یہ زوال ایسے ہی نہیں آیا ! – ارشاد بھٹی
بہت کوشش کی سیاست پر لکھوں، سینیٹ چسکے، بیک ڈورملاقاتوں، لندن سے آئی ہدایتوں، پی ڈی ایم کے جوڑ توڑ،پی ٹی آئی کی اندرونی گروہ بندی، نیب کے ایک مہمان کا بتاؤں جو ہر ملنے والے کو ایک مزیدار کہانی سنا رہا، جیل میں بیٹھے اس ’بڑے‘ کا بتاؤں جو چند اپنوں کو مسلسل کوس رہا، بہت کوشش کی کہ لکھوں اپوزیشن کا سینیٹ الیکشن کے بعد پلان اے، پلان بی کیا، اپوزیشن کے 3اجلاسوں میں چیئرمین سینیٹ کے حوالے سے کیا بحث ومباحثہ ہوا، بہت کوشش کی کہ اپنی بحران پالو سیاست، ہائے میں لٹی گئی سیاست، 12مصالحوں والی سیاست پر لکھوں، مگر تمام ترکوشش کے باوجود دل نہ مانا، ذہن تیار نہ ہوا،ویسے لکھتا بھی کیسے، بڑے ایسے جوا نڈے کلو کے حساب سے بیچ رہے، جن کی تقریروں کے علاوہ عوام کہیں نہیں، جنہوں نے سردی گرمی اپنے محلات کی کھڑکیوں سے دیکھی اور جنہوں نے بھوک، غربت کے قصے سن یا پڑھ رکھے، آپ ہی بتائیے، یہ صورتحال ہو، بندہ کیا لکھے،، پھر سوچا، پنجاب، خیبرپختونخوا کرپشن کہانیاں لکھوں، ہر جماعت کی اے ٹی ایم مشینوں کے بارے میں لکھوں، دل نہ مانا،بلکہ اس موقع پر مجھے اپنا وہ بڑا یاد آگیا جس نے پچھلے ہفتے ہی کہا، بہت نیگٹو ہوگئے ہو، ہر وقت مایوسی کی باتیں، کبھی لوگوں کو امید بھی دلا دیا کرو، میں نے کہا، آپ نے تو مجھے اس خاوند جیسا بنا دیا، جس نے بیوی کو موبائل میسج کیا کہ ’’ تم نگیٹو ہو‘‘بیوی کا میسج آیا’’اور تم ضدی ہو،بددماغ ہو،خود غرض ہو، کنجوس، ڈھیٹ ہو،بے قدرے، موٹے اور بھدے ہو‘‘خاوند نے جوابی میسج کیا’’ ارے کیا کہہ رہی ہو، میں تو تمہیں بتا رہا تھا کہ تمہارا کورونا ٹیسٹ نگیٹو آیا ہے ‘‘ اس کے بعد اس ’بڑے‘ نے جو کہا وہ تو یہاں لکھا نہیں جا سکتا، ہاں البتہ ان باتیں سن کر میں نے انہیں یہ ضرور سنادیا کہ مشتاق احمد یوسفی نے کہیں لکھا، چہل قدمی کے دوران چنددنوں میں ایک محترمہ سے تعلق ہوگیا، ایکدن محترمہ نے پوچھا آپ کیا کرتے ہیں، میں نے کہا کتابیں لکھتا ہوں، اس نے مجھ سے میری ایک کتاب پڑھنے کیلئے لی، اگلے ہفتے میں نے پوچھا، کتاب کیسی لگی، بولیں، شکل سے تو آپ اتنے لچے نہیں لگتے، اس پر بڑے صاحب نے یہ کہہ کر مجھے لُچا کہا، پھر جو لچے پن کا ثبوت دیا،توبہ توبہ۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی، میں کہہ رہا تھا،بہت کوشش کی کہ سیاست اور سیاسی جھنجھٹوںپر لکھو ں، نہ لکھا جاسکا تو مجھے یاد آیا، ان دنوں زراعت یتیم، اس پر کچھ لکھ دیا جائے، مجھے پتا، آپ بورہوں گے مگر جو زراعت کا حال ہو چکا،دل چاہ رہا لکھوں، تو سنیے، پاکستان بنا، پنجاب تقسیم ہوا، پنجاب کے 17ضلع ہمیں ملے جبکہ پنجاب کے 13ضلع بھارت کو ملے، آج بھارت کے 13ضلع ایک کروڑ 20لاکھ افراد کو Feedکررہے ہیں جبکہ ہمارے 17ضلعوں اور زراعت کا حال یہ کہ گندم ہم امپورٹ کر رہے ہیں، چینی ہم امپورٹ کر رہے ہیں، کپاس ہم امپورٹ کر رہے ہیں، دالیں ہم امپورٹ کررہے ہیں، بائبرڈ چاول ہم امپورٹ کررہے ہیں، آئل ہم امپورٹ کر رہے ہیں، سبزیوں کے بیج ہم امپورٹ کررہے ہیں، مکئی کا بیج ہم امپورٹ کر رہے ہیں، اور پتا ہے یہ سب امپورٹ کتنے کی پڑتی ہے، یہ ٹوٹل امپورٹ ہمیں پڑتی ہے 8سے 10ارب ڈالر کی، ہم نے گھٹنے ٹیک کر اور آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط مان کر کتنا قرضہ لیا، 6ارب ڈالر، یہ قرضہ کئی سالوں میں قسط وار ملے گا،جبکہ یہاں صرف زرعی بدحالی کی قیمت ہمیں سالانہ پڑرہی 8سے 10ارب ڈالر ۔
یہ زرعی زوال ایسے نہیں آیا، اس کیلئے ہم نے بہت محنت کی، 1992میں ہماری کپاس کی پیداوار تھی ایک کروڑ 28لاکھ گانٹھیں جبکہ بھارت کی کپاس پیداوار تھی ایک کروڑ 10لاکھ گانٹھیں، آج ہمارے ہاں کپاس ہورہی ہے 56لاکھ گانٹھیں جبکہ بھار ت میں 4کروڑ گانٹھ، یہ زوال ایسے نہیں آیا، اس کیلئے ہم نے بڑی محنت کی، ہمارے ہاں زراعت کا ریسرچ بجٹ زراعت کے جی ڈی پی کا 0.18جبکہ بھارت کا پوائنٹ فور اور چین کا پوائنٹ فائیو، یہ زوا ل ایسے ہی نہیں آیا، اس کیلئے ہم نے بڑی محنت کی، اڑھائی سال پہلے کسان کو ڈی اے پی کھا دکی بوری ملتی تھی 25سو روپے کی، آج مل رہی 5ہزار کی، اڑھائی سال پہلے کسان کو بجلی کا یونٹ 5روپے 35پیسے میں پڑتا تھا، آج 12روپے فی یونٹ پڑرہا، اوپر سے بیج مہنگا، لیبر مہنگی، یہ زوال ایسے ہی نہیں آیا، اس کیلئے ہم نے بڑی محنت کی، اپنی حکومت کی ترجیحات بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب کہ اپنے حکمرانوں کی نظر میں زراعت کی یہ اہمیت کہ کورونا میں وزیراعظم عمران خان نے تمام شعبوں کو 12سو ارب کی سبسڈی دی، زراعت کیلئے 63ارب کی سبسڈی رکھی گئی، سب شعبوں کو پیسے مل چکے، زراعت کو ابھی تک ایک پیسہ نہیں ملا، یہ زوال ایسے نہیں آیا، اس کیلئے ہم نے بڑی محنت کی، حفیظ شیخ اور رزاق داؤد نے مبینہ طور پر اڑھائی برسوں میں جو نقصان زراعت کو پہنچا دیا، اسکا تصور ناممکن، اپنے کسان رُل رہے، اخباروں میں اشتہارات کے ذریعے حکومت سے مدد کی اپیلیں کر رہے، ٹیکسٹائل، شوگر مافیا مزے کر رہا، اندازہ کریں، اپنے کسانوں سے گندم 18سور وپے فی من، روسی کسانوں سے گندم خریدی گئی ساڑھے بائیس سو روپے فی من، اپنے کسان سے گنا خریدنے کیلئے ایک روپیہ زیادہ دینے پر کوئی تیار نہیں جبکہ چینی کی قیمت ایک ایک دن میں پانچ پانچ روپے فی کلو بڑھ چکی۔
چھوڑیں میں کس رونے دھونے میں پڑ گیا، یہاں دیواروں سے کیا سرٹکرانا، بھینس کے آگے کیا بین بجانی، کس کو کسانوں کا احسا س، کس کو زراعت کی فکر، بس بھاشنوں کیلئے یہ فقرہ کافی کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، اپنے کسانوں اور حکمرانوں کی محبت دیکھ کر وہ باپ بیٹے یاد آجائیں، باپ نے بڑے بیٹے سے کہا، میرے لئے ایک گلاس پانی لانا، بیٹا بولا، سوری ابو میں گیم کھیل رہا ہوں، میں نہیں لا سکتا، اتنے میں پاس بیٹھا چھوٹا بیٹا بولا، ابو یہ تو ہے ہی بدتمیز، جائیں آپ خود جاکے پانی پی لیں، مطلب پاکستان ایک زرعی ملک،کسان ریڑھ کی ہڈی مگر یہ جانیں اور ان کے مسائل جانیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
Source: Jung News
Read Urdu column Ye Zawal Aesey hi Nahin aya By Irshad Bhatti