یہ غداری، فوج دشمنی کا فتویٰ دینے والے ہوتے کون ہیں؟… – انصار عباسی
کچھ عرصہ قبل ایک ریٹائرڈ جنرل صاحب نے ٹی وی ٹاک شو کے دوران سیاست، احتساب اور سیاسی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر بحث کے دوران مجھ پر Anti-Armyاور فوج کا دشمن ہونے کا فتویٰ جاری کیا لیکن دوسرے ہی دن ایک اور ٹی وی ٹاک شو کے دوران اُنہوں نے اپنے الفاظ واپس لے لیے۔ کوئی ایک دو ہفتوں بعد اُنہی ریٹائرڈ جنرل صاحب نے، ابھی میں نے کچھ کہا بھی نہیں تھا، ایک بار پھر مجھ پر وہی فتویٰ لگا دیا۔ میں نے جواب میں اُنہیں کہا کہ Anti-Armyمیں نہیں بلکہ آپ سمیت وہ لوگ ہیں جو فوج کا نام استعمال کرکے سیاسی معاملات میں مداخلت کرنے والوں کا دفاع کرتے ہیں، جس سے بدنامی فوج کی ہوتی ہے جبکہ میں تو اُن لوگوں میں شامل ہوں جو سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے مستقبل اور اس کی سالمیت کے لیے فوج کا ادارہ لازم و ملزوم ہے اور اسی لیے میں اُن لوگوں میں سے ہوں جو اس بات کے قائل ہیں کہ فوج کو سیاسی معاملات میں مداخلت سے بہر حال دور رکھا جائے کیونکہ اگر ایسا نہیں ہو گا تو چند افراد کی وجہ سے پوری فوج بدنام ہو گی۔ ٹاک شو کے دوران جنرل صاحب میرے خلاف اپنے فتویٰ پر ڈٹے رہے۔ باوجود اس کے کہ شو کی میزبان نے جنرل صاحب کو کہا کہ وہ غیر مناسب بات کر رہے ہیں۔ جب شو ختم ہوا تو اسٹوڈیو میں موجود تمام افراد کے سامنے اُنہی جنرل صاحب نے مجھے گلے لگا کر دوسروں سے میری تعریف کی۔ اس پر میں نے جو جواب دیا وہ یہاں لکھنا میں مناسب نہیں سمجھتا۔ اس واقعہ کا ذکر میں اس لیے کر رہا ہوں کہ یہاں ایک طبقہ ایسا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ اُس کو حق حاصل ہے کہ جسے مرضی چاہے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دے اور جسے چاہے غدار یا فوج کا دشمن قرار دیدے۔ ابھی چند دن پہلے میں نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ کے ذریعے ایک چھوٹے بچے کی فوجی انداز میں مارچ اور سیلوٹ کی وڈیو ٹویٹ کی جسے بہت سراہا گیا۔ لیکن ایک صاحب جو ٹویٹر میں اپنی اصل شناخت ظاہر نہیں کرتے اور جو ایک اہم قومی ادارے میں اہم پوزیشن پر کام کر رہے ہیں، نے میرے اس ٹویٹ کے جواب میں لکھا ’’آج کل انصار عباسی کے دل میں فوج کی محبت بہت جاگ رہی ہے۔ قبلِ مسیح کے وڈیوز ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے ٹویٹر پر لگا رہا ہے۔ آج اس کا قائد جیل میں سے مودی کے حق میں بیان دیدے پھر دیکھو اس کی قلابازیاں۔ یہ اسکواڈرن لیڈر حسن صدیقی کا استعفیٰ مانگنے میں بھی دیر نہیں کرے گا‘‘۔یہ وہ مائنڈ سیٹ ہے جس کی خواہش ہے کہ اُن کے علاوہ ہر پاکستانی کو غدار بنا دیا جائے۔ اہم قومی اداروں میں بیٹھ کر میڈیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سیاستدانوں کے متعلق اس قسم کے پروپیگنڈا کرنے پر ایسے افراد کے خلاف ایکشن لیا جانا چاہئے کہ یہ ہوتے کون ہیں کہ دوسروں کے خلاف غداری یا پاکستان اور فوج دشمنی کے فتوے جاری کرتے رہیں۔ ایسے افراد کے ٹویٹر اکائونٹس کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا جیسے انہوں نے ٹھیکہ لے رکھا ہے کہ کسی کو محبِ وطن نہ رہنے دیا جائے اور جو اُن سے اختلاف کریں یا اُن کے رائے کے مطابق بات نہ کریں، وہ نہ تو ملک سے محبت کرتے ہیں اور نہ ہی پاکستان کی افواج کو پسند کرتے ہیں۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ اس مائنڈ سیٹ کو پاکستانی قوم کی بھارتی جارحیت کے نتیجے میں پائی جانے والی بے مثال یکجہتی بھی برداشت نہیں ہو رہی۔ افسوس کہ تین بار پاکستان کے منتخب وزیراعظم نواز شریف سے بھی کچھ لوگوں کا بغض اس حد تک گہرا ہے کہ وہ اُن کی بھی حب الوطنی پر سوال اٹھاتے ہیں۔ نواز شریف بھارت سے امن کی بات کرے تو مودی کا یار لیکن اگر عمران خان ایسی بات کرے تو وہ محب الوطن۔ ایسا نہیں کہ قوموں میں غدار پیدا نہیں ہوتے لیکن یہ کون سا طریقہ ہے کہ سیاسی اختلاف کی وجہ سے بغیر کسی ثبوت یا شہادت کے جسے چاہے ملک دشمن قرار دے دیا جائے۔ حالیہ بھارتی جارحیت کے جواب میں جس انداز میں افواجِ پاکستان خصوصاً پاک فضائیہ نے بھارت کو پوری دنیا کے سامنے بے توقیر کیا اور پاکستان کا نام روشن کیا، اس سے پاکستانی عوام کے دلوں میں اپنی افواج، سے محبت میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ اس موقع پر اس بات کی اشد ضرورت ہے ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کی جائے جو دفاعی اداروں کا نام یا اُن کا پلیٹ فارم استعمال کرکے سیاست کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے بدنامی اداروں کی ہوتی ہے۔ پاکستان کو اپنی اُس تاریخ سے سبق سیکھنا چاہئے جس میں چند افراد افواج کا نام استعمال کر کے ملک میں مارشل لاء لگاتے رہے، سیاسی جماعتوں اور سول حکومتوں کو بنانے، بگاڑنے کے کام میں مشغول رہے۔ ایسے افراد اور ایسی تاریخ کا دفاع نہ تو ملک کے حق میں ہے اور نہ ہی افواجِ پاکستان کے وقار کے لیے بہتر ہے۔
Source: Jung News