یہ دنیا اور وہ دنیا (2) – حسن نثار
واقعی ایک ہی جہان میں رہتے ہوئے بھی کرگسوں اور شاہینوں کے جہان میں زمین و آسمان کا سا فرق ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ قومیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے پروں کی مدد سے نئی دنیائیں دریافت کر رہی ہیں جبکہ نام نہاد ترقی پذیر قومیں مضحکہ خیز تضادات و فروعات میں غرق ہیں اور ان کی سیاسی، فکری، مذہبی اشرافیہ کو اندازہ ہی نہیں کہ کبھی قوموں میں سو پچاس سال سے زیادہ کا فرق نہیں ہوتا تھا جبکہ آج کی دنیا میں قوموں کے درمیان ایک سال میں ایک صدی کا فاصلہ بڑھ رہا ہے لیکن افسوس بری طرح پچھاڑے جانے اور پیچھے رہ جانے کے باوجود ہارے ہوئے لوگ کچھ سوچنے سمجھنے اور حکمت عملی تبدیل کرنے کو تیار نہیں کیونکہ حکمت عملی تو وہاں ہوتی ہے جہاں حکمت نام کی کوئی شے موجود ہو جبکہ یہ حماقتوں کے ہمالیہ ہیں جو مسلسل ایک جیسی حماقتوں کا ارتکاب کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ اس بار نتیجہ بلکہ نتائج مختلف ہوں گے۔اس کالم کی گزشتہ قسط میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ مہذب دنیا اک فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہو چکی اور آنے والے چند عشروں میں دنیا کا چہرہ تقریباً اسی طرح تبدیل ہونے والا ہے جیسے مغربی دنیا میں صنعتی انقلاب کے بعد تبدیل ہوا تھا لیکن یہاں تو احمقانہ ایشوز ہی تبدیل نہیں ہو رہے جس کا انجام بہت بھیانک ہو گا یعنی…. مزید کمزور، مزید کمی اور کامے۔چند
مثالیں پہلے پیش کی تھیں، چند مزید حاضر ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے اور کسی غلام کو یہ حسرت نہ رہے کہ کسی نے در یار پر پلکوں سے دستک نہ دی تھی۔’’میں نے پلکوں سے در یار پہ دستک دی ہے‘‘ہم میں سے کتنے لوگ جانتے ہیں کہ سرجیکل پروسیجرز میں Roboticsکا رول اور عمل دخل کس حد تک پہنچ چکا ہے۔ سیلف ڈرائیونگ کاروں کا موسم سر پر ہے اور وہ وقت دور نہیں جب کاروں کی ضرورت ہی نہ ہو گی اور یہ تانگوں کی طرح قصۂ پارینہ ہو جائیں گی۔ آپ فون پر کار بلائیں گے، وہ آپ کی لوکیشن پر پہنچے گی اور آپ کو آپ کی منزل پہ پہنچا دے گی۔ پارکنگ کا کوئی رولا نہیں۔ آپ فاصلہ کے مطابق کرایہ ادا کریں گے۔ بغیر ڈرائیور کی اس کار میں سفر کے دوران بھی آپ Productiveرہ سکیں گے اور ڈرائیونگ لائسنس بھی ’’خطوں‘‘ کی طرح خواب ہو جائیں گے۔ تب یہ پارکنگ لاٹس پورچ گیرج کدھر ہوں گے؟ حادثات کی شرح حیرت ناک حد تک گر جائے گی تو ذرا سوچیں انشورنس کمپنیوں کا کیا بنے گا؟ کار انشورنس بزنس ماڈل کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ رئیل سٹیٹ کا تصور ہی تبدیل ہو جائے گا۔ الیکٹرک کارز عشرہ کے اندر اندر مین سٹریم ہو جائیں گی اور ان کی وجہ سے شور، آلودگی میں نمایاں کمی ہو گی۔ بجلی انتہائی سستی اور ستھری ہو گی۔ سولر پروڈکشن ایک نئی کروٹ لے رہی ہے۔ ادھر ہم جیسے چمپو ابھی تک ’’تھانہ کلچر‘‘ کی تبدیلی کے خواب سے ہی بیدار نہیں ہو رہے حالانکہ پورے کا پورا گلوبل کلچر ہی انقلابی تبدیلیوں کے عمل سے گزر رہا ہے جو انسانی رویے اور رشتے بھی تبدیل کر کے رکھ دے گا۔ذرا غور کیجئے کہ سولر انرجی کا جن بوتل سے پوری طرح برآمد ہونے پر جو تقریباً ہو چکا، ان روایتی بجلی کمپنیوں کا کیا حشر ہو گا؟ ان گرڈ سٹیشنوں کا کیا بنے گا کالیا؟ وکیلوں سے لے کر ڈرائیوروں اور ’’واپڈائوں‘‘ کے ملازموں کے لشکروں تک ’’فارغ‘‘ ہوئے تو بے روزگاری کے سونامیوں کا سوچو لیکن ہمیں تو چاند دیکھنے سے ہی فرصت نہیں۔ ڈیم نہیں بنانے تو نہ بنائو نالائقو! صحیح معنوں میں زندہ قومیں یہاں بھی کرم فرمائیں گی۔ کیسے؟ سستی بجلی کے ساتھ ہی سستا صاف پانی بھی آئے گا کیونکہ….”Desalination of Salt Water Now Only Needs 2 kwh Per Cubic Meter @ 0.25 Centts”کیا ہم 22کروڑ غیور باشعور اس بدلتی دنیا کا حصہ بننے کے لئے تیار ہیں یا اغیار پر انحصار ہمیں مزید طفیلیا بنا دے گا؟ تصور کرو جب حرام خوروں سے بچ کر ہر کوئی تقریباً مفت پینے کا صاف پانی حاصل کر سکے گا لیکن ان سب ’’مفتوں‘‘ کی کوئی نہ کوئی قیمت ضرور ہو گی جس کا اندازہ ہمارے علماء کو یقیناً ہو گا۔روتے ہیں ہسپتالوں کو تو اسی سال Tricorder X Priceانائونس ہونے جا رہی ہے۔ ایسی کمپنیاں ہیں جو میڈیکل ڈیوائس پیش کریں گی جو آپ کے سیل فون کے ساتھ منسلک ہو گی۔ Retina Scan اور خون کا نمونہ لے کر موج کرائیں گی۔ 54بائیو مارکرز تقریباً ہر مرض کو بے نقاب کر دیں گے۔ یہ سب بہت ہی سستا ہو گا یعنی مستقبل قریب میں اس کرہ ارض پر ہر شخص کی پہنچ ورلڈ کلاس Medical Analysisتک ہو گی اور وہ بھی تقریباً مفت یعنی پوری میڈیکل اسٹیبلشمنٹ کا اللہ ہی حافظ لیب ٹیسٹنگ کی شیطانیاں اور منافع خوریاں بھی گئیں سمجھو ڈاکٹرز بھی تقریباً وکیلوں کے نقش قدم پر۔ ان کی جگہ Robots اور Devices۔صنعتی انقلاب کے بعد جنہوں نے عصر حاضر کے خدوخال تراشے، انہوں نے ہی دنیا کو ڈکٹیٹ کیا، باقی سب چھان بورا اور Also Ranٹائپ ’’خود مختاریاں‘‘ جو آج اس دنیا کو اک نئے مرحلہ میں داخل کر چکے، وہ کیا کریں گے؟ ہم جیسوں کی حیثیت کیا ہو گی؟(جاری ہے حالانکہ بیحد بھاری ہے)
Source: Jung News
Read Urdu column Yeh duniya aur wo duniya 2 By Hassan Nisar