یہ ہیں ہم – جاوید چوہدری

Javed Chaudhry

عائشہ اکرم نوجوان ٹک ٹاکر ہے‘ لاہور مینار پاکستان پر 14 اگست کو اس کے ساتھ ایک انتہائی شرمناک واقعہ پیش آیا‘ یہ مینار پاکستان پر ویڈیو بنا رہی تھی‘ گراؤنڈ میں موجود نوجوان اکٹھے ہوئے‘ جنگلا پھلانگ کر اندر آئے اور خاتون پر حملہ کر دیا‘ یہ اسے اٹھا اٹھا کر بھی پھرتے رہے‘ ہوا میں بھی اچھالتے رہے اور اس کے کپڑے بھی پھاڑ دیے اور یہ واقعہ کہاں پیش آیا‘ یہ مینار پاکستان یعنی پاکستان کی علامت پر پیش آیا اور کب آیا۔

14 اگست پاکستان کی سالگرہ کے دن آیا اور کس ملک میں پیش آیا‘ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پیش آیا اور یہ خاتون بھی پاکستانی تھی اور اس کے ساتھ بدسلوکی کرنے والے بھی پاکستانی اور آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سسٹم دیکھیں‘ خاتون نے پولیس کو تین بار فون کیا لیکن ہجوم اس کے باوجود اڑھائی گھنٹے عائشہ اکرم کے ساتھ کھیلتا رہا اور پولیس نہیں آئی اور جب آئی تو جنگلے کے دوسری طرف کھڑی ہو کر تماشا دیکھتی رہی اور اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر کیا بحث ہو رہی ہے؟

خاتون کو مینار پاکستان پر جانے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ اتنی بن ٹھن کر کیوں گئی تھی اور لوگ جب اس کی طرف دوڑ رہے تھے تو یہ وہاں سے بھاگی کیوں نہیں؟ وغیرہ وغیرہ‘ آپ منطق ملاحظہ کیجیے اور یہ منطق کس معاشرے میں بیان کی جارہی ہے‘ اس میں جس میں ہم نے یہ سن سن کر آنکھ کھولی‘ حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں ایک جوان عورت زیورات سے لدی پھدی خراسان تک چلی جاتی تھی اور کسی کو اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔

آپ یہ بھی چھوڑ دیجیے اور بتایے ‘دنیا میں اس وقت 58 اسلامی ملک ہیں‘ ان میں سے کوئی ایک ایسا اسلامی ملک بتا دیں جس میں خواتین برقعے اور گھر میں محفوظ ہوں‘ جس میں کوئی جوان بچی گھر سے نکلتی ہو اور والدین اس کے واپس آنے تک تلوار پر نہ بیٹھتے ہوں جب کہ آپ اس کے مقابلے میں ان تمام کافر ملکوں کو دیکھ لیں جن پر ہم دن رات تبریٰ بھیجتے ہیں اور جنھیں ہم دوزخ کا ایندھن کہتے ہیں‘ ان ملکوں میں کلبوں کے اندر بھی کسی مرد کو جرأت نہیں ہوتی وہ خاتون کی مرضی کے بغیر اسے دیکھ سکے یا اسے چھو سکے۔

خاوند بھی اپنی بیوی کی مرضی کے بغیر اسے ہاتھ نہیں لگا سکتا‘ آپ کو شاید یہ جان کر بھی حیرت ہو گی‘ ہم مسلمان دنیا کی واحد قوم ہیں جس کی مقدس ترین عبادت گاہ (خانہ کعبہ) میں عبادت کے لیے بھی عورت محرم کے بغیر نہیں جا سکتی‘ آپ خوف کا عالم دیکھ لیجیے ہماری عورتیں محرم کے بغیر حج اور عمرہ بھی نہیں کر سکتیں جب کہ عورتیں ویٹی کن سٹی سے لے کر لہاسا تک اکیلی جاتی ہیں اور عبادت کے بعد محفوظ واپس آ جاتی ہیں۔

میرے ایک دوست ہیں‘ یہ خود کراچی میں رہتے ہیں اور ان کی فیملی سویڈن میں‘ میں نے ان سے پوچھا‘ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سب کچھ دے رکھا ہے‘ آپ پھر سویڈن کیوں رہتے ہیں؟ وہ ہنس کر بولے ’’میری چار بیٹیاں ہیں‘ چاروں والدہ کے ساتھ اکیلی اسٹاک ہوم میں رہتی ہیں اور محفوظ ہیں جب کہ میں نے کراچی میں ان کے لیے گارڈز رکھے ہوئے تھے‘ یہ اکیلی یونیورسٹی بھی نہیںجا سکتی تھیں‘‘ آپ اسلامی اور غیراسلامی معاشرے کا فرق ملاحظہ کر لیجیے۔

مجھے آئس لینڈ جانے کا اتفاق ہوا‘ یہ دنیا کے محفوظ ترین ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر آتا ہے‘ پورے ملک میں صرف دو سو پولیس اہلکار ہیں اور یہ بھی جمعہ‘ ہفتہ اور اتوار تین دن چھٹی کرتے ہیں‘ پولیس اسٹیشن بھی صرف چار دن کھلتے ہیں جب کہ ملک میں فوج‘ نیوی‘ فضائیہ اور خفیہ ادارے یہ چاروں نہیں ہیں‘ خواتین‘ بچے اور بزرگ پورے ملک میں پھرتے رہتے ہیں اور کسی کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔

آئس لینڈ کے لوگ اپنے بچوں کو پرام میں ڈال کر گھر کے باہر رکھ دیتے ہیں‘ خود کام پر چلے جاتے ہیں اور ہمسائے اور گزرنے والے ان بچوں کا خیال رکھتے ہیں‘ ملک میں آج تک کسی بچے کے ساتھ کسی قسم کی بدسلوکی کی اطلاع نہیں آئی‘ آج سے دس پندرہ سال قبل ایک نوجوان لڑکی قتل ہوئی تھی اور یہ واردات بھی سیاحوں کے شپ میں ہوئی تھی اور لڑکی کو مارنے والے نفسیاتی مریض اور منشیات کے عادی تھے‘ پولیس نے انھیں بھی گرفتار کر لیا تھا جب کہ اسلامی ممالک میں خواتین برقعے‘ نقاب اور چاردیواری کے باوجود محفوظ نہیں ہیں‘ یہ کیا ہے اور یہ کیوں ہے؟

کیا اس کا تعلق صرف قانون اور انصاف سے ہے؟ جی نہیں‘ اگر صرف جسٹس سسٹم یا قانون کی حکمرانی اہم ہوتی تو سعودی عرب اور ایران کی خواتین پوری دنیا میں محفوظ ترین سمجھی جاتیں اور آئس لینڈ‘ سویڈن‘ ڈن مارک اور ناروے کی نوے فیصدخواتین کے ساتھ مینار پاکستان جیسے واقعات پیش آ چکے ہوتے‘ آئس لینڈ کو خواتین کے لیے انتہائی غیرمحفوظ ملک بھی ہونا چاہیے تھا‘ کیوں؟

کیوں کہ وہاں خفیہ ادارے ہیں اور نہ ہی نیوی‘ ائیرفورس اور فوج اور پولیس بھی تین دن چھٹی کرتی ہے جب کہ خواتین انتہائی مختصر لباس میں دن ہو یا رات کھلے عام پھرتی رہتی ہیں‘ ہم نے کبھی سوچا عورت وہاں کیوں محفوظ ہے اور ہماری عورتیں مقدس مقامات میں بھی محرم کے بغیر کیوں نہیں جا سکتیں؟ یہ گھروں میں بھی کیوں محفوظ نہیں ہیں؟ فرق صرف مائنڈ سیٹ کا ہے اور اس مائینڈ سیٹ کا کسی قانون اور کسی ضابطے سے کوئی تعلق نہیں‘ اگر ہوتا توخواتین کے بارے میں جتنے سخت ضابطے اور قوانین اسلام نے متعارف کرائے ہیں یورپ ان کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔

پورے یورپ میں ریپ کی بڑی سے بڑی سزا 15سال قید ہے جب کہ اسلام میں ان لوگوں کو سنگسار کر دیا جاتا ہے یا گردن اڑا دی جاتی ہے‘ ہم نے کبھی سوچا ہم گردنیں اڑانے‘ پھانسیاں دینے اور سنگسار کرنے کے باوجود خواتین کو کیوں محفوظ نہیں بنا سکے اور یورپ میں ہلکی سزائوں کے باوجود عورتیں نیم برہنگی کے عالم میں بھی راتوں کے وقت سڑکوں پر کیوں محفوظ ہیں؟ صرف سوچ کا فرق ہے۔

ہم مسلمانوں نے آج تک عورت کو جنسی استعارے سے بہتر مقام نہیں دیا جب کہ یورپ میں عورت انسان ہے‘ ہم مردوں کے برابر انسان‘آپ المیہ دیکھیے ملالہ یوسف زئی نوبل انعام کے بعد بھی پاکستان نہیں آ سکتی جب کہ یورپ نے اس مسلمان لڑکی کو نوبل انعام بھی دیا‘ یہ اسے اعلیٰ تعلیم بھی دے رہا ہے اور اسے سیکیورٹی اور عزت بھی‘ یہ فرق ہوتا ہے ایک مہذب اور محفوظ اور ایک غیرمحفوظ اور غیرمہذب معاشرے میں۔

مجھے ایک بار ایک جرمن خاتون صحافی نے بتایا تھا پاکستان خواتین کے لیے غیرمحفوظ ملک ہے‘ میں نے وجہ پوچھی تو اس کا جواب تھا پاکستان کی 52فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے لیکن اس کا دس فیصد بھی سڑکوں پر دکھائی نہیں دیتا‘ کیوں؟ کیونکہ پاکستانی عورتیں گھروں سے باہر نکلتے ہوئے ڈرتی ہیں‘ آپ کے مقابلے میں بنگلہ دیش‘ سری لنکا اور بھارت کی عورتیں زیادہ محفوظ ہیں چناں چہ آپ ان تینوں ملکوں میں جا کر دیکھ لیں‘ آپ کو صبح اور شام کروڑوں عورتیں سڑکوں پر دکھائی دیں گی۔

میں نے اس کی بات سے اتفاق نہیں کیا لیکن میں آج تسلیم کرتا ہوں میری رائے غلط تھی‘ معاشرہ عورت سے پہچانا جاتا ہے‘ عورت اگر بے خوف ہے تو معاشرہ ترقی کرے گا ورنہ یہ تباہ ہو جائے گا‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ افغانستان کو دیکھ لیجیے‘ طالبان کے پہلے دور میں خواتین ڈر سہم کر گھروں میں محبوس ہو گئی تھیں‘ کیا نتیجہ نکلا؟ دوسری طرف 2001 سے 2021 تک افغان خواتین خود کو محفوظ سمجھتی تھیں‘ اسکولوں‘ یونیورسٹیوں‘ دفتروں اور مارکیٹوں میں دکھائی دیتی تھیں لہٰذا افغانستان بدامنی کے باوجود ترقی کرتا رہا اور طالبان نے 15 اگست 2021 کو جب ایک بار پھر کابل پر قبضہ کر لیا تو کیا ہوا؟

افغان عورتیں ایک بار پھر گھروں میں محصور ہو گئیں اور پوری دنیا نے افغانستان کو دہشت سے دیکھنا شروع کر دیا اور طالبان نے بھی دنیا کو متاثر کرنے کے لیے کیا کیا؟ طالبان میڈیا ٹیم کا ممبر مولوی عبدالحق حماد خاتون کے شو میں شریک ہو گیا اور ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پہلی میڈیا ٹاک میں اعلان کیا ہم خواتین کو گھروں تک محدود نہیں رکھیں گے‘ یہ دفتروں اور تعلیمی اداروں میں بلا روک ٹوک آئیں اور دنیا نے یہ سن کر سکھ کا سانس لیا۔

ہمارے بے شمار دانشور طالبان کی واپسی کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ قرار دے رہے ہیں‘ یہ پگڑیوں کے ساتھ تصویریں بھی ریلیز کر رہے ہیں‘ میری حکومت سے درخواست ہے ہمارے ہمسائے میں کیوں کہ اسلامی ریاست قیام کے عمل سے گزر رہی ہے چناں چہ یہ ان تمام حضرات کو ان کے خاندانوں کے ساتھ کابل روانہ کر دیں تاکہ یہ اسلامی ریاست کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر سکیں اور حکومت ساتھ ہی ان پر پابندی لگا دے یہ لوگ باقی زندگی کسی کافر ملک میں قدم نہیں رکھیں گے۔

یہ افغانستان میں بیٹھیں گے اور دریائے آمو کے پل پر پیاسے کتوں کی پیاس بجھانے کا بندوبست کریں گے‘ یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں‘ بچے ان کے یورپ میں ہیں اور جشن یہ طالبان کی واپسی پر منا رہے ہیں‘ زندگی یہ فرعون کی گزارتے ہیں اور معجزے یہ حضرت موسیٰ ؑ کے چاہ رہے ہیں۔

ہمیں بہرحال آنکھیں کھولنی ہوں گی‘ ہمیں یہ حقیقت ماننا ہو گی اسلام صرف داڑھی‘ برقعے اور نماز کا نام نہیں ہے‘ یہ معاشرتی تبدیلی کا نام ہے اور ہم لوگ نمازوں‘ برقعوں اور داڑھیوں کے باوجود غیراسلامی زندگی گزار رہے ہیں۔

ہماری حالت یہ ہے 14 اگست کو ٹاک ٹاکر عائشہ اکرم کو ذلیل کرنے والوں میں آدھے نوجوان مکروہ حرکت کے بعد نماز کے لیے بادشاہی مسجد گئے تھے‘ ہم لوگ نماز چھوڑتے ہیں اور نہ ہی کسی عورت کو اور نہ ہی کسی کی املاک کو اور یہ ہیں ہم‘ فرات پر پیاسے کتے بھی گنتے ہیں اور ساتھ ہی ہمارے ہاتھ‘ آنکھ اور زبان سے کوئی خاتون محفوظ نہیں‘ اللہ ہی ہم پر رحم کرے۔

Source: Express News

Must Read Urdu column Ye hain Hum By Javed Chaudhry

Leave A Reply

Your email address will not be published.