یہ دنیا اور وہ دنیا(1) – حسن نثار

hassan-nisar

ڈیم بنے گا، نہیں بنے گا؟چاند کون دیکھے گا کیسے دیکھے گا؟ دیکھنا ضروری ہے یا غیر ضروری؟میڈیم اردو یا انگریزی؟چھٹی جمعہ کی یا اتوار کی؟نظام پارلیمانی، صدارتی یا چوں چوں کا مربہ؟فلاناں چور ہے یا ڈاکو؟ سنت ہے، صوفی ہے یا سادھو؟18ویں ترمیم میں ترمیم ہونی ہے کہ نہیں ہونی؟وہ’’صاحب‘‘ ہے یا ’’صاحبہ‘‘؟NROہوگا یا نہیں ہوگا؟صوبہ بنے گا نہیں بنے گا؟مفروروں کو واپس لایا جاسکے گا یا نہیں؟وزیراعظم سلیکٹڈ ہے یا الیکٹڈ؟اصلی ہے یا کٹھ پتلی؟ایمنسٹی اسکیم صحیح ہے یا غلط؟ وغیرہ وغیرہ وغیرہیہ اور اِس طرح کے دیگر ’’اہم‘‘ مسائل کی دلدلوں میں دھنسے ہم لوگ کتنے خوش قسمت ہیں کہ برسہا برس سے بنیادی ترین مسائل پر مشقِ سخن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اِن تخلیقی مصروفیات سے جو وقت بچتا ہے وہ ایسی خوشبخریوں میں صرف ہوجاتا ہے کہ’’حمزہ، سلمان شہباز کے ریکارڈ سے مزدوروں کے نام اربوں روپے نکل آئے‘‘۔’’شہباز کی اہلیہ اور بیٹوں نے جعلی ناموں سے اربوں روپے اکائونٹس میں جمع کروا کر دیہاڑی دار کا نام لکھ دیا‘‘۔’’مزدوروں سے تفتیش کی گئی تو کچا چٹھا سامنے آگیا، نیب نے تفتیش اور تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا‘‘۔ادھر سپریم کورٹ نے ہماری ریڑھ کی ہڈی یعنی پٹواری نظام کے بارے میں کہا ہے کہ یہ انتہائی فرسودہ ہوچکا جبکہ حقیقت یہ

کہ کون سا نظام ہے جو فرسودگی کی انتہائوں کو نہیں چھو رہا۔ چند مثالیں تو گزشتہ کالم میں پیش کرچکا اور سچی بات ہے اب تو اُن کا ذکر کرتے ہوئے بھی شرم آنے لگی ہے۔ رہ گئے ملکی معیشت کی بدحالی پر مگر مچھوں کے آنسو اور اُن پھپھے کٹنیوں کے ٹسوے تو اُس کے پسِ منظر میں حمزہ اور سلمان شہباز کے ریکارڈ سے مزدوروں کے نام نکلنے والے اربوں روپے ہی کافی ہیں۔ پھر بھی صدقے جائوں اُن لوگوں کے جو برسوں صفایا کرنے کے بعد دہائیاں دے رہے ہیں کہ تجوری خالی کیوں ہے؟ خزانہ غائب صرف سانپ سرسراتے اور پھنکارتے پھر رہے ہیں۔مختصراً یہ کہ ایک طرف ہماری یہ دنیا ہے جو دلدلوں میں دھنستے چلے جانے کی ایسی دردناک قسط وار کہانی ہے کہ اُس کے سامنے یونانی المیے بھی طربیے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف سائونڈ بیرئیرز توڑ چکی وہ ترقی یافتہ دنیا جن کے ایشوز ہی کچھ اور ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا یعنی پڑھی لکھی دنیا یعنی تخلیق، تعمیر، ایجاد، اختراع کی دنیا نے صنعتی انقلاب کی کوکھ سے جنم لیا اور پوری دنیا کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا، سب کچھ تہہ و بالا کردیا اور انسان کو وہ دنیا دان کی جس میں آج وہ دندناتا پھرتا ہے۔ آج کے انسان کی زندگی سے صرف ایک’’بجلی‘‘ نکال دو تو چشمِ زدن میں کنگال ہو کر پھر سے غاروں میں پہنچ جائے۔ آج کے ’’بھوکے ننگے‘‘ کو بھی ایسی ایسی اَن گنت جادوئی سہولتیں دستیاب ہیں جن کا تصور بھی ماضی کے حکمرانوں کے لئے ناممکن تھا۔دنیا کا چہرہ نقشہ تبدیل کر دینے والے شہرۂ آفاق صنعتی انقلاب کے بعد دنیا اک نئے مرحلہ میں داخل ہوچکی ہے جس کا ہم جیسے رویت ہلالیوں، ’’میڈیم‘‘ کے ماروں، 18ویں ترمیموں کے پیاروں، ٹی ٹیوں کے یاروں کو شعور تک نہیں جبکہ اصلی دنیا کے موضوعات اور مسائل ہی کچھ اور ہیں مثلاًڈیملر مرسیڈیز بنیز کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اب اُن کی کمپنی کا مقابلہ دنیا کے کار مینوفیکچررز نہیں بلکہ Apple, Google, Tesla, Amazonکے ساتھ ہے لیکن ہمارے پیارے مفتی منیب صاحب اس جملے پر غور فرمانا پسند نہیں کریں گے۔کوئی’’عالم‘‘ یہ جاننا پسند نہیں کرے گا کہ آئندہ صرف 20سال کے اندر اندر اِس دنیا میں کیسی ڈرامائی اور ناقابل یقین تبدیلیاں نوشتہ دیوار ہیں، صرف 5تا 10سال کے اندر اندر سافٹ وئیر روایتی صنعتوں کی دھجیاں بکھیر دے گا۔اور (Uber)صرف ایک سافٹ وئیر ٹول ہے۔ اُن کے پاس ایک کار بھی اپنی نہیں لیکن وہ دنیا کی سب سے بڑی ٹیکسی کمپنی ہے لیکن اُس پر کوئی فکری کنگ کانگ اپنے زنگ زدہ ذہن پر زور ڈالنا پسند نہیں کرے گا۔ائیر بس دنیا کی سب سے بڑی ہوٹل کمپنی ہے حالانکہ اُس کے پاس پانچ مرلے کی ایک عمارت بھی نہیں لیکن میرا مسئلہ یہ ہے کہ میری شلوار کا پائنچا میرے گٹوں سے اوپر ہونا چاہئے یا نیچے یا عین گٹوں کے اوپر، صدقے جاواں اپنے’’مسائل‘‘ کے۔مصنوعی ذہانت (Artificial intelligence)انسانی ذہانت کو چپیڑیں رسید کر رہی ہے۔ کمپیوٹرز کو دنیا کا انسانوں سے کہیں بہتر’’ادراک‘‘ …….’’شعور‘‘ اور ’’فہم‘‘ ہے جبکہ میرا ’’مسئلہ‘‘ یہ ہے کہ نیل پالش خواتین کی زندگیوں پر کیسے اثرات مرتب کرتی ہے۔ جب بغداد پر تاتاری حملہ آور ہوئے تو وہاں کے روحانی رہنما یہ گتھی سلجھا رہے تھے کہ کوا حرام ہے یا حلال۔امریکہ میں جواں سال وکیلوں کو ابھی سے بے روزگاری کا سامنا ہے اور آنے والے سالوں میں وکیل تبرک کے طور پر باقی رہ جائیں تو غنیمت ہوگی اور وجہ ہے اس کی IBM Warsonجس کے قانونی مشورے وکیلوں سے بدرجہا بہتر ہوں گے یعنی اگر ایک بیرسٹر کے مہنگے مشورے میں 70فیصد Accuracyہوگی تو ’’مشینی مشورہ‘‘ میں 90فیصدAccuracy ہوگی اور یہ ملے گا بھی چند سیکنڈز کے اندر اندر اور مشورہ سیانوں کا یہ ہے کہ اگر آپ وکالت کررہے ہیں تو فوراً اِس سے جان چھڑائیں۔ مستقبل قریب میں 90فیصد وکیلوں کا صفایا ہوجائے گا(ہماری زیریں عدالتوں کے لئے عظیم خوشخبری)۔ وکالت کے پیشے میں صرف10 فیصد انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ غیر معمولی صلاحیتوں کے حاملSpecialists ہی باقی رہ جائیں گے اور یہ پیشہ ’’خس کم جہاں پاک‘‘ ہوجائے گا۔’’واٹسن‘‘ ابھی سے کینسر کی تشخیص میں طبی عملہ کی مدد کررہا ہے جو انسانی تشخیص سے 4گنا بہتر ہے۔ فیس بک کاPattern Recognition سافٹ وئیر ابھی سے چہروں کو شناخت کرنے میں انسانوں سے بہتر کارکردگی دکھا رہا ہے اور اب صرف جگر تھام کر نہیں دل، دماغ تھام کر سنئے کہ زیادہ سے زیادہ 2030تک کمپیوٹرز انسانوں سے زیادہ ذہین ہوں گے اور یہ بات غیر متنازع ترین ہوگی۔مختلف قسم کے ٹھیکے دارو!اللہ کا واسطہ…….ہم پہلے ہی پٹے پٹائے اپنے حریفوں سے صدیوں پیچھے اُن کے عقلی گھوڑوں کی ٹاپوں کی دھول بن کے رہ گئے ہیں۔ سوچو آنے والے پچاس سو سالوں میں کیا رہ جائیں گے؟ لیکن ہمارے لئے تو IMFکی تازہ ترین ڈکٹیشن بھی کافی نہیں کہ ’’اسلام کے قلعہ‘‘ میں ہو کیا رہا ہے۔کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں(جاری ہے حالانکہ بہت بھاری ہے)گے۔

Source: Jung News

Read Urdu column Yeh duniya ur woh duniya1 By Hassan Nisar

Leave A Reply

Your email address will not be published.