یہ ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے- جاوید چوہدری

javed.chaudhry

دنیا میں تین جگہیں ایسی ہیں جہاں آپ زندگی کی اصل حقیقت جان سکتے ہیں‘ ہم کیا ہیں‘ ہماری اوقات کیا ہے‘ ہماری حسرتوں‘ ہماری خواہشوں اور ہماری سماجی‘ معاشرتی اور معاشی ترقی کی حیثیت کیاہے اور ہماری نفرتوں‘ ہماری رقابتوں اور ہماری دشمنیوں کی اصل حقیقت کیا ہے؟ آپ مہینے میں ایک بار ان جگہوں کا وزٹ کر لیا کریں آپ کو اپنے ظاہر اور باطن دونوں کی اوقات سمجھ آ جائے گی۔

میں اکثر ان جگہوں پر جاتا ہوں اور کسی کونے میں چپ چاپ بیٹھ کر زندگی کی اصل حیثیت دیکھتا ہوں اور پھر پوری طرح چارج ہو کر واپس آ جاتا ہوں۔ یہ تین جگہیں قبرستان‘ اسپتال اور جیل ہیں۔ آپ کبھی اپنا سب سے قیمتی سوٹ پہنیں‘ شیو کریں‘ جسم پر خوشبو لگائیں‘ جوتے پالش سے چمکائیں‘ اپنی سب سے مہنگی گاڑی نکالیں اور شہر کے سب سے بڑے قبرستان میں چلے جائیں‘ آپ ایک کونے سے دوسرے کونے تک قبروں کے کتبے پڑھنا شروع کریں۔
آپ تمام قبروں کا اسٹیٹس دیکھیں‘ آپ کو محسوس ہوگا ان قبروں میں سوئے ہوئے زیادہ تر لوگ اسٹیٹس کے لحاظ سے آپ سے کہیں آگے تھے‘ یہ لوگ آپ سے زیادہ مہنگے سوٹ پہنتے تھے‘ دن میں دو‘ دو بار شیو کرتے تھے‘ ان کے پاس زیادہ مہنگی پروفیومز تھیں‘ یہ اطالوی جوتے خریدتے تھے اور ان کے پاس آپ سے زیادہ مہنگی اور لگژری گاڑیاں تھیں لیکن آج یہ مٹی میں مل کر مٹی ہو چکے ہیں اور قبر کا کتبہ ان کی واحد شناخت رہ گیا ہے۔

آپ کو محسوس ہوگا یہ لوگ رتبے‘ اختیار اور تکبر میں بھی آپ سے بہت آگے تھے‘ مکھیاں بھی ان کی ناک پر بیٹھنے سے پہلے سو سو بار سوچتی تھیں‘ ہوائیں بھی ان کے قریب پہنچ کر محتاط ہو جاتی تھیں اور یہ کبھی اس زمین‘ اس ملک اور اس سسٹم کے لیے ناگزیر سمجھے جاتے تھے لیکن پھر کیا ہوا‘ ایک سانس ان کے پھیپھڑوں سے باہر نکلی اور واپس جانے کا راستہ بھول گئی اور اس کے بعد یہ لوگ دوسروں کے کندھوں پر سفر کرتے ہوئے یہاں پہنچے اور زندگی انھیں فراموش کر کے واپس لوٹ گئی اور اب ان کا مرتبہ‘ ان کے اختیارات‘ ان کا تکبر اور ان کی ناگزیریت دو فٹ کے کتبے میں سمٹ کر رہ گئی۔
آپ قبرستان کی کسی شکستہ قبر کے سرہانے بیٹھ جائیں‘ اپنے ارد گرد پھیلی قبروں پر نظر ڈالیں اور اپنے آپ سے یہ سوال پوچھیں ’’میرے پاس کتنا وقت باقی ہے؟‘‘ آپ کو اس سوال کے جواب میں تاریکی‘ سناٹے اور بے بسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ آپ اسی طرح کبھی کبھی اسپتالوں کا چکر بھی لگا لیا کریں‘ آپ کو وہاں اپنے جیسے سیکڑوں ہزاروں لوگ ملیں گے‘ یہ لوگ بھی چند دن‘ چند گھنٹے پہلے تک آپ کی طرح دوڑتے‘ بھاگتے‘ لپکتے اور شور مچاتے انسان تھے‘ یہ بھی آپ کی طرح سوچتے تھے کہ یہ زمین پر ایڑی رگڑیں گے تو تیل کے چشمے پھوٹ پڑیں گے‘ ان کا بھی خیال تھا یہ پائوں مار کر زمین دہلا دیں گے اور ان کو بھی یہ گمان تھا کہ دنیا کا کوئی وائرس‘ کوئی جراثیم اور کوئی دھات انھیں نقصان نہیں پہنچا سکتی لیکن پھر ایک دن زندگی ان کے لیے عذاب بن گئی۔

ان کے پائوں‘ ان کے ہاتھ‘ ان کی آنکھیں‘ ان کے کان‘ ان کا جگر‘ ان کا دل‘ ان کا دماغ اور ان کے گردے ان کے ساتھ بے وفائی کر گئے اور یہ اپنے ٹھنڈے گرم محلوں سے نکل کر اسپتال کے بدبودار کوریڈورز کے مسافر بن گئے‘ آپ اسپتالوں کی پرائیویٹ وارڈز اور مہنگے پرائیوٹ اسپتالوں کا چکر ضرور لگایا کریں‘ آپ کو وہاں وہ لوگ ملیں گے جو مہنگے سے مہنگا ڈاکٹر اور قیمتی سے قیمتی ترین دوا خرید سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ بے بسی کے عالم میں اسپتالوں میں پڑے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ انسان ڈاکٹر اور دوا تو خرید سکتا ہے لیکن شفاء نہیں اور یہ لوگ قدرت کے اس قانون کے قیدی بن کر اسپتالوں میں پڑے ہیں‘ آپ مریضوں کو دیکھیں‘ پھر اپنے آپ کو دیکھیں‘ اللہ کا شکر ادا کریں اور صحت کی اس مہلت کو مثبت طریقے سے استعمال کریں۔

آپ جیلوں کا چکر بھی لگایا کریں‘ آپ کو وہاں ایسے سیکڑوں ہزاروں لوگ ملیں گے جو کبھی آپ کی طرح آزاد پھرتے تھے‘ یہ رات کے تین بجے کافی پینے نکل جاتے تھے‘ یہ سردیوں کی یخ ٹھنڈی راتیں اپنے نرم اور گرم بستر پر گزارتے تھے لیکن یہ کسی دن کسی اپنے حیوانی جذبے کے بہکاوے میں آ گئے‘ یہ کسی کمزور لمحے میں بہک گئے اور طیش میں‘ عیش میں یا پھر خوف میں ان سے کوئی ایسی غلطی سرزد ہو گئی جس کی پاداش میں یہ لوگ سلاخوں کے پیچھے پہنچ گئے اور یہ اب جیل کے معمول کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
آپ سزائے موت کے قیدیوں سے بھی ضرور ملیں‘ آپ کو ان سے مل کر محسوس ہوگا ہم لوگ رقابت کے جذبے کو ایک لمحے کا سکھ دینے کے لیے‘ ہم اپنی انا کو گنے کے رس کا ایک گلاس پلانے کے لیے‘ ہم ایک منٹ کے لیے اپنی ناک کو دوسروں کی ناکوں سے بلند رکھنے کے لیے اور ہم دوسروں کی ضد کو کچلنے کے لیے بعض اوقات ایسی غلطی کر بیٹھتے ہیں کہ موت بھی ہم پر ترس کھانے سے انکار کر دیتی ہے اور ہم جیل کی سلاخیں پکڑ کر اور اللہ سے معافی مانگ مانگ کر دن کو رات اور رات کو دن میں ڈھلتا ہوا دیکھتے ہیں لیکن ہماری سزا پوری نہیں ہوتی۔ آپ جیل کے قیدیوں کو سلاخوں کے پیچھے کھڑے ہو کر اپنی بیویوں کو حسرتوں سے دیکھتے ہوئے دیکھئے۔

آپ ان کی کانپتی ہوئی ان انگلیوں کو دیکھئے جو اپنے بچوں کے لمس کو ترس گئی ہیں‘ آپ ان کے بے قرار پائوں دیکھئے جنھیں آزادی کا احساس چکھے ہوئے کئی برس بیت گئے ہیں اور آپ ان کی آنکھوں میں تیرتے ہوئے ان رت جگوں کی فصلیں بھی دیکھئے جو انھوں نے اپنی غلطی‘ اپنی کوتاہی اور اپنے جرم پر معافی مانگ مانگ کر اگائی ہیں لیکن قدرت یہ فصل کاٹنے پر راضی نہیں ہو رہی۔

آپ ان لوگوں کو دیکھئے‘ اپنے اوپر نگاہ ڈالیے اور پھر یہ سوچئے آپ پر بھی دن میں ایسے سیکڑوں ہزاروں کمزور لمحے آتے ہیں‘ آپ بھی لالچ کے بہکاوے میں آتے ہیں‘ آپ بھی غرور اور تکبر کے مائونٹ ایورسٹ پر چڑھ جاتے ہیں‘ آپ بھی رقابت کے نرغے میں آ کر دوسرے لوگوں کی زندگیوں کو کھیل بنا لیتے ہیں‘ آپ بھی غیرت کے سراب میں الجھ کر دوسروں کا خون پینے کا فیصلہ کرتے ہیں اور آپ بھی دوسروں کے مال کو اپنا بنانے کے منصوبے بناتے ہیں لیکن کوئی نادیدہ ہاتھ‘ کسی دوست کی کوئی نصیحت اور حالات کی کوئی مہربانی آپ کو روک لیتی ہے۔

آپ باز آ جاتے ہیں اور یہ بھی ہوتا ہے قدرت آپ پر خاص مہربانی کرتے ہوئے آپ کی خامیوں‘ آپ کی کوتاہیوں‘ آپ کی غلطیوں‘ آپ کے گناہوں اور آپ کے جرائم پر پردہ ڈال دیتی ہے‘ یہ آپ کو گواہیوں‘ ثبوتوں‘ قانون اور کچہریوں سے بچائے رکھتی ہے لیکن آپ قدرت کی اس مہربانی کو اپنی چالاکی‘ اپنا کمال سمجھ لیتے ہیں‘ آپ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں آپ چارلس سوبھراج ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے قانون کی آنکھوں میں خاک جھونکنے کے لیے دنیا میں بھیجا ہے اور دنیا کا کوئی قانون‘ کوئی ضابطہ آپ کو کبھی پکڑ نہیں سکے گا۔

آپ کو قبرستانوں‘ اسپتالوں اور جیلوں میں بیگناہ‘ معصوم اور انتہائی شریف لوگ بھی ملیں گے‘ یہ لوگ کبھی کوئی ضابطہ‘ کوئی اصول نہیں توڑتے تھے‘ یہ اس قدر محتاط لوگ تھے کہ یہ آب زم زم بھی ابال کر پیتے تھے‘ یہ دودھ‘ دہی اور مکھن کے لیے اپنی بھینسیں پالتے تھے اور دیسی مرغی کا شوربہ پیتے تھے‘ یہ ہمیشہ رات نو بجے سو جاتے تھے اور صبح پانچ بجے اٹھ جاتے تھے اور ان سے پوری زندگی کوئی بے اعتدالی‘ کوئی غفلت سرزد نہیں ہوئی‘ آپ ایسے لوگ بھی دیکھیں گے جو آرام سے اپنے گھر میں سوئے ہوئے تھے‘ جو اپنی لین میں گاڑی چلا رہے تھے یا فٹ پاتھ پر اپنی سمت میں جا رہے تھے اور آپ کو ایسے لوگ بھی ملیں گے جنہوں نے پوری زندگی قانون کا احترام کیا۔

یہ تھانے کے سامنے سے گزرتے ہوئے سر جھکا لیتے تھے اور نیلی پیلی ہر قسم کی یونیفارم کو سلام کر کے آگے جاتے تھے اور جو دوسری جنگ عظیم کے دوران بننے والے قوانین کا بھی احترام کرتے تھے اور جنہوں نے آج بھی سائیکل پر بتی لگوا رکھی تھی لیکن پھر یہ لوگ دوسرے کردہ جرائم میں محبوس ہو گئے‘ یہ بے گناہ ہونے کے باوجود قانون کے نہ کھلنے‘ نہ ٹوٹنے والے دانتوں میں پھنس گئے‘ آپ کو ایسے لوگ بھی ملیں گے جو کھیرا کاٹنے سے پہلے اسے ڈیٹول سے دھوتے تھے لیکن یہ لوگ بھی اسپتال کے مستقل مہمان بن گئے اور ایسے لوگ بھی جو فٹ پاتھ پر دوسروں کی موت کا نوالہ بن گئے‘ جو کسی آوارہ گولی کا نشانہ بن گئے یا پھر ان کے سر پر کوئی طیارہ آ کر گر گیا۔

آپ ان لوگوں کو دیکھئے اور اس کے بعد اپنے اوپر نگاہ ڈالیے اور پھر سوچئے یہ طیارہ آپ پر بھی گر سکتا ہے‘ دوسری لین سے کوئی گاڑی اڑ کر آپ کے موٹر سائیکل‘ آپ کی گاڑی پر بھی گر سکتی ہے اور ڈاکٹر اچانک آپ کو بھی کینسر کا مریض ڈکلیئر کر سکتے ہیں یا پھر آپ کے دل کے اندر بھی اچانک درد کی ایک لہر دوڑ سکتی ہے اور آپ کو کلمہ تک پڑھنے کی مہلت نہیں ملتی۔ یہ سب کچھ ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے‘ یہ ہم بھی ہو سکتے ہیں لہٰذا آئیے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور اس مہلت‘ اللہ تعالیٰ کی اس مہربانی پر اس کا شکریہ ادا کریں اور کبھی کبھی جیلوں‘ اسپتالوں اور قبرستانوں میں بھی ایک گھنٹہ گزار لیا کریں کیونکہ یہ تین ایسی جگہیں ہیں جہاں گئے بغیر ہمیں زندگی کی اصل حقیقت‘ اپنی اوقات اور اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں کا اندازا نہیں ہو سکتا۔

Source

Must Read urdu column Yeh humaray sath bhi ho sakta hai By Javed Chaudhry

Leave A Reply

Your email address will not be published.