یہ میں نہیں ابن خلدون – جاوید چوہدری
سلطان بہرام بن بہرام ایران کا بادشاہ گزرا تھا‘ اس کے دور میں ملک بری طرح تباہ ہو گیا‘ بیروزگاری‘ قحط‘ کساد بازاری‘ لوٹ کھسوٹ اور قتل وغارتگری عام ہو گئی‘ سرکاری ادارے اور فوج بھی زوال کی تہہ کو چھونے لگی‘ لوگوں نے تنگ آ کرنقل مکانی شروع کردی تھی۔
ایران میں اس زمانے میں موبذان نام کا ایک عالم دین تھا‘ اس کی بادشاہ تک رسائی تھی‘ بادشاہ ایک دن موبذان کے ساتھ بیٹھا تھا‘ باغ سے اچانک اُلو کی چیخ کی آواز آئی‘ بادشاہ نے موبذان کی ذہانت کا امتحان لینے کا فیصلہ کیا‘ وہ اس کی طرف مڑا اور اس سے پوچھا ’’مولوی صاحب ذرا یہ بتائیں یہ اُلو کیا کہہ رہا ہے‘‘ موبذان سمجھ دار اور محب وطن تھا‘ وہ ملکی حالات سے بھی پریشان تھا‘ اس نے موقع غنیمت جانا‘جان کی امان پائی اور عرض کیا ’’حضور یہ مادہ اُلو کی خوشی کی چیخ تھی‘‘ بادشاہ نے حیران ہو کر پوچھا ’’کیا مطلب؟‘‘
موبذان بولا ’’حضور آپ کے باغ میں ایک نر اُلو نے مادہ اُلو سے شادی کی درخواست کی‘ مادہ اُلو نے حق مہر میں بیس برباد بستیاں مانگ لیں‘ نر نے جواب میں کہا‘ تم فکر نہ کرو اگر بہرام بادشاہ رہا تو میں تمہیں بیس نہیں ایک ہزار اجڑی ہوئی بستیاں دے دوں گا‘ یہ سن کر مادہ نے خوشی سے چیخ ماری‘‘ غفلت کے شکار بادشاہ کو جھٹکا لگا‘ اس نے دربار میں موجود تمام لوگوں کو باہر نکال دیا اور تخت سے اترکر موبذان کے ساتھ بیٹھ گیا اور پوچھا ’’کیا واقعی میرے ملک میں یہ حالات ہیں‘‘ موبذان نے جرات سے جواب دیا ’’بادشاہ سلامت حالات اس سے کئی گنا دگرگوں ہیں‘‘
بادشاہ نے وجہ پوچھی تو موبذان نے بتایا ’’بادشاہ سلامت ریاست شاہی اختیار کا نام ہوتی ہے اور شاہی اختیار کے تین عناصر ہوتے ہیں‘ تخت‘ فوج اور بیوروکریسی‘ یہ تین عناصر جتنے مضبوط ہوں ملک اتنے ہی مضبوط ہوتے ہیں اور ان تینوں عناصر کو عوام مضبوط بناتے ہیں‘ عوام زراعت اور کاروبار کے سہارے زندہ رہتے ہیں‘ کاروبار اور زراعت کا زمین کی آبادکاری کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اور آباد کاری انصاف کے بغیر ممکن نہیں ہوتی چنانچہ آپ اگر کسی ملک کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ وہاں سے صرف انصاف ختم کر دیں۔
امیر اور کاری گر لوگ اپنی زمینیں جائیدادیں بیچ کر وہاں سے نقل مکانی کر جائینگے‘ نقل مکانی سے کاروبار اور کھیت ویران ہو جائینگے‘ ان کی ویرانی سے عوام کا اعتماد ختم ہو جائے گا‘ یہ اپنا روپیہ پیسہ چھپا لیں گے‘ ملک کو ٹیکس نہیں ملے گا‘ ٹیکس کی کمی سے بیورو کریسی اور فوج کم زور ہو جائے گی‘ آخر میں تخت بھی زمین بوس ہو جائے گا اور یوں شاہی اختیار بھی ختم ہو جائے گا اور ہمارے ملک میں اس وقت یہ ہو رہا ہے‘ آپ کی ناانصافی کی وجہ سے شہر کے شہر اجڑ رہے ہیں اور اُلو ہزار ہزار بستیاں حق مہر میں دے رہے ہیں‘‘
بادشاہ کو پسینہ آ گیا اور اس نے پوچھا ’’ میں نے کیا غلطی کی‘‘ موبذان بولا ’’آپ کی ریاست کاشت کاروں اور بزنس مینوں کے ٹیکسوں پر چل رہی تھی‘ آپ نے حکومت سنبھالتے ہی ملک کے تمام کارآمد لوگوں کو چور‘ ڈاکو اور بے ایمان قرار دے کر ان کے کھیت‘ کارخانے اور کاروبار اپنے ملازموں‘ مصاحبوں اور دوستوں میں تقسیم کر دیے‘ آپ کے دوست بے کار اور نالائق لوگ تھے‘ یہ کاروبار چلا سکے اور نہ کاشت کاری کر سکے۔
آپ نے ان کا ٹیکس بھی معاف کر دیا اور انھیں خزانے سے قرضے بھی دے دیے‘ دوسری طرف حکومت عام بزنس مینوں اور کاشت کاروں سے بدستور ٹیکس وصول کرتی رہی‘ اس کے نتیجے میں کام کرنے والوں کو محسوس ہوا ہم کتنے بے وقوف ہیں‘ ہم کام بھی کر رہے ہیں‘ ٹیکس بھی دے رہے ہیں اور جوتے بھی کھا رہے ہیں جب کہ نالائق اوربے کار لوگوں نے اہل لوگوں کی زمینیں‘ جائیدادیں اور کاروبار بھی لے لیے ہیں اور حکومت انھیں سپورٹ بھی کر رہی ہے لہٰذا انھوں نے کام بند کر دیا‘ یہ بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کربیٹھ گئے‘ ٹیکس کولیکشن کم ہوگئی۔
حکومت نے ان پر دبائو ڈالنا شروع کر دیا‘ پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی‘ ان لوگوں نے سامان باندھا اور یہ ان ملکوں میں جا بسے جہاں ان کی عزت بھی تھی اور زمین جائیداد بھی محفوظ تھی اور یوں یہ بستیاں اجڑنے لگیں‘ سرکاری ریونیو کم ہونے سے بیوروکریسی اور فوج کی تنخواہیں اور مراعات بھی کم ہو گئیں‘ یہ بھی کم زور ہو گئے اور دوسرے ملک ہمارے علاقوں پر قبضے کرنے لگے‘‘
بادشاہ پریشان ہو گیا اور اس نے موبذان سے پوچھا ’’کیا میں ان حالات کو ٹھیک کر سکتا ہوں‘‘ موبذان نے جواب دیا ’’بادشاہ سلامت بڑی آسانی سے‘ آپ لوگوں کو ضمانت دیں ملک میں ان کی جائیدادیں اور کاروبار قرآن مجیدکی طرح محفوظ رہیں گے‘ ان پر حکومت سمیت کوئی طاقت قبضہ نہیں کر سکے گی‘ حالات چند ماہ میں ٹھیک ہو جائیں گے‘‘ بادشاہ اٹھا‘ اس نے اسی وقت زمینوں‘ جائیدادوں اور کاروبار کو تحفظ دے دیا‘ ملک میں قانون بن گیا کسی کی ایک چپہ زمین پر قبضہ نہیں ہو گا‘ لوگ جتنا چاہیں کمائیں یہ ریاست کو ٹیکس دیں‘ ملازموں کو بروقت تنخواہیں دیں اور اپنے کاروباری معاہدوں پر عمل کریں‘ملک کا کوئی شخص‘ کوئی ادارہ ان سے سوال نہیں کرے گا۔
بادشاہ نے لفظ قبضہ تک پر پابندی لگا دی اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے حالات بدل گئے‘ لوگوں نے اجڑے کھیت اور برباد بستیاں آباد کرنا شروع کر دیں‘ ٹیکس کولیکشن بڑھی‘ ٹیکس سے بیورو کریسی اور فوج کی طاقت میں اضافہ ہوا‘ سرحدیں محفوظ ہو ئیں اور سلطان بہرام اپنے دور کا سب سے بڑا بادشاہ بن گیا۔
سلطان بہرام اور موبذان کا یہ واقعہ ابن خلدون نے مقدمہ میں لکھا تھا‘ میں نے اسے عمران خان اور آپ کے لیے آسان الفاظ میں بیان کر دیا‘ ابن خلدون کا کہنا تھا تہذیب اور تمدن کا تعلق بازار اور منڈیوں سے ہوتا ہے‘ ان میں جتنی چہل پہل ہو گی اتنی اس ملک کی آمدنی ہو گی اور جتنی زیادہ آمدنی ہو گی اتنی ہی اس ملک کی بیوروکریسی‘ فوج اور تخت مضبوط ہو گا اور جتنا تخت مضبوط ہوگا اتنا ہی ملک کی تہذیب اور تمدن شان دار ہوگا‘ ابن خلدون کا کہنا تھا اگر کوئی بادشاہ اپنی سلطنت کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہے تو وہ صرف دو کام کرے‘ وہ لوگوں کو کمانے کا موقع دے اور وہ لوگوں کو ان کی زمینوں‘ مکانوں‘ دکانوں‘ جائیدادوں اور مال کا تحفظ دے دے دنیا کی کوئی طاقت ملک کو ترقی سے نہیںروک سکے گی۔
ہم آج دنیا کو دوحصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں‘ ایک وہ دنیا جس میں ہرشخص کا روزگار‘ ترقی کے مواقع اور زمین جائیداد بائبل کی طرح محفوظ ہیں اور دوسرے وہ ملک جن میں لوگوں کے مال کے ساتھ عزت اور عزت نفس بھی غیرمحفوظ ہے‘ آپ کو پہلے ملک ترقی یافتہ اور دوسرے تنزلی کے پاتال میں لڑھکتے نظر آئیں گے‘فرق ’’مال کا تحفظ‘‘ ہے‘ دنیا میں اس وقت دو ہزار چھ سو چار کھرب پتی ہیں‘ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے ان میں سے ایک بھی شخص کسی نیب کی حراست میں نہیں‘ دنیا میں لوگ روز دیوالیہ ہوتے ہیں لیکن یہ صرف لوگ ہوتے ہیں ادارے نہیں۔
ریاست اداروں‘ فیکٹریوں اور کمپنیوں کو بند نہیں ہونے دیتی‘دنیا کس قدر بزنس فرینڈلی ہے آپ اس کا اندازہ صرف ایک مثال سے لگا لیجیے‘ آپ کے پاس اگر ایک ملین ڈالر ہیں تو آپ خواہ دنیا کے کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوں آپ خاندان سمیت دنیاکے کسی بھی ملک کی شہریت لے سکتے ہیں‘ امریکا‘ کینیڈا اور یورپ سمیت دنیا کے تمام ترقی یافتہ ملک آپ کو پاسپورٹ دے دیں گے‘ کیوں؟
کیوں کہ آپ کمانے کا ہنر جانتے ہیں اور پوری دنیا کو کمانے والے لوگ چاہیے ہوتے ہیں جب کہ پاکستان کے تمام ارب پتی نیب کو مطلوب ہیں اور ان کے خاندان اس وقت ملک سے باہر بیٹھے ہیں‘ ان سب کی جیبوں میں غیر ملکی پاسپورٹ بھی ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ جانتے ہیں اس ملک میں ان کا مال‘ جائیداد اور کاروبار محفوظ نہیں ہے چنانچہ یہ فاختائوں کی طرح اپنے انڈے محفوظ ملکوں میں رکھ رہے ہیں‘ دنیا میں ارب پتی بڑھ رہے ہیں جب کہ یہاں کم ہو رہے ہیں‘کیوں؟ خوف! آپ خوف کا عالم دیکھیے ہمارے وزراء اور مشیروں کی جیبوں میں بھی غیرملکی پاسپورٹ ہیں اور ان کے خاندان بھی دوسرے ملکوں میں ہیں۔
آپ ججوں‘ جرنیلوں‘ سیکریٹریوں‘ بزنس مینوں‘ جاگیرداروں حتیٰ کہ ایکٹروں تک کے خاندانوں کاڈیٹا نکال کر دیکھ لیجیے آپ کو ننانوے فیصد بااثر لوگوں کے بچے ملک سے باہر ملیں گے‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ ان کو بھی یہاں محفوظ نہیں سمجھتے اور آپ ملک میں پچاس سال سے اوپر لوگوں کے انٹرویوز بھی کرلیں آپ کو ننانوے اعشاریہ ننانوے فیصد میچور لوگ اپنے منہ سے کہتے ملیں گے’’ اس ملک میں کچھ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں‘ انسان بس اتنا کرے جتنی اسے ضرورت ہے‘‘ یہ درویشی‘ درویشی نہیں یہ تباہی ہے۔
آپ یاد رکھیں ہم جب ملک ریاض‘ حسین دائود‘ میاں منشاء‘طارق سہگل اورصدرالدین ہاشوانی جیسے لوگوں کو عبرت کی نشانی بنا دیں گے‘ حکومت جب اپنے ہاتھوںسے ان کی فیکٹریوں اور کمپنیوں کو تالے لگا دے گی تو پھر ملک نہیں چل سکے گا‘ ہم سلطان بہرام کا ملک بن جائیں گے اور یہ میں نہیں کہہ رہا یہ ابن خلدون نے ہزار سال پہلے کہہ دیا تھا چنانچہ آپ اگر ملک کو کامیاب دیکھناچاہتے ہیں تو پھر آپ لوگوں کو زمین‘ جائیداد‘ مال اور کاروبار کا تحفظ دے دیں‘ آپ یہ فیصلہ کر لیں ملک میں کاروبار کرنے والوں کو وزیر جتنی عزت دی جائے گی۔
کسی شخص کی ایک انچ زمین اور سو روپے پر بھی کوئی شخص‘ کوئی ادارہ قبضہ نہیں کر سکے گا‘یقین کریں یہ ملک دس سال میں سو سال کے برابر ترقی کر جائے گا ورنہ غیر محفوظ جگہوں پر تو پرندے بھی انڈے نہیں دیتے جب کہ ہم تو پھر بھی انسان ہیں‘ہم دلدل پر اپنے بچے اور اپنے اثاثے کیوں رکھیں گے؟ جس ملک میں جمائما عمران خان کے بچے بھجوانے کے لیے تیار نہیں وہاں حسین دائود اپنے بچے اور پیسے کیوں رکھے گا؟
Must Read urdu column Ye mai nahin Abn e Khuldon by Javed Chaudhry