘ ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔
دور دور تک آسمان بکھرا ہوا تھا‘ بکھرے ہوئے اس آسمان اور ٹھنڈی یخ بارش میں کافی یہ بھی ہمارے حافظے سے کبھی محو نہیں ہو گی اور آخر میں مراکش کی آخری رات‘ ٹھنڈی ہواؤں میں بربروں کی خوشبو اور مراکش کی تڑپتی پکارتی تاریخ کے ذائقے مجھے یقین تھا یہ بھی ہمارے حافظے سے کبھی محو نہیں ہوں گے‘ مراکو کے سات دنوں نے ہمیں اندر سے مراکی بنا دیا تھا‘ ہمارے خون میں مراکو کے ذائقے گھل گئے تھے اور ہم اگر اب چاہیں بھی تو ہم اپنے وجود سے مراکو نہیں نکال سکیں گے‘ ہمیں نویں تاریخ کا ہر چاند شیف شان‘ فاس اور مراکش لے جائے گا اور ہم دیوانی ہواؤں کی طرح تاریخ کی گلیوں میں اٹھتے‘ گرتے اور گھسیٹتے رہیں گے۔
ہم کاغذ کی طرح ایک دیوار سے دوسری اور دوسری سے تیسری دیوار سے ٹکراتے رہیں گے‘ سفر جنون ہوتے ہیں اور اچھی یادیں گرم کمبل‘ انسان ہر سرد رات میں گرم کمبلوں کی گرم یادوں میں پناہ لیتا ہے اور موسم کی ہر تبدیلی اس کے جنون سفر میں اضافہ کر دیتی ہے‘ یہ جنون اور یادوں کا یہ گرم کمبل ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گا‘ ہم کبھی اس سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔
Must Read urdu column Yadon ka neela rang By Javed chaudhry